نیپال میں خواتین (انگریزی: Women in Nepal) کا موقف تاریخ کے مختلف ادوار میں جدا گانہ رہا ہے۔ تاہم جدید دور میں نیپال کے فعال مملکت اور حقوق نسواں کے لیے بیدار سماج کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کی ایک جھلک یپالی پارلیمان کی جانب سے 2015ء خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بدیا دیوی بھنڈاری کا صدر جمہوریہ منتخب کرنا ہے۔ بدیا دیوی صدر کے عہدے پر منتحب ہونے والی ملک کی دوسری شخصیت ہیں اور اپنے ملک کی اولین خاتون صدر ہیں۔[1] جدید دور میں ملک میں تعلیم اور ملازمتوں میں خواتین کی حصے داری بڑھ رہی ہے۔

سماجی رویہ ترمیم

نیپال کی مختلف برادریوں میں ایسی خواتین کو ناپاک تصور کیا جاتا ہے جو ’’حیض‘‘ سے متاثر ہوتی ہیں اور انھیں مکان کے دیگر اراکین سے دور ایک علحدہ جھونپڑی میں رکھا جاتا ہے۔ صدیوں پرانی اس روایت کو وہاں ’’چھوپاڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس روایت پر عمل کرنے کی وجہ سے ہر سال متعدد خواتین علحدہ جھونپڑی میں دھویں کی بہت زیادہ مقدار پھیپھڑے میں چلے جانے (کیونکہ وہ جھونپڑی کو گرم رکھنے کے لیے آگ جلاتی ہیں)، جنگلی جانوروں کا شکار یا پھر سانپ کے ڈس لینے سے فوت ہوجاتی ہیں۔[2]

دنیا کے کئی ممالک کی طرح نیپال میں عوامی مقامات پر جنسی ہراسانی کے واقعات بھی رو نما ہوتے رہے ہیں۔ یپالی دار الحکومت کاٹھمنڈو میں خواتین کو عوامی حمل و نقل میں جنسی تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی بس خدمت شروع کر دی گئی ہے۔شہر میں چار 17 نشستی چھوٹی بسیں چلائی گئی ہیں، جن پر 'صرف خواتین کے لیے' کے سائن بورڈز لگائے گئے ہیں اور یہ صرف صبح اور شام کے اوقات میں شہر کے اہم مقامات پر چلا کریں گی۔[3]

کم عمری میں شادیاں ترمیم

نیپال میں کم عمری میں شادی کا رجحان عام ہورہا ہے۔ نیپال ڈیموگرافک ہیلتھ سروے 2016ء کے مطابق 25 سے 49 سال کی تقریباً 50 فی صد لڑکیوں نے 18 سال کی عمر میں ہی شادی کرلی تھی۔ کم عمری میں شادی کرنے پر 50 سال قبل پابندی عائد کی گئی تھی اور شادی کی قانونی عمر 20 سال مقرر ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔[4]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم