سحاب قزلباش اردو کی مشہور براڈکاسٹر، ادیب اور شاعرہ۔

سحاب قزلباش کا نام سلطانہ قزلباش تھا۔ وہ 1934ء میں راجستھان کی ایک سکھ ریاست جھالا واڑ میں پیدا ہوئیں۔ان کا وطن دلی ہے

انھوں نے دلی کے معروف ادب نواز، علمی اور ادب پرور خانوادہ میں پرورش پائی۔ سحاب کے والد آغا شاعر قزلباش دلی کے ممتاز شاعر تھے۔

ابتدائی تعلیم دلّی کوئن میری اسکول میں پائی۔سحاب نے آنکھیں کھولیں تو گھر میں علمی و ادبی فضا دیکھی ۔ بہزاد لکھنوی، حیرت دہلوی ، جگر مرادآبادی اور دوسرے شعرا کا کلام اور ان لوگوں کا ترنم بہت غور سے سنا کرتیں۔ کبھی اپنے والد کو تحت اللفظ پڑھتے سنتیں۔ اسی ماحول میں انھیں خود بھی شعر کہنے کا ذوق پیدا ہوا۔تقسیم ہند کے بعد سحاب قزلباش لاہور آگئیں۔ یہاں انھوں نے ریڈیو پاکستان ،کراچی میں مشہور ڈراما’’انارکلی‘‘ کا کردار ادا کیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ کراچی میں مشاعروں کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیا۔ان کے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی

سحاب قزلباش نے بہت کم سنی میں آل انڈیا ریڈیو سے براڈکاسٹنگ شروع کی تھی۔ تقسیم کے بعد سحاب پاکستان منتقل ہوئیں اور کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان سے منسلک رہنے کے بعد وہ ایران کے زاہدان ریڈیو سے اردو کے پروگرام نشر کرتی رہیں۔ پھر کچھ عرصہ نائجیریا میں رہنے کے بعد 1958ء میں لندن میں مستقل سکونت اختیار کی۔

سحاب قزلباش نے بی بی سی اردو سروس کے پروگرام ’شاہین کلب‘ میں سلطانہ باجی کا رول ادا کرنے کے ساتھ بی بی سی ٹیلیوژن پر اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ایک عرصہ تک پاکستان ہائی کمیشن اور جنگ لندن میں بھی کام کیا اور کچھ عرصہ بی بی سی کے آڈینس ریسرچ کے شعبہ سے بھی منسلک رہیں۔

ادبی زندگی

ترمیم

انھوں نے شاعری کی ابتدا سن پچاس میں کی اور دلی کلاتھ مل کے انڈو پاک اور روزنامہ’ ڈان‘ کے مشاعروں میں اپنی سحر انگیز آواز کے ساتھ نہایت خوبصورت غزلوں کی بدولت مقبول ہوئیں۔

تصانیف

ترمیم

چند سال قبل ان کی یکے بعد دیگرے چار کتابیں شائع ہوئیں۔ جو ’میرا کوئی ماضی نہیں‘، ’ملکوں ملکوں شہروں شہروں‘، ’روشن چہرے‘ اور ’لفظوں کے پیراہن‘ ہیں۔ ’میرا کوئی ماضی نہیں‘ کتاب میں ان کے ماضی کے حالات ہیں اور روشن روشن چہرے میں چودہ اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ ملکوں ملکوں شہروں شہروں میں، مصر، برطانیہ، ایران، نایجیریا اور فرانس کے سفر نامے ہیں۔

وفات

ترمیم

26 جولائی 2004ء کو وفات پائی