سانچہ:مزار حسین کا خط الوقت

مزار حسین کا خط الوقت[1]
61ھ‍ (12 محرم) سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کا مزار بنانے والے بنو اسد تھے۔
65ھ‍ امیر مختار نے مزار پر اینٹوں اور چونے کا گنبد تعمیر کروایا۔
132ھ‍ ابو العباس سفاح نے مرقد کے ساتھ ایک سرپوشیدہ عمارت بنوائی۔
146ھ‍ ابو جعفر منصور نے اس عمارت کو ویران کیا۔
158ھ‍ مہدی عباسی نے اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
171ھ‍ ہارون الرشید نے عمارت کو ویران کیا اور قریب ہی بیری کا درخت بھی کٹوا دیا۔
193ھ‍ امین نے حرم کی عمارت کو از سر نو تعمیر کیا۔
236ھ‍ متوکل عباسی نے عمارت کو ویران کردیا اور زمین میں ہل چلوایا۔
247ھ‍ منتصر عباسی نے بلڈنگ کی تعمیر نو کروائی؛ علویوں اور سب سے پہلے سید ابراہیم مجاب نے مرقد امام(ع) کے اطراف میں سکونت کا آغاز کیا۔
273ھ‍ تحریک طبرستان کے قائد محمد بن محمد بن زید کے ہاتھوں حرم کی تعمیر نو۔
280ھ‍ علوی داعی نے قبر کے اوپر ایک گنبد بنوایا۔
367ھ‍ عضد الدولہ دیلمی نے حرم کے لئے ایک گنبد، چار ڈیوڑھیوں اور ہاتھی دانت سے بنی ضریح کی تعمیر کا اہتمام کیا اور شہر کے لئے برجوں اور فصیل کا انتظام کیا۔
397ھ‍ عمران بن شاہین، نے رواق سے متصل اپنے نام پر ایک مسجد تعمیر کی۔
407ھ‍ دو شمعیں گرنے کی وجہ سے حرم آگ میں جل گیا، وزیر حسن بن سہل نے حرم کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
479ھ‍ ملک شاہ سلجوقی، نے حرم کے اطراف کی دیوار کی مرمت کروائی۔
620ھ‍ ناصر لدین اللہ عباسی، نے مرقد امام(ع) کے لئے ایک ضریح بنوائی۔
767ھ‍ سلطان اویس جدایری نے اندرونی گنبد بنوایا اور قبر شریف کے گرد ایک صحن قرار دیا۔
786ھ‍ سلطان احمد اویس، نے حرم کے لئے دو سنہرے گلدستے قرار دیئے اور صحن کی توسیع کا اہتمام کیا۔
914ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی حرم کے کناروں پر سونے کا کام کروایا اور سونے کے 12 چراغدان حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
920ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی، نے ساج کی قیمتی لکڑی کا ایک صندوق ضریح کے لئے بنوایا
932ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی دوئم نے چاندی کی جالیدار اور خوبصورت ضریح حرم کو بطور عطیہ پیش کی۔
983ھ‍ علی پاشا، شہرت "وند زادہ" نے گنبد کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
1032ھ‍ شاہ عباس صفوی نے تانبے کی ضریح بطور عطیہ پیش کی اور گنبد پر کاشی کاری کا کام کروایا۔
1048ھ‍ سلطان مراد چہارم (عثمانی) نے حکم دیا کہ حرم کو باہر سے چونا لگا کر سفید کیا جائے۔
1135ھ‍ نادر شاہ افشار کی زوجہ نے حرم امام (ع) کی وسیع تعمیر نو کی غرض سے بہت سے اموال حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
1155ھ‍ نادرشاہ افشار نے موجودہ عمارتوں کی تزئین کا اہتمام کیا اور حرم کے گنجینے کو بیش بہاء عطیات پیش کئے۔
1211ھ‍ آقا محمد خان قاجار نے طلائی گنبد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
1216ھ‍ نو ظہور وہابی مذہب کے پیروکاروں نے کربلا پر حملہ کیا، ضریح اور رواق کو ویراں کردیا اور حرم کے اموال کو لوٹ کر لے گئے۔
1227ھ‍ فتح علی شاہ قاجار، نے عمارت کی تعمیر نو اور گنبد پر لگے طلائی اوراق کی تبدیلی کا حکم دیا۔
1232ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے چاندی کی ضریح بنوائی اور ایوانوں پر سونے کا کام کروایا۔
1250ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے گنبد و بارگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا اور حضرت غازی عباس کے مزار پر بھی گنبد تعمیر کیا۔
1273ھ‍ ناصر الدین شاہ، نے گنبد کی تعمیر نو اور طلاکاری کی مرمت کروائی۔
1418ھ‍ انتفاضۂ شعبانیہ میں صدام نے گنبد کو توپوں کا نشانہ بنایا اور طلا کاری کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔
1428ھ‍ صحن کو جدید انداز سے مسقف کیا گیا۔
1431ھ‍ حرم حضرت غازی عباس (ع) کے گلدستوں پر طلا کاری کا کام کیا گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ص244-246.

مآخذ ترمیم

  • علوی، احمد، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم: معروف، 1389 ھ ش.