سریشا کارکی

نیپالی فلمی ادا کارہ

سِرِیْشا کارکی (1978ء - 14 اکتوبر 2002ء)ایک نیپالی ادا کارہ تھی۔ بائیں محاذ کے خیالات کے حامل ایک رسالے جن آستھا آستھا میں ان کے برہنہ تصاویر شائع تھے۔ اس کی وجہ سے وہ ہندو قدامت پسند ملک میں موضوع بحث بن گئی تھی۔ اس کی سگائی ٹوٹ گئی۔ اس کے علاوہ وہ عام ملاقاتوں میں ملامت کے نشانے پر آ چکی تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے خود کشی کر لی۔ اس خود کشی پر ملک کی ادا کاری دنیا کے لوگ، دانشور طبقہ اور عوام میں کافی غیظ وغضب کی کیفیت دیکھی گئی۔[4] [5]

سریشا کارکی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1978ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 14 اکتوبر 2002ء (23–24 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات خود کشی  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت نیپال[3]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

واقعہ ترمیم

ادا کارہ سریشا کارکی نے 2002ء میں خود کشی کر لی تھی۔ اس انتہائی اقدام کا سبب یہ تھا کہ ایک رسالہ جن آستھا میں اس کی برہنہ تصاویر شائع ہوئی، جس کے لیے اس وقت کا قدامت پسند نیپالی سماج تیار نہیں تھا۔ اس کے بعد ادا کارہ کی نہ صرف سگائی ٹوٹ گئی بلکہ وہ عوامی لعن طعن کا مرکز بھی بن گئی۔ بالآخر جب ادا کارہ نے خود کشی کر لی تو فلمی فن کار سڑکوں پر اتر آئے کہ جن آستھا کے فوٹو گرافر پر کار روائی ہونا چاہیے۔ جن آستھا کے مدیر کشور شریشٹا روپوش ہو گئے۔ برہم عوام نے اخبار کے دفتر کو تہس نہس کیا۔ تاہم اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ 16 سال بعد صحافی کشور شریشٹا پریس کونسل کے برسر عمل صدر بنے جو حکومت نیپال کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر نگراں کار ایجنسی کا کام کرتا ہے۔[6]

فلمیں ترمیم

سریشا کارکی کو بہ طور خاص مایا بائیگونی میں اس کے کام کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔[7]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم