سرو والا مقبرہ

لاہور میں واقع بیگم شرف النساء کا مقبرہ، جو غالباً 1740ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔

سرو والا مقبرہ یا مقبرہ شرف النساء بیگم (Cypress Tomb) لاہور، پاکستان کے قدیم علاقے بیگم پورہ میں واقع ایک مقبرہ ہے، جو مقبرہ دائی انگہ کے گلابی باغ کے قریب جی ٹی روڈ کے شمال میں واقع ہے۔ یہ مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا کے عہدِ حکومت (27 ستمبر 1719ء تا 26 اپریل 1748ء) میں لاہور کے مغل صوبے دار (گورنر) نواب زکریا خان کی حقیقی بہن شرف النساء بیگم کا مدفن ہے۔[1] یہ مقبرہ مغلیہ طرز تعمیر کا منفرد اور اچھوتی نوعیت کا حامل ہے۔

سرو والا مقبرہ
سرو والا مقبرہ - مقبرہ کے مغربی جانب کا منظر
عمومی معلومات
قسممقبرہ
معماری طرزمغلیہ
مقامبیگم پورہ، لاہور، پنجاب، پاکستان
تکمیلغالباً 1740ء
افتتاحغالباً 1740ء
اونچائی
اونچائی39 فٹ (12 میٹر)
تعمیراتیہند-اسلامی

محل وقوع

ترمیم

گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع گلابی باغ، بیگم پورہ کے عقب میں 200 میٹر (656.1680 فٹ) شمال میں سرو والا مقبرہ واقع ہے۔ اگر گلابی باغ، بیگم پورہ یا مقبرہ دائی انگہ سے پیدل مشرق کو جایا جائے تو یہ فاصلہ 650 میٹر (2132.5459 فٹ) ہے۔ سرو والا مقبرہ سے شالامار باغ تک کا فاصلہ 2.8 کلومیٹر ہے جو دس پندرہ منٹ سواری کے سفر سے طے ہوجاتا ہے۔ سرو والا مقبرہ اندرون بیگم پورہ کی گنجان آبادی میں گھرا ہوا ہے مگر مقبرہ کی طویل القامت عمارت دور سے دکھائی دیتی ہے۔

تاریخ

ترمیم

یہ مقبرہ عموماً سرو والا مقبرہ کے نام سے مشہور ہے جبکہ مؤرخین کے یہاں یہ مقبرہ مقبرہ شرف النساء بیگم تاریخ میں معروف ہے۔ یہ مقبرہ نواب زکریا خان کی حقیقی بہن شرف النساء بیگم کا مدفن ہے جو غالباً 1735ء سے 1740ء کے درمیانی سالوں میں تعمیر کیا گیا۔ نواب زکریا خان مغل شہنشاہ محمد شاہ کے عہدِ حکومت میں لاہور کا صوبے دار (گورنر) تھا۔ شرف النساء بیگم نواب عبد الصمد خان کی دوسری زوجہ تھیں۔ نواب عبد الصمد خان کی وفات 1710ء میں ہوئی۔ شرف النساء بیگم کا بیٹا نواب عبد اللہ خان تھا۔ نواب زکریا خان بہادر نے یکم جولائی 1745ء کو لاہور میں وفات پائی۔ نواب زکریا خان کا خاندان بیگم پورہ، لاہور میں مقیم تھا اور یہ علاقہ بھی نواب زکریا خان کی والدہ بیگم جان کے نام کی نسبت سے بیگم پورہ کے نام سے مشہور ہے۔ مؤرخین مع کنہیا لال ہندی اور نور احمد چشتی کے یہ خیال حتمی ہے کہ نواب زکریا خان کے خاندان کے افراد اِسی علاقہ میں آباد و مختار تھے، سو اُن کے قریبی اقرباء نے یہاں عمارت تعمیر کروائیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اِس مقبرہ[2] کی بنا 1735ء کے بعد کے کسی سال میں رکھی گئی ہے جبکہ لاہور پر اُس وقت نواب زکریا خان کی حکومت مستحکم تھی۔

یہ مقبرہ شرف النساء بیگم نے اپنی حیات میں ہی تعمیر کروایا تھا۔ شرف النساء بیگم روزانہ نماز ظہر کے ایک گھنٹہ بعد یہاں آیا کرتیں اور چوبی زینہ رکھ کر اوپر جاتیں اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہتیں۔ تلاوتِ قرآن کریم کے بعد وہ محل چلی جاتیں اور قرآن کریم اور اپنی مرصع تلوار یہیں چھوڑ جاتیں۔ شرف النساء بیگم کا یہی روزانہ کا معمول تھا۔ چونکہ یہ طویل القامت عمارت بغیر کسی زینہ کے تعمیر کی گئی تھی، اِسی لیے بیگم اوپر چڑھنے کے واسطے چوبی زینہ استعمال کرتیں۔ جب شرف النساء بیگم حالت نزاع میں مبتلا ہوئیں تو وصیت کی کہ میرا مدفن یہی بے زینہ عمارت ہو اور قرآن کریم اور میری تلوار اِسی عمارت میں محفوظ رکھا جائے اور میرا مدفن بے زینہ رہے۔ لہٰذا بیگم کو اِسی عمارت کی بالائی منزل میں دفن کیا گیا اور اُن کے زیر استعمال قرآن کریم اور جواہرات سے مرصع تلوار اِسی بالائی منزل میں محفوظ رکھے گئے۔[2][3] موجودہ مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ وصیت شاید اِس لیے ہو کہ بیگم کی قبر لوگوں کی نظر سے محفوظ رہے۔

عہدِ سکھ شاہی میں زوال

ترمیم

سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد جب لاہور پر مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی تو مہاراجا رنجیت سنگھ نے مغلیہ عہد کے مقابر و مزارات سے نوادرات کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور مقابر کا سنگِ مرمر اور سنگ سرخ اُتروا لیا۔ بدقسمتی سے یہ مقبرہ بھی اِسی زد میں آیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے حکم کے مطابق مقبرہ کے خانہ مدفن یعنی بالائی منزل سے وہ جواہرات سے مرصع تلوار اور قرآن کریم اُتروا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بیش قیمت نوادرات میں سے تھے۔[3][3]

 
مقبرہ میں مغربی جانب محرابی دروازہ جس سے مقبرہ میں داخلہ ممکن ہے۔

طرزِ تعمیر

ترمیم

سرو والا مقبرہ مغلیہ طرز تعمیر اور ہند اسلامی طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ برصغیر میں سرو والا مقبرہ کی مانند دوسرا کوئی مقبرہ موجود نہیں کیونکہ یہ مقبرہ اپنی ساخت و ہیئت میں دوسرے مقابر سے مختلف و منفرد ہے۔ مغلیہ طرز تعمیر کے تمام مقابر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ قبر کا تعویز عموماً بالائی سطح پر ہوتا ہے جبکہ قبر خام حالت میں زمین دوز یا تہ نما کسی کمرے میں موجود ہوتی ہے۔ سرو والا مقبرہ مغلیہ طرز تعمیر کی اِس تعریف پر پورا نہیں اُترتا کیونکہ یہ عمارت دو منزلہ ہے اور قبر بالائی منزل پر واقع ہے۔ یہ مقبرہ مغلیہ طرز تعمیر کے لحاظ سے مختلف اور اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔

انگریزی مؤرخ کیتھرائن بیلنشرڈ آشر کے مطابق یہ مقبرہ عہد اورنگزیب عالمگیر کے محض چند سالوں کے بعد تعمیر کیے جانے والے مقابر میں اب تک کا محفوظ شدہ مقبرہ ہے اور یہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے جس کی انتہائے بلندی پر اہرام نما تکونا کم بلند اور پست گنبد واقع ہے۔[4]

مقبرہ کی ہیئت و ساخت

ترمیم
 
مقبرہ کا جنوب مغربی گوشہ جس پر کانسی کار کاشی ٹائیلوں سے مزین سرو کے دراز قد بلند درخت منقش ہیں۔

مقبرہ مربع نما عمارت ہے جو مکملاً خشتی اور پختہ ہے۔ اِس کی تعمیر چھوٹی سرخ اینٹ سے کی گئی ہے۔ اِس پر کوئی نقاشی یا چونا گچ کی منبت کاری موجود نہیں ہے، صرف سرخ اینٹ چھوٹی قسم کی دکھائی دیتی ہے جو قدیم ہونے پر بھوری اور سیاہ رنگت مائل نظر آتی ہیں۔

عمارت دو منزلہ ہے۔ مقبرہ کا طول سطح زمین سے 39 فٹ (12 میٹر)  ہے۔ پہلی منزل مکملاً خشتی ہے اور تقریباً دو قد آدم زمین سے بلند ہے یعنی کہ 5 میٹر (16 فٹ)۔ دوسری منزل کی بلندی محرابی دروازہ مغربی سے 7 میٹر (22.9659 فٹ ) بلند ہے۔ دوسری منزل جس کی چاروں دیواروں پر سرو کے سبز کانسی کار درخت منقش بنائے گئے ہیں۔ دراصل رنگین کاشی کی چھوٹی ٹائیلوں سے چاروں دیواروں پر دراز درخت بنائے گئے ہیں۔ ہر دو سرو کے درخت کے درمیان ایک چھوٹا پھول بنایا گیا ہے جو سبز، فیروزی، زرد اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر دیوار کا قطعہ زرد کاشی کار ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ موجودہ دیواروں کی دوبارہ تزئین و آرائش برٹش راج کے عہد میں کی گئی جس سے سفید ٹائیلوں کا رنگ پہلی ٹائیلوں کے رنگ سے مختلف نظر آتا ہے۔ پہلی منزل جو دو قدِ آدم تک بلند ہے، بالکل خشتی ہے اور اِس پر کوئی نقاشی موجود نہیں، چہ جائیکہ اِس پر بوقتِ تعمیر کوئی نقاشی کا کام کیا گیا ہو۔

 
مقبرہ کی شمال مشرقی دیواریں جن پر کانسی کار کاشی ٹائیلوں سے مزین سرو کے درخت منقش ہیں اور زیریں جانب ایک کتبہ جو محکمہ اوقاف کا نصب کردہ ہے۔
دوسری منزل
ترمیم

دوسری منزل جس میں شرف النساء بیگم کی قبر موجود ہے، وہ سطح زمین سے 16 فٹ یعنی 5 میٹر بلندی سے شروع ہوتی ہے اور اِس منزل تک رسائی بغیر کسی زینے کے ممکن نہیں۔ جبکہ مقبرہ کے مغربی دروازہ سے قبر دور سے دیکھنے پر نظر آتی ہے۔ دوسری منزل میں مغربی جانب ایک محرابی دروازہ قد آدم جتنا بلند ہے جس میں کوئی لکڑی کا پٹ والا کوئی دروازہ کا موجود نہیں، چہ جائیکہ مقبرہ کی تعمیر کے وقت چوبی دروازہ لگایا گیا ہو، مگر امتدادِ زمانی کے سبب موجود نہیں رہا۔ اگر زینے کے ساتھ دوسری منزل میں داخل ہوا جائے تو مقبرہ کی اندروانی دیواریں منقش نظر آتی ہیں اور وسط کمرہ میں قبر واقع ہے، لیکن اس کمرہ میں روشنی کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ مقبرہ کی تینوں دیواریں سوائے مغربی دیوار کے سرو کے بلند درختوں سے منقش ہیں۔ مغربی دیوار جس میں دروازہ ہے، اُس پر صرف شمال مغربی جانب کا ایک سرو باقی رہ گیا ہے جبکہ جنوب مغربی گوشہ کا سرو اور نقاشی بالکل معدوم  ہو چکے ہیں۔ دوسری منزل میں داخلہ کے وقت اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیواروں کی موٹائی 27 انچ ہے جو عہد مغلیہ کے مغلیہ طرز تعمیر کا خاص وصف ہے۔

چھت اور کلس
ترمیم

دوسری منزل پر واقع چھت چھجا نما بنائی گئی ہے جس پر کم بلند گبند ہے، گنبد کم بلند اور پست ہے مگر گنبد کے چاروں اطراف اسمائے حسنیٰ کندہ ہیں جس میں بعض اسمائے حسنیٰ ہنوز پڑھے جا سکتے ہیں۔ گنبد پر کسی زمانہ میں کلس موجود تھا، مگر اب نہیں ہے۔ گنبد کا کلس عہد سکھ شاہی میں اتار لیا گیا تھا، اب صرف کلس کی سلاخ نظر آتی ہے۔   اِس چھجے کو سہارا دینے کے لیے زیریں جانب چھوٹے چھوٹے سہارے چھوٹی اینٹ کے بنائے گئے ہیں جو جوڑا نما سہارا کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔  کم بلند گنبد پر نقاشی کانسی کار ہے جس میں نیلا اور زرد رنگ نمایاں ہے۔

حوض اور بارہ دری کے آثار

ترمیم

مؤرخین نے اِس مقبرہ نما عمارت کے ساتھ ایک حوض اور ایک باغ کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کے وسط میں یہ مقبرہ موجود تھا۔ مؤرخ لاہور نور احمد چشتی نے مقبرہ سے ملحقہ ایک حوض کشادہ اور اِس حوض میں واقع ایک فوارہ شکستہ کا تذکرہ کیا ہے جو چونا گچ سے بنایا گیا تھا اور ایک مزید حوض کا تذکرہ بھی کیا ہے جو مقبرہ کے شمالی سمت میں واقع تھا جو ویران ہو چکا تھا۔ نور احمد چشتی نے مقبرہ کی سمت جنوب میں ایک بارہ دری کا ذکر بھی کیا ہے جو عہد مؤلف میں شکستہ اور بوسیدہ ہو چکی تھی۔ عہد سکھ شاہی میں اِس حوض کشادہ کو خشت فروش اکھاڑنے لگے تو نواب زکریا خان کی اولاد سے احمد بیگ نے سرکار لاہور کو عرضی دے کر اِس قطعہ زمین کو واگزار کروایا۔[2] موجودہ زمانہ میں سوائے اِس مقبرہ کے کوئی عمارت ملحقہ باقی نہ رہی ہے، نہ حوض اور نہ ہی باغ کا نشان دکھائی دیتا ہے، محض ایک باغ ہی باقی رہ گیا ہے جس میں یہ مقبرہ واقع ہے جس کے چاروں اطراف آہنی جنگلے لگادیے گئے ہیں تاکہ یہ مقبرہ محفوظ رکھا جاسکے۔ آہنی جنگلے قریباً تین تین فٹ بلند شمالی، مشرقی اور جنوبی سمت میں لگے ہوئے ہیں جبکہ مغربی جانب آباد ایک گھر کی دیوار ہے۔ اِس باغ میں داخلہ صرف مشرق میں واقع ایک آہنی دروازہ جو کم بلند ہے، سے ہی ممکن ہے۔

مرمت

ترمیم

مؤرخ کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور کی بابت انگریزی حکومت کی جانب اِس مقبرہ کی توجہ کروائی۔ گورنر چارلس ایمفرسٹن ایچی سن کے عہدِ حکومت میں 1881ء میں مقبرہ کی مرمت کا آغاز ہوا اور ایک سال کی قلیل مدت میں یہ 1882ء میں مکمل ہوئی۔

نگرانی و تحویل

ترمیم

وفاق حکومت پاکستان کے مجریہ تحفظ یادگارِ ہائے پاکستان اکتوبر 1997ء کے تحت سرو والا مقبرہ کو محفوظ یادگار قرار دیا جاچکا ہے۔ اب مقبرہ محکمہ اوقاف پنجاب، پاکستان کی زیر نگرانی اور تحویل میں ہے۔

پیمائش

ترمیم
  • مقبرہ کا طول 12 میٹر (39 فٹ) ہے۔
  • پہلی منزل خشتی سطح زمین سے 5 میٹر (16 فٹ) بلند ہے۔
  • دوسری منزل منقشی کانسی کار پہلی منزل کے اختتام سے 7 میٹر (22.9659 فٹ) بلند ہے۔
  • ایک دروازہ محرابی جو مغرب کی سمت میں موجود ہے، کا طول قریباً 2.1336 میٹر (7 فٹ) ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Vincent Arthur Smith. Art of India. Parkstone International. p. 209. ISBN 978-1-78042-880-2.
  2. ^ ا ب پ نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 973۔ مطبوعہ لاہور 2014ء۔
  3. ^ ا ب پ کنہیا لال ہندی: تاریخ لاہور، تذکرہ مقبرہ شرف النساء بیگم۔ ص 233، مطبوعہ لاہور 2009ء۔
  4. Asher, Catherine Blanshard (24 September 1992). Architecture of Mughal India4. Cambridge University Press. p. 316. ISBN 978-0-521-26728-1.