مختار بن ابو عبید الثقفی (عربی: ٱلْمُخْتَار ٱبْن أَبِي عُبَيْد الثَّقَفِيّ؛ تقریباً 622 – 3 اپریل 687) کوفہ میں ایک علوی حامی انقلابی تھے، جنہوں نے 685ء میں اموی خلافت کے خلاف بغاوت کی اور دوسری فتنے کے دوران اٹھارہ ماہ تک عراق کے بیشتر حصے پر حکومت کی۔

مختار ثقفی
(عربی میں: المختار الثقفي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 622ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طائف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 اپریل 687ء (64–65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات لڑائی میں ہلاک   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش طائف
مدینہ منورہ
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ام ثابت بنت سمرہ
عمرہ بنت نعمان   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ام سلمہ بنت مختار   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابو عبید بن مسعود ثقفی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد ،  والی ،  انقلابی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ خلافت راشدہ کی فوج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں جنگ صفین ،  محاصرہ مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

طائف میں پیدا ہونے والے مختار کم عمری میں عراق منتقل ہوگئے اور کوفہ میں پرورش پائی۔ 680ء میں کربلا کے معرکے میں اموی فوج کے ہاتھوں اسلامی نبی محمد کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کے بعد، انہوں نے مکہ میں حریف خلیفہ عبد اللہ ابن زبیر سے اتحاد کیا، مگر یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہا۔ مختار واپس کوفہ آ گئے جہاں انہوں نے علی کے بیٹے اور حسین کے بھائی محمد ابن حنفیہ کو مہدی اور امام قرار دیا اور علوی خلافت کے قیام اور حسین کے قتل کا بدلہ لینے کی دعوت دی۔ اکتوبر 685ء میں انہوں نے کوفہ پر قبضہ کر لیا، زبیری گورنر کو نکال باہر کیا اور بعد میں حسین کے قتل میں ملوث افراد کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ ابن زبیر کے ساتھ مخاصمت بالآخر مختار کی موت پر منتج ہوئی جب بصرہ کے زبیری گورنر مصعب ابن زبیر کے فوجیوں نے چار ماہ کے محاصرے کے بعد انہیں شہید کر دیا۔

اگرچہ مختار کو شکست ہوئی، لیکن اس کی تحریک کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی وفات کے بعد، اس کے پیروکاروں نے ایک انتہا پسند شیعہ فرقہ تشکیل دیا، جسے بعد میں کیسانیہ کہا جانے لگا۔ انہوں نے کئی نئے عقائد وضع کیے اور بعد میں آنے والی شیعہ نظریات پر اثرات مرتب کیے۔ مختار نے موالی (اسلام میں غیر عرب نو مسلم) کے سماجی مقام کو بلند کیا اور وہ ایک اہم سیاسی قوت بن گئے۔ موالی اور کیسانیہ نے ساٹھ سال بعد عباسی انقلاب میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مختار عرب اور غیر عرب مسلمانوں کو برابر سمجھنے کے ابتدائی حامیوں میں سے تھے۔ سنیوں میں وہ ایک متنازع شخصیت ہیں؛ انہیں جھوٹا نبی قرار دیا جاتا ہے، جب کہ اکثر شیعہ انہیں علویوں کے حمایتی کے طور پر احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جدید مورخین کے نزدیک مختار کے بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ انہیں ایک مخلص انقلابی قرار دیتے ہیں تو کچھ انہیں ایک موقع پرست سمجھتے ہیں۔

ابتدائی حالات

مختار ثقفی یکم ہجری میں طائف میں پیدا ہوئے مگر پرورش مدینہ میں ہوئی۔ نام مختار اور کنیت ابواسحاق تھی۔ تعلق بنی ہوازن کے قبیلہ ثقیف سے تھا۔ اسی لیے انھیں مختار ثقفی بھی کہا جاتا ہے۔[1] ان کے والد کا نام ابو عبید ہ ثقفی تھا جنہیں حضرت عمر نے عراق کی ایک مہم میں سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا جہاں وہ شہید ہو گئے۔ مختار ثقفی کے بچپن میں ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انھیں زیرک و دانا کہہ کر پیار فرمایا اور فرمایا یہ میرے حسین کے قاتلوں سے انتقام لے گا۔ [2]

واقعات

آپ عبید اللہ ابنِ زیاد کی قید میں اہلبیت سے محبت کے جرم میں قید رہے جس طرح امام حسین کی شہادت کے وقت بیشتر محبانِ علی کو قید میں بند کر دیا گیا تھا- تاریخ میں قیدیوں کی یہ تعداد کئی لاکھ لکھی ہوئی ہے، یعنی کوفے کے اہلبیت سے محبت کرنے والوں کو قید کرکے عبید اللہ ابنِ زیاد نے ایسے دین فروش افراد کے سپرد کوفہ کر دیا جنھوں نے امام حسین کے بھیجے ہوئے اپنے خاص سفیر اور تایا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو یک و تنہا کر دیا اور یوں انھیں حالتِ مظلومیت میں شہید کر دیا گیا۔ مختار باہر کے واقعات سے بے خبر اس بات کی توقع لگائے ہوئے تھے کہ ہمارے آقا حسین کی آمد کے ساتھ ہی یہ سختیاں ختم ہوجائیں گی اور امام حسین کو ان کا جائز حقِ خلافت جو معاویہ کی روایتی اُموّی مکاری اور دغا بازی کے سبب امام حسن کی حکومت سے دستبرداری کا سبب بنا امام حسین کو مل جائے گی۔ مگر جب امیر ِ مختار کو امام حسین رض کے عالمِ مظلومیت میں شھید ہونے کی خبر ملی پھر آپ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی اہلیبیت سے محبت نے آپ کو مجبور کیا کے قاتلوں کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کر دیں۔۔ ابنِ زیاد خواہش کے باوجود ممکنہ سیاسی و دیگر وجوہ کی بنا پر انھیں قتل نہ کرا سکا۔ مختار ثقفی عبداللہ بن عمر کی بہن کے شوہر تھے اور ان کی اپنی بہن کی شادی حضرت عبد اللہ بن عمر کے ساتھ ہوئی تھی۔ قید سے رہا ہونے اور واقعاتِ کربلا سے آگاہی کے بعد امیر مختار نے قسم کھائی کہ قاتلانِ شہدائے کربلا کا بدلہ لیں گا۔ پہلے مختار ثقفی نے عبد اللہ بن زبیر کے خروج میں ان کا ساتھ دیا مگر جب عبد اللہ بن زبیر نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کر لی تو ان سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ مدینہ سے کوفہ چلے گئے۔ وہاں اپنی تحریک کو منظم کیا اور 685ء میں خروج کیا۔[3] اس وقت ان کے ساتھ ابراہیم بن مالک اشتر بھی مل گئے جو ایک مشہور جنگجو تھے اور ان کے پاس اپنی کچھ فوج بھی تھی۔ انھوں نے بصرہ اور کوفہ میں جنگ کی اور بے شمار قاتلانِ شہدائے کربلا سے بدلہ لیا۔ جن میں عمر بن سعد، حرملہ، شمر، ابنِ زیاد، سنان بن انس وغیرہ شامل تھے۔ ابنِ زیاد کا سر کاٹ کر امام زین العابدین کی خدمت میں بھجوایا گیا جسے دیکھ کر انھوں نے اہلِ بیت کو سوگ ختم کرنے کا کہا۔

آپ کے فضائل

جناب مختار ائمہ معصومین علیھم السلام کی نظر میں 1: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب تک مختار نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کا سر نہیں بھیجا بنی ہاشم کی کسی خاتون نے سر میں کنگھی اور خضاب نہیں لگایا۔ [4] آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم خوی رح نے اس روایت کو صحیح بتایا ہے۔ [5] 2: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مختار کو برا نہ کہو انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ان سے انتقام لیا۔ سخت حالات میں ہماری مدد اور بیوا خواتین کی کفالت کی۔ [6] 3: روایت میں ہے کہ جب جناب مختار نے عبید اللہ بن زیاد اور عمر سعد کا سر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے سجدہ شکر کیا اور فرمایا "جَزىَ اللهُ المُختارَ خَیراً" خدا مختار کو جزاے خیر دے۔ [7] وہ تمام روایتیں جو جناب مختار کے خلاف پیش کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ آپ کی شخصیت کو مشکوک اور آپ کی توہین کی جاتی ہے ان کو بزرگ محقق علما نے جعلی بتایا ہے بلکہ علامہ مجلسی رح نے فرمایا : مختار فضائل اہلبیت کو بیان کرتے اور امیر المومنین امام علی علیہ السلام و حسنین کریمین علیھماالسلام کے صفات حسنہ کو نشر فرماتے، آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امامت و حکومت کا حق فقط اہلبیت علیھم السلام کو ہے۔ اور حکومتوں کے ذریعہ جو مصیبتیں اہلبیت علیھم السلام پر پڑی ان سے آپ رنجیدہ و غمزدہ تھے۔ [8] علامہ باقر شریف القرشی رح نے لکھا: مختار، شیعوں کی ایک برجستہ شخصیت اور آل رسول ص کی شمشیروں میں سے تھے۔ ان کا دل اہلبیت علیھم السلام پر جو مظالم دھاے گئے ہیں اس کے لیے سب سے زیادہ بے چین رہتا، وہ اپنے جہاد میں کوشاں رہتے کہ کیسے حکومت حاصل کر لیں، لیکن یہ تمنا اپنے لیے نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعہ اہلبیت علیھم السلام کے قاتلوں سے انتقام کے خواہاں تھے۔ [9]

وفات

مختار ثقفی کی عبداللہ بن زبیر سے شدید اختلافات کے باعث جنگ ہوئی۔ ادھر بنو امیہ کا اقتدار ان کی نواسہِ رسول ﷺ سے دشمنی اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے ہونے کے سبب ان سے چھن گیا اور مختار کی دشمنی میں بنی امیہ نے ان کے خلاف نت نئی خود ساختہ باتیں مشہور کر دیں۔[10] عبد اللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے حکم پر مختار ثقفی کو 687ء میں مسجد کوفہ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ 15 رمضان 67ھ کا واقعہ ہے۔[11] اس کے بعد مختار ثقفی کے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ جس میں ان کی ایک بیوی عمرہ بنت نعمان بن بشیر انصاری (نعمان، عبید اللہ ابن زیاد سے پہلے کوفہ کے گورنر تھے) بھی شامل تھیں۔ جو مدائن میں رہتی تھیں ان کو مصعب بن زبیر کے حکم پر قتل کیا گیا۔[12] تاریخ میں ہے کہ مصعب نے عمرہ سے پوچھا کہ مختار کیسا شخص تھا؟ تو عمرہ نے کہا: "خدا اس پر رحم کرے، وہ خدا کے نیک بندوں میں سے ایک بندہ تھا۔" پھر مصعب نے اسے قید کر لیا اور اپنے بھائی عبد اللہ بن الزبیر کو لکھا کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ مختار نبی تھا اور عبد اللہ نے اسے جواب دیا کہ اسے نکال دو۔ تومصعب نے اسے مار ڈالا۔.[13] مگر کوفہ میں رہنے والی بیوی ناریہ بنت سمرہ بن جندب کو مصعب بن زبیر نے معاف کر دیا۔

حوالہ جات

  1. ناسخ التواریخ
  2. مختار آل محمدؑ از نجم الحسن
  3. تاریخ طبری
  4. ( بحارالانوار، ج 45، ص 386؛ رجال کشى، ص 127)
  5. (خویی، ابو القاسم، معجم الرجال، ج 18، ص 94، قم، 1410ق.)
  6. ( بحارالانوار، ج 45، ص343؛ رجال الکشى، ص 125.)
  7. (رجال الکشى، ص 127.)
  8. (بحارالانوار، ج 45، ص 352)
  9. (حیاہ الامام الحسین علیہ السلام، باقر شریف القرشی، ص 454)
  10. http://download.uloomeislami.net/bookslibrary/1090/page/304[مردہ ربط]
  11. تاریخ ابوالفداء
  12. تاریخ مسعودی
  13. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ

لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔


مزید دیکھیے