اکیدر بن عبدالملک
اکیدر بن عبدالملک الکندی السکونی (پیدائش: 545ء – وفات: 633ء) عہد نبوی میں دومۃ الجندل کا ایک عربی النسل حکمران تھا جس کا تعلق عرب کے قبیلہ بنو کندہ سے تھا۔
اکیدر بن عبدالملک | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 545 دومۃ الجندل |
وفات | سنہ 633 (87–88 سال) دومۃ الجندل |
شہریت | عرب |
عملی زندگی | |
پیشہ | بادشاہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم ![]() |
سوانحترميم
نام و نسب اور خاندانترميم
اکیدر کا نسب یوں ہے: اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن بن اعیا بن کندہ، (ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں اعیا کی بجائے ’’اغبر‘‘ لکھا ہے[1])۔ اکیدر اپنے جدِ امجد کندہ اور السکون کی نسبت سے الکندی اور السکونی کہلاتا تھا۔ یہ قبیلہ قحطانیوں کی ایک اہم شاخ سمجھا جاتا تھا جس کے بعض لوگ یمن کے شہر حضر موت میں بھی مقیم تھے۔[2][3] اکیدر کا بھائی بشر بن عبدالملک کتابت جانتا تھا اور اُس نے حیرہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔بشر بن عبدالملک کے مکہ مکرمہ میں حرب بن اُمیہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے کیونکہ حرب بن أمیہ تجارت کی غرض سے ان کے ہاں عراق آتا جاتا رہتا تھا۔ بشر بن عبدالملک نے حرب بن امیہ کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور حرب بن امیہ کی بہن صھباء بن امیہ کے ساتھ شادی کر لی۔[4] بشر کے قیام مکہ کے دوران حرب بن أمیہ اور اہل مکہ کی ایک بڑی جماعت نے ان سے کتابت سیکھ لی۔ اس طرح قریش میں کتابت عام ہوگئی اور کتاب جاننے والے بے شمار لوگ نمودار ہوگئے۔صحابی رسول معاویہ بن خدیج بھی اِسی خاندن کے فرد تھے۔[5]
عہد نبوی میںترميم
سنہ 9ھ میں رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف شام میں فوج جمع کی ہے اور اُس کا مقدمۃ الجیش بلقاء تک پہنچ چکا ہے۔ اِس پر رسول اللہ ﷺ نے تیس ہزار فوج جمع کی اور مقابلے کو روانہ ہوئے (لیکن اِس غزوہ میں جنگ کی نوبت پیش نہ آئی، تاریخ میں اِسے غزوہ تبوک کے نام سے جانا جاتا ہے) اور رسول اللہ ﷺ بیس دن قیام کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اِس دوران میں گردو نواح کے عربی النسل عیسائی رؤسا کو جو قیصر روم کے ماتحت تھے اور مسلم حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اُنہیں اپنے زیرِ سایہ کرلیا ، چنانچہ املیہ اور اذرح کے عیسائیوں نے بغیر قتال کے ہی رسول اللہ ﷺ کی اِطاعت قبول کرلی۔[6]
سریہ خالد بن ولیدترميم
- مزید پڑھیں: نجران کی جانب خالد بن ولید کی مہم، خالد بن ولید
رجب 9ھ میں رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو چار سو بیس سواروں کے ساتھ دومۃ الجندل کی طرف روانہ کیا اور فرمایا کہ: ’’اکیدر کو تم جنگلی بیل کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے‘‘۔ چنانچہ جب خالد بن ولید وہاں پہنچے تو اکیدر اور اُس کے مصاحب کو چاندنی رات میں شکار کرتے ہوئے پایا اور اُنہوں نے اُس کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ اکیدر کے بھائی حسان بن عبدالملک نے مقابلہ کیا اور مارا گیا اور اُس کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ اکیدر نے خالد بن ولید سے اِس شرط پر صلح کرلی کہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات تک اُس کی جان محفوظ رہے گی، نیز یہ کہ اُس نے دو ہزار اونٹ، آٹھ سو گھوڑے، چار سو زرہ بکتر اور چار سو نیزے دینے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ خالد بن ولید نے بغیر لڑائی کے اُس کے قلعہ پرقبضہ کرلیا اور اُس قلعہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا[7]۔ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) نے ابن اسحاق کے حوالے سے بجیر بن بجرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ جب اکیدر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے رسول اللہ ﷺ کی مدح میں چند اَشعار پڑھے، جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ لا یفضض اللہ فاک‘‘ (اللہ تمہارا چہرہ سلامت رکھے)، جس کی برکت سے اکیدر کی عمر نوے برس سے زائد ہوئی لیکن اُس کا کوئی دانت تک نہ ہلا تھا[8]۔ رسول اللہ ﷺ نے اُس کو اَمان نامہ لکھ کر دیا اور جزیہ لینا منظور کرکے اُسے اور اُس کے بھائی مصاد کو اُس کے وطن یعنی دومۃ الجندل واپس جانے دیا۔ مؤرخ الواقدی نے اِس اَمان نامے کا متن دیا ہے اور لکھا ہے کہ اُس وقت رسول اللہ ﷺ کی مہر نہیں بنی تھی ، اِس لیے رسول اللہ ﷺ نے اُس اَمان نامہ پر اپنے انگوٹھے کا نشان ثبت فرمایا۔[9]
اکیدر کا قبولِ اسلامترميم
یہ اَمر مختلف فیہ ہے کہ اکیدر نے اسلام قبول کیا یا نہیں؟۔ امام نووی (متوفی 676ھ) کے مطابق ابن مندہ اور ابو نعیم اصفہانی اور الواقدی بھی اُس کے اسلام لانے کا ذِکر کرتے ہیں مگر مؤرخ ابن اثیر کی رائے میں وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد اُس نے جزیہ دینے سے اِنکار کردیا تو خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ نےخالد بن ولید کو اِس کی سرکوبی کے لئے بھیجا جنہوں نے دومۃ الجندل کو فتح کرلیا اور اکیدر اِس مہم میں قتل ہوا[10]۔تاہم اِن واقعات میں تطبیق بھی ممکن ہے جیسا کہ ابن عساکر نے ذِکر کیا ہے کہ وہ اسلام لے آیا تھا مگر بعد میں مرتد ہوگیا اور خالد بن ولید نے خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اُسے قتل کردیا۔[11][12]
وفاتترميم
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اکیدر خطرناک جنگلی جانوروں کے شکار کا رسیاء تھا اور دومۃ الجندل کے بہادر افراد میں شمار ہوتا تھا۔ اکیدر سنہ 12ھ میں پیش آنے والی خالد بن ولید کی مہم میں قتل ہوا۔ خیر الدین زرکلی نے اکیدر کی تاریخ وفات سنہ 12ھ مطابق 633ء لکھی ہے[13]۔ ابن حجر عسقلانی کی نقل کردہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق اکیدر بوقت وفات نوے برس سے زائد کی عمر کا تھا، اِس اعتبار سے اکیدر کا سنہ پیدائش غالباً 545ء کے قریب قریب ہوگا۔
کتابیاتترميم
- ابن حجر عسقلانی: الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، مطبوعہ قاہرہ، مصر، 1358ھ
- عمر رضا کحالہ: معجم قبائل العرب، مطبوعہ بیروت، لبنان، 1985ء
- الواقدی: المغازی، مطبوعہ Marsdon Jhones، اوکسفرڈ، برطانیہ، 1966ء
- ابن حزم الاندلسی: جمہرۃ انساب العرب، مطبوعہ قاہرہ، مصر،
- شاہ معین الدین ندوی: سیر الصحابہ، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، لاہور
- ابن سعد: طبقات الکبیر لإبن سعد، مطبوعہ بیروت، لبنان
- اردو دائرہ معارف اسلامیہ، مطبوعہ جامعہ پنجاب، لاہور، 2008ء
- ابن منظور: مختصر تاریخ مدینۃ دمشق، مطبوعہ دمشق، شام، 1984ء
- ابن اثیر: اللباب فی تہذیب الانساب، مطبوعہ 1356ھ تا 1369ھ۔
- خیر الدین زرکلی : الأعلام قاموس تراجم، مطبوعہ دار العلم للملايين، بیروت، لبنان، 2002ء
مزید دیکھیںترميم
حوالہ جاتترميم
- ↑ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، جلد 1، صفحہ 546۔
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد2 تکملہ، صفحہ 80۔
- ↑ معجم قبائل العرب، جلد 2، صفحہ 528۔
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد2 تکملہ، صفحہ 80۔
- ↑ جمہرۃ انساب العرب، صفحہ 429۔
- ↑ سیر الصحابہ: جلد 1، صفحہ 152-153۔
- ↑ طبقات الکبیر لإبن سعد: جلد2، صفحہ 67۔
- ↑ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، جلد 1، صفحہ 142۔
- ↑ المغازی: جلد 3، صفحہ 1025۔
- ↑ تہذیب الاسماء و اللغات، جلد 1، صفحہ 124۔
- ↑ اللباب فی تہذیب الانساب، جلد 1، صفحہ 554۔
- ↑ مختصر تاریخ مدینۃ دمشق، جلد 5، صفحہ 19 ۔
- ↑ الأعلام: جلد 1 ، صفحہ 1345۔