سریہ خالد بن ولید (دومۃ الجندل)
یہ سریہ اکیدر ابن مالک کی طرف بھیجا گیا جو دومۃ الجندل کے مقام پر تھایہ مسیحی تھاخالد بن ولید کو رجب 9ھ روانہ کیا گیاخالد بن ولید کو فرمایا تم اکیدر کو گائے کا شکار کرتا پاؤگے تم اس کے پاس پہنچو تو اس کو قتل مت کرنا بلکہ اس کو زندہ گرفتار کرکے میرے پاس لانا۔ چنانچہ خالد بن ولیدنے چاندنی رات میں اکیدر اور اس کے بھائی حسان کو شکار کرتے ہوئے پا لیا۔ حسان نے چونکہ خالد بن ولید سے جنگ شروع کر دی۔ اس لیے آپ نے اس کو تو قتل کر دیا مگر اکیدر کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر اس کو رہا کیا کہ وہ مدینہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر صلح کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا اور حضور ﷺ نے اس کو امان دی۔[1]
سریہ خالد بن ولید | |||
---|---|---|---|
سلسلہ اسلامی فتوحات | |||
عمومی معلومات | |||
| |||
متحارب گروہ | |||
مسلمان | |||
نقصانات | |||
درستی - ترمیم |
اکیدر کا گرفتار ہونا
ترمیمعثمان بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دومہ شہر کے حاکم اکیدر کی طرف خالد بن ولید کو (لشکر کے ساتھ) روانہ فرمایا پس لشکر والوں نے اس کو گرفتار کر لیا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ نے اس کا خون معاف کر دیا اور جزیہ پر اس سے صلح کرلی۔[2]
تفصیلی واقعہ
ترمیمبیہقی نے عروہ بن زبیر کا قول بیان کیا ہے کہ جب تبوک سے واپسی میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کا رخ کیا تو رجب 9 ھ میں خالد بن ولید کو 420سواروں کے ساتھ دومۃ الجندل کی طرف اکیدر بن عبد الملک (حاکم دومۃ الجندل) کو گرفتار کر کے بھیج دیا‘ اکیدر ایک کندی مسیحی تھا۔ خالد بن ولید نے عرض کیا : میرے ساتھ تھوڑے آدمی ہیں‘ بنی کلاب کی بستیوں کے اندر پہنچ کر‘ اکیدر کو گرفتار کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ فرمایا : تم اس کو شکار کھیلتے ہوئے پاؤ گے‘ گرفتار کرلینا۔ پھر اللہ دومۃ الجندل کی فتح عنایت فرما دے گا۔ جب تم اس کو پکڑ لو تو قتل نہ کرنا‘ میرے پاس لے آنا۔ حسب الحکم خالد بن ولید چلے گئے اور اس کے قلعہ سے اتنی دور رہ گئے جتنی دور صاف چاندنی رات میں نگاہ پہنچ سکتی ہے (یعنی بقدر حد نظر) اکیدر اس وقت مکان کی چھت پر اپنی بی بی رباب بنت انیف بن عامر کندی کے ساتھ موجود تھا (سخت گرمی تھی) گرمی کی وجہ سے ایک مغنیہ باندی کو لے کر وہ قلعہ کے اوپر چڑھ گیا‘ پھر اس نے شراب (یا شربت) منگوا کر پی۔ اتفاقاً کسی نیل گائے نے قلعہ کے پاس آ کر قلعہ کے دروازہ سے سینگ رگڑنا شروع کر دیے۔ نیل گائے کو دیکھ کر اکیدر نیچے اتر کر (شکار کے ارادہ سے ) گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اس کے ساتھ اس کے چند گھر والے بھی سوار ہو گئے‘ ایک تو اس کا بھائی حسان تھا اور دو غلام تھے‘ یہ سب چھوٹے بھالے لے کر قلعہ سے نکل پڑے۔ جب قلعہ سے کچھ فاصلے پر پہنچ گئے تو خالد بن ولیدکے آدمیوں نے اکیدر کو پکڑ لیا‘ اکیدر قیدی ہو گیا۔ حسان نے قیدی ہونا قبول نہیں کیا اور لڑ کر مارا گیا۔ دونوں غلام اور دوسرے لوگ بھاگ کر قلعہ میں پہنچ گئے۔ حسان کے بدن پر اس وقت زربفت کی قباء تھی‘ اس کی قبا اتار لی گئی۔ پھر خالد بن ولید نے اکیدر سے کہا : میں تم کو قتل سے امن دے کر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں لے جا سکتا ہوں بشرطیکہ تم دومہ کو فتح کرا دو۔ اکیدر نے کہا : اچھا۔ خالد بن ولید‘ اکیدرکو لے کر قلعہ کے پاس پہنچے۔ اکیدر نے قلعہ والوں کو آواز دی کہ دروازہ کھول دو۔ اہل قلعہ نے دروازہ کھولنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اکیدر کے بھائی مصاد نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ اکیدر نے خالد بن ولیدسے کہا : تم کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ قلعہ والوں نے جب مجھے تمھاری قید میں دیکھ لیا ہے تو اب میرے کہنے سے بھی وہ دروازہ نہیں کھولیں گے‘ اس لیے مجھے آزاد کر دو‘ میں خدا کو اور اپنے وعدہ کی پختگی کو ضامن دیتا ہوں کہ اگر میرے اہل و عیال کی امان کی شرط پر تم مجھ سے صلح کرلو گے تو میں قلعہ کھول دوں گا۔ خالد بن ولیدنے کہا : میں (ان شرطوں پر) تم سے صلح کرتا ہوں۔ اکیدر نے کہا : اگر تم چاہو تو (مقدار مال کی تعیین کا) فیصلہ خود کر دو اور اگر چاہو تو مجھے (مقدار مال کی تعیین کے ) فیصلہ کا اختیار دے دو۔ خالد بن ولید نے کہا : تم جو چاہو دے دینا‘ ہم لے لیں گے۔ چنانچہ دو ہزار اونٹ‘ چار سو خود‘ چار سو ز رہیں اور چار سو نیزے بدل صلح قرار پائے اور یہ شرط بھی ضروری قرار پائی کہ خالد بن ولید‘ اکیدر اور اس کے بھائی کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جائیں گے اور حضور ﷺ جو فیصلہ ان کا چاہیں گے‘ کر دیں گے۔ اس کے بعدخالد بن ولید نے اکیدر کو رہا کر دیا‘ اکیدر نے جا کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ خالد بن ولید نے اندر داخل ہو کر اکیدر کے بھائی مصاد کو گرفتار کر لیا اور بدل صلح وصول کرنے کے بعد عمرو بن امیہ ضمری کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بشارت دینے کے لیے بھیج دیا اور ضمری کے ساتھ حسان کی قباء بھی روانہ کردی۔ انس اور جابر کا بیان ہے کہ اکیدر کے بھائی حسان کی قباء جب خدمت گرامی میں پیش ہوئی تو مسلمان ہاتھوں سے چھو کر (اس کی نرمی اور بناوٹ کو) دیکھنے اور تعجب کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم کو اس (کی صنعت اور خوبصورتی) سے تعجب ہو رہا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے اندر سعد بن معاذ کے رومال اس سے زیادہ خوبصورت ہوں گے۔
صلح
ترمیمخالد بن ولید نے مال صلح پر قبضہ کرنے کے بعد کچھ انتخابی مال رسول اللہ ﷺ کے لیے نکال لیا‘ پھر مال غنیمت کا پانچواں حصہ نکالا اور باقی اموال غنیمت (یعنی پانچ حصوں میں سے چار حصے) ساتھیوں کو بانٹ دیے۔ ابو سعید خدری کا بیان ہے : میرے حصہ میں ایک زرہ آئی‘ ایک خود اور دس اونٹ۔ واثلہ کا قول ہے : مجھے دس سہام ملے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عوف کا بیان ہے : قبیلۂ مزینہ کے ہم سب چالیس آدمی تھے‘ ہم میں سے ہر شخص کو مع اسلحہ‘ زرہ اور نیزوں کے پانچ سہام ملے۔ میں کہتا ہوں : پانچ سہام اور چھ سہام کے (روایتی) اختلاف کی وجہ قیمت کا تفاوت تھا (زیادہ قیمت کے لحاظ سے پانچ اور کم قیمت کے لحاظ سے چھ سہام) اس کے بعد خالد بن ولید‘ اکیدر اور مصاد کو لے کر مدینہ کی طرف چل پڑے۔ محمد بن عمر نے جابر کا قول نقل کیا ہے : میں نے دیکھا کہ جب خالد بن ولید‘ اکیدر کو لے کر آئے‘ اس وقت وہ سونے کی صلیب اور ریشمین دریائی کے کپڑے پہنے تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے ہی اس نے سجدہ کیا‘ رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ ہاتھ کے اشارہ سے نہیں نہیں کہا۔ اکیدر نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں کچھ ہدیہ بھی پیش کیا‘ جس میں کپڑے تھے۔ ابن اثیر نے لکھا ہے : ایک خچر بھی تھا۔ اکیدر سے رسول اللہ ﷺ نے ادائے جزیہ کی شرط پر صلح کرلی‘ اکیدر اور اس کے بھائی کی جان محفوظ کردی (یعنی جان کی معافی دے دی) کل جزیہ مبلغ تین سو دینار قرار پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے اکیدر کی قوم کے لیے ایک امان نامہ بھی لکھ دیا۔[3]