اکیدر بن عبدالملک

مملکت کندہ کا بادشاہ

اکیدر بن عبد الملک الکندی السکونی (پیدائش: 545ء – وفات: 633ء) عہد نبوی میں دومۃ الجندل کا ایک عربی النسل حکمران تھا جس کا تعلق عرب کے قبیلہ بنو کندہ سے تھا۔

اکیدر بن عبدالملک
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 545ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دومۃ الجندل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 633ء (87–88 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دومۃ الجندل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ بادشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام و نسب اور خاندان

ترمیم

اکیدر کا نسب یوں ہے: اکیدر بن عبد الملک بن عبدالجن بن اعیا بن کندہ، (ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں اعیا کی بجائے ’’اغبر‘‘ لکھا ہے[1])۔ اکیدر اپنے جدِ امجد کندہ اور السکون کی نسبت سے الکندی اور السکونی کہلاتا تھا۔ یہ قبیلہ قحطانیوں کی ایک اہم شاخ سمجھا جاتا تھا جس کے بعض لوگ یمن کے شہر حضر موت میں بھی مقیم تھے۔[2][3] اکیدر کا بھائی بشر بن عبد الملک کتابت جانتا تھا اور اُس نے حیرہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔بشر بن عبد الملک کے مکہ مکرمہ میں حرب بن اُمیہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے کیونکہ حرب بن أمیہ تجارت کی غرض سے ان کے ہاں عراق آتا جاتا رہتا تھا۔ بشر بن عبد الملک نے حرب بن امیہ کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور حرب بن امیہ کی بہن صھباء بن امیہ کے ساتھ شادی کر لی۔[4] بشر کے قیام مکہ کے دوران حرب بن أمیہ اور اہل مکہ کی ایک بڑی جماعت نے ان سے کتابت سیکھ لی۔ اس طرح قریش میں کتابت عام ہو گئی اور کتاب جاننے والے بے شمار لوگ نمودار ہو گئے۔صحابی رسول معاویہ بن خدیج بھی اِسی خاندن کے فرد تھے۔[5]

عہد نبوی میں

ترمیم

سنہ میں رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف شام میں فوج جمع کی ہے اور اُس کا مقدمۃ الجیش بلقاء تک پہنچ چکا ہے۔ اِس پر رسول اللہ ﷺ نے تیس ہزار فوج جمع کی اور مقابلے کو روانہ ہوئے (لیکن اِس غزوہ میں جنگ کی نوبت پیش نہ آئی، تاریخ میں اِسے غزوہ تبوک کے نام سے جانا جاتا ہے) اور رسول اللہ ﷺ بیس دن قیام کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اِس دوران میں گرد و نواح کے عربی النسل عیسائی رؤسا کو جو قیصر روم کے ماتحت تھے اور مسلم حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے زیرِ سایہ کر لیا ، چنانچہ املیہ اور اذرح کے عیسائیوں نے بغیر قتال کے ہی رسول اللہ ﷺ کی اِطاعت قبول کرلی۔[6]

سریہ خالد بن ولید

ترمیم

رجب میں رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو چار سو بیس سواروں کے ساتھ دومۃ الجندل کی طرف روانہ کیا اور فرمایا کہ: ’’اکیدر کو تم جنگلی بیل کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے‘‘۔ چنانچہ جب خالد بن ولید وہاں پہنچے تو اکیدر اور اُس کے مصاحب کو چاندنی رات میں شکار کرتے ہوئے پایا اور انھوں نے اُس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ اکیدر کے بھائی حسان بن عبد الملک نے مقابلہ کیا اور مارا گیا اور اُس کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ اکیدر نے خالد بن ولید سے اِس شرط پر صلح کرلی کہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات تک اُس کی جان محفوظ رہے گی، نیز یہ کہ اُس نے دو ہزار اونٹ، آٹھ سو گھوڑے، چار سو زرہ بکتر اور چار سو نیزے دینے کا وعدہ کر لیا۔ چنانچہ خالد بن ولید نے بغیر لڑائی کے اُس کے قلعہ پرقبضہ کر لیا اور اُس قلعہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا[7]۔ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) نے ابن اسحاق کے حوالے سے بجیر بن بجرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ جب اکیدر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے رسول اللہ ﷺ کی مدح میں چند اَشعار پڑھے، جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ لا یفضض اللہ فاک‘‘ (اللہ تمھارا چہرہ سلامت رکھے)، جس کی برکت سے اکیدر کی عمر نوے برس سے زائد ہوئی لیکن اُس کا کوئی دانت تک نہ ہلا تھا[8]۔ رسول اللہ ﷺ نے اُس کو اَمان نامہ لکھ کر دیا اور جزیہ لینا منظور کرکے اُسے اور اُس کے بھائی مصاد کو اُس کے وطن یعنی دومۃ الجندل واپس جانے دیا۔ مؤرخ الواقدی نے اِس اَمان نامے کا متن دیا ہے اور لکھا ہے کہ اُس وقت رسول اللہ ﷺ کی مہر نہیں بنی تھی ، اِس لیے رسول اللہ ﷺ نے اُس اَمان نامہ پر اپنے انگوٹھے کا نشان ثبت فرمایا۔[9]

اکیدر کا قبولِ اسلام

ترمیم

یہ اَمر مختلف فیہ ہے کہ اکیدر نے اسلام قبول کیا یا نہیں؟۔ امام نووی (متوفی 676ھ) کے مطابق ابن مندہ اور ابو نعیم اصفہانی اور الواقدی بھی اُس کے اسلام لانے کا ذِکر کرتے ہیں مگر مؤرخ ابن اثیر کی رائے میں وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد اُس نے جزیہ دینے سے اِنکار کر دیا تو خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ نےخالد بن ولید کو اِس کی سرکوبی کے لیے بھیجا جنھوں نے دومۃ الجندل کو فتح کر لیا اور اکیدر اِس مہم میں قتل ہوا[10]۔تاہم اِن واقعات میں تطبیق بھی ممکن ہے جیسا کہ ابن عساکر نے ذِکر کیا ہے کہ وہ اسلام لے آیا تھا مگر بعد میں مرتد ہو گیا اور خالد بن ولید نے خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اُسے قتل کر دیا۔[11][12]

وفات

ترمیم

اِس میں کوئی شک نہیں کہ اکیدر خطرناک جنگلی جانوروں کے شکار کا رسیاء تھا اور دومۃ الجندل کے بہادر افراد میں شمار ہوتا تھا۔ اکیدر سنہ 12ھ میں پیش آنے والی خالد بن ولید کی مہم میں قتل ہوا۔ خیر الدین زرکلی نے اکیدر کی تاریخ وفات سنہ 12ھ مطابق 633ء لکھی ہے[13]۔ ابن حجر عسقلانی کی نقل کردہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق اکیدر بوقت وفات نوے برس سے زائد کی عمر کا تھا، اِس اعتبار سے اکیدر کا سنہ پیدائش غالباً 545ء کے قریب قریب ہوگا۔

کتابیات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. الاصابہ فی تمییز الصحابہ، جلد 1، صفحہ 546۔
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد2 تکملہ، صفحہ 80۔
  3. معجم قبائل العرب، جلد 2، صفحہ 528۔
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد2 تکملہ، صفحہ 80۔
  5. جمہرۃ انساب العرب، صفحہ 429۔
  6. سیر الصحابہ: جلد 1، صفحہ 152-153۔
  7. طبقات الکبیر لإبن سعد: جلد2، صفحہ 67۔
  8. الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، جلد 1، صفحہ 142۔
  9. المغازی: جلد 3، صفحہ 1025۔
  10. تہذیب الاسماء و اللغات، جلد 1، صفحہ 124۔
  11. اللباب فی تہذیب الانساب، جلد 1، صفحہ 554۔
  12. مختصر تاریخ مدینۃ دمشق، جلد 5، صفحہ 19 ۔
  13. الأعلام: جلد 1 ، صفحہ 1345۔