سعد بن معاذ رضی اللّٰہ عنہ(32ق.ھ/ ) قبیلہ بنو اشہل کے سردار اورمعزز صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے رہنے والے تھے ۔آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیں اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہیں۔ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دامن اسلام میں آگئے اور خود اسلام قبول کرتے ہی یہ اعلان فرما دیا کہ میرے قبیلہ بنو عبدالاشہل کا جو مرد یا عورت اسلام سے منہ موڑے گا میرے لیے حرام ہے کہ میں اس سے کلام کروں۔آپ کا یہ اعلان سنتے ہی قبیلہ عبدالاشہل کا ایک ایک بچہ دولت اسلام سے مالا مال ہو گیا۔ اس طرح آپ کا مسلمان ہو جانا مدینہ منورہ میں اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت بہادر اور انتہائی نشانہ باز تیر انداز بھی تھے ۔ غزوہ بدر اور غزوۂ احد میں خوب خوب دادِ شجاعت دی،مگرغزوہ خندق میں زخمی ہو گئے اور اسی زخم میں شہادت سے سر فراز ہو گئے۔آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے نیزہ لے کر جوش جہاد میں لڑنے کے لیے میدان جنگ میں جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام ”اکحل”ہے کٹ گئی ۔آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کے ليے مسجد نبوی شریف میں ایک خیمہ گاڑا اور آپ کا علاج شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے دو مرتبہ ان کے زخم کو داغا اور ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن آپ نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی : ”یا اللہ! تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے مجھے جنگ کرنے کی اتنی تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنھوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا، اے اللہ ! عزوجل میرا تو یہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہو جب تو مجھے زندہ رکھنا تاکہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جنگ کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے شہادت عطا فرما دے ۔ ” خدا کی شان کہ آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیا اور خون بہہ کر مسجد نبوی میں بنی غفار کے خیمے کے اندر پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو!یہ کیسا خون ہے جو تمھاری طرف سے بہ کر ہماری طرف آرہا ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون جاری تھا اسی زخم میں آپ کی شہادت ہو گئی ۔ [1] عین وفات کے وقت ان کے سرہانے حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ جان کنی کے عالم میں انھوں نے آخری بار جمال نبوت کا دیدار کیا اور کہا : السلام علیک یا رسول اللہ! پھر بلند آواز سے کہا کہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔ [2] آپ کی وفات میں ہوئی ۔ بوقت وفات آپ کی عمر مبارک 37 برس تھی ۔ جنت البقیع میں مدفون ہیں ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کو دفنا کر واپس آ رہے تھے تو شدت غم سے آپ کے آنسوؤں کے قطرات آ پ کی ریش مبارک پرگر رہے تھے۔ [3] [4]

سعد بن معاذ
سعد بن معاذ انصاری
سعد بن معاذ
سعد ابن معاذ ال انصاری
معلومات شخصیت
پیدائش ت 590 عیسوی
مدینہ, حجاز, سعودی عرب
وفات ت 627 عیسوی (عمر 37 سال)
مدینہ, حجاز
زوجہ ہند بنت سماک
والدہ کبشہ بنت رافع  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان بنو اوس
عملی زندگی
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونا
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ بعاث،  غزوۂ بدر،  غزوہ احد،  غزوہ خندق  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

سعد نام ، ابو عمر وکنیت، سید الاوس لقب، قبیلہ عبد الاشہل سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے ،سعد بن معاذ بن نعمان بن امرؤ القیس بن زید بن عبد الاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن بنت (عمرو) بن مالک بن اوس، والدہ کا نام کبشہ بنت رافع تھا ، جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی چچا زاد بہن تھیں ، قبیلۂ اشہل ،قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا اور سیادت عامہ اس میں وراثت چلی آتی تھی۔چنانچہ سعدؓ بن معاذ رضی اللہ عنہ کے تمام مورث اپنے اپنے زمانہ میں تاج سیادت زیب سر کیے تھے ۔ والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی، والدہ موجود تھیں ہجرت مدینہ سے قبل ایمان لائیں اور سعد بن معاذ کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔[5]

اسلام ترمیم

اگرچہ بیعت عقبہ اولیٰ میں یثرب کی سر زمین پر خورشید اسلام کا پرتو پڑچکا تھا،لیکن حقیقی ضیا گستری حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات سے وابستہ تھی، چنانچہ جب وہ داعی اسلام بن کر مدینہ منورہ پہنچے تو جو کان اس صدا سے نا آشنا تھے ان کو بھی چار و ناچار اس کے سننے کے لیے تیار ہونا پڑا۔ سعد بن معاذ ابھی حالت کفر میں تھے، ان کو مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کامیابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن و ملال تھا۔[6] [7] لیکن ایک دن ان پر بھی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا اثر پڑ گیا، اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جن کے مکان میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فروکش تھے، ان سے کہا تھا کہ اگر سعد بن معاذ مسلمان ہو جائیں گے تو دو آدمی بھی کافر نہ رہ سکیں گے، اس لیے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے ، سعد بن معاذ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، آپ بیٹھ کر سن لیجئے، ماننے نہ ماننے کا آپ کو اختیار ہے سعد بن معاذ نے منظور کر لیا تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کر سعد بن معاذ کلمۂ شہادت پکار اٹھے اور مسلمان ہو گئے۔ قبیلہ عبد الاشہل میں یہ خبر فوار پھیل گئی، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے سب کو کہا جب تک تم سب مسلمان نہ ہوگے میں تم سے بات چیت نہ کروں گا، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور مدینہ کے در و دیوار تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے۔ اشاعتِ اسلام میں یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا نہایت عظیم الشان کارنامہ ہے، صحابہ کرام میں کوئی شخص اس فخر میں انکا حریف نہیں،آنحضرت نے اسی بنا پر فرمایا ہے" خیرد ود الانصار بنو النجار ثم بنو عبدالاشھل" یعنی انصار کے بہترین گھرانے بنو نجار کے ہیں اور ان کے بعد بنو عبدالاشہل کا درجہ ہے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کا اسلام بیعت عقبہ اولی اور بیعت عقبہ ثانیہ کے درمیان کا واقعہ ہے۔ مسلمان ہو کر سعد بن معاذ نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کر لیا۔[8] [9]

غزوات میں شرکت ترمیم

سعد بن معاذ عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر (جو مکہ کا مشہور رئیس اور ان کا دوست تھا)قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو ان کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا) اور کہا جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا ، چنانچہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لیے نکلے راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ، پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا"سعد بن معاذ" ابو جہل نے کہا تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین آنحضرت اور صحابہ کرام مراد ہیں) کو پناہ دے کر اور ان کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو ، اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے تو تمھارا گھر پہنچنا دشوار ہو جاتا،حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا، تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمھارا مدینہ منورہ کا راستہ روک دونگا امیہ نے کہا "سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے، اس کے سامنے آواز پست کرو" سعد بن معاذ نے فرمایا چلو ہٹو، میں نے آنحضرت سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے،بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔[10][11] اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزوۂ بدر تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو صحابہ سے مشورہ کیا، سعد بن معاذ نے اُٹھ کر کہا یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے ، رسالت کی تصدیق کی،اس بات کا قرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور درست ہے سمع اور طاعت پر آپ سے بیعت کی پس جو ارادہ ہو کیجئے ، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا اگر آپ سمندر میں کود نے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا ، ہم کو لڑائی سے بالکل خوف نہیں اور انشاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہوں گے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے،[12] آنحضرت اس تقریر سے خوش ہوئے قبیلۂ اوس کا جھنڈا آنحضرت نے ان کے حوالہ کیا، غزوہ احد میں انہو ں نے آنحضرت کے آستانہ پر پہرہ دیا تھا۔ غزوہ احد میں آنحضرت سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اور آپ کے ساتھ دو اصحاب تھے انہی میں سعد بن معاذ بھی تھے۔کفار سے مقابلہ کے لیے رسول اللہ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر کیا جائے، عبداللہ بن ابی بن سلول کا بھی یہی خیال تھا لیکن بعض نوجوان جن کو شوق شہادت دامن گیر تھا باہر نکل کر لڑنے پر مصر تھے ؛چونکہ کثرت رائے انہی کو حاصل تھی اس بنا پر آنحضرت نے انہی کی تائید کی اور زرہ پہننے کے لیے اندر تشریف لے گئے ،سعد بن معاذؓ اور اسید بن حضیر ؓ نے کہا کہ تم لوگوں نے آنحضرت کو باہر چلنے کے لیے مجبور کیا ہے؛ حالانکہ آپ پر آسمان سے وحی آتی ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ اپنی رائے واپس لے لو اور معاملہ کو بالکل آنحضرت پر چھوڑ دو، آنحضرت تلوار ڈھال اور زرہ لگا کر نکلے تو تمام لوگوں کو ندامت ہوئی، عرض کیا کہ ہم کو حضور کی مخالفت منظور نہیں جو حکم ہو ہم بجا لانے پر آمادہ ہیں، ارشاد ہوا کہ اب کیا ہوتا ہے؟ نبی جب ہتھیار باندھ لیتا ہے تو جنگ کا فیصلہ کرکے اتارتا ہے۔ [13] غرض کوہ احد کے دامن میں لڑائی شروع ہوئی، اسلامی لشکر پہلے فتحیاب تھا ؛لیکن پھر تابِ مقاومت نہ لاکر پیچھے ہٹا، اس وقت آنحضرت سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اور آپ کے ساتھ دو اصحاب دادِ شجاعت دے رہے تھے انہی میں حضرت سعد بن معاذؓ بھی تھے۔ [14] اس غزوہ میں ان کے بھائی عمرو شہید ہو گئے۔[15]

غزوۂ خندق میں جو میں ہوا، آنحضرت نے انصار سے مدینہ کے تہائی پھل عینیہ بن حصن بن سید کو دینے کا مشورہ کیا تھا، اس مشورہ میں سعد بن عبادہؓ کے ساتھ حضرت سعدؓ بن معاذ بھی شریک تھے۔ [16] لڑائی کا وقت آیا تو زرہ پہنے اور ہاتھ میں حربہ لیے میدان کو روانہ ہوئے ،بنو حارثہ کے قلعہ میں ان کی ماں موجود تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی تھیں، شعر پڑہتے ہوئے گذرے تو ماں نے کہا بیٹا تم پیچھے رہ گئے،جلدی جاؤ۔ جس ہاتھ میں حربہ تھا وہ باہر نکلا ہوا تھا، حضرت عائشہؓ نے کہا :سعد کی ماں دیکھو زرہ بہت چھوٹی ہے، میدان میں پہنچے تو حبان بن عبد مناف نے جو عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے ہفت اندام کٹ گئی، [17] اور نہایت جوش میں کہا لو میں عرقہ کا بیٹا ہوں، آنحضرت نے سنا تو فرمایا خدا اس کا چہرہ دوزخ میں عرق آلود کرے۔ اس کے بعد مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگایا اور رفیدہ اسلمیہ کو ان کی خدمت پر مامور کیا ،حضرت سعدؓ بن معاذ اسی خیمہ میں رہتے تھے اور حضرت روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے ؛چونکہ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے ،خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ ان سے مجھ لڑنے کی بڑی تمنا ہے؛ کیونکہ انھوں نے تیرے رسول کو اذیت دی ،تکذیب کی اور مکہ مکرمہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا، [18] چنانچہ جب بنو قریظہ کو آنحضرتﷺ نے جلا وطن کرنا چاہا تو چونکہ وہ قبیلۂ اوس کے حلیف تھے کہلا بھیجا کہ ہم سعد کا حکم مانیں گے، آنحضرت نے حضرت سعدؓ بن معاذ کو اطلاع کی وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے، مسجد کے قریب پہنچے تو آنحضرتﷺ نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کی تعظیم کے لیے اٹھو۔ پھر سعدؓ سے فرمایا کہ یہ لوگ تمھارے حکم کے منتظر ہیں،عرض کیاتو میں حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ لڑنے والے ہیں قتل کیے جائیں، اولاد غلام بنائی جائے اور مال تقسیم کر دیا جائے، آنحضرت نے یہ فیصلہ سن کر کہا کہ تم نے آسمانی حکم کی پیروی کی ؛چنانچہ اس کے بموجب اپنے سامنے 400 آدمی قتل کرائے۔[7] ،[19].[20]

وفات ترمیم

غزوہ خندق میں حبان بن عبد مناف نے جو عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے ہفت اندام کٹ گئی زخمی ہونے کے بعدمسجد نبوی کے خیمہ میں رہتے تھے اور حضور روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے ؛چونکہ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے ،خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ ان سے مجھ لڑنے کی بڑی تمنا ہے؛ کیونکہ انھوں نے تیرے رسول کو اذیت دی ،تکذیب کی اور مکہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا، [21]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زخم کو داغا جس سے خون رک گیا، لیکن اس کے عوض ہاتھ پھول گیا تھا، ایک دن زخم پھٹا اور اس زور سے خون جاری ہوا کہ مسجد سے گذر کر بنی غفار کے خیمہ تک پہنچا، لوگوں کو بڑی تشویش ہوئی، پوچھا کیا معاملہ ہے جواب ملا کہ سعدؓ بن معاذ کا زخم پھٹ گیا۔ آنحضرت کو اطلاع ہوئی تو گھبرا اٹھے اور کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے دیکھا تو حضرت سعدؓ بن معاذ کا انتقال ہو چکا تھا، نعش کو اپنی آغوش میں لے کر بیٹھے، خون برابر بہہ رہا تھا، لوگ آ آ کر جمع ہونا شروع ہوئے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور نعش کو دیکھ کر ایک چیخ ماری کہ ہائے ان کی کمر ٹوٹ گئی ، آنحضرت نے فرمایا: "ایسا نہ کہو" عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رو کر کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ خیمہ میں کہرام پڑا تھا دکھیا ماں یہ کہہ کر رو رہی تھی۔ ویل ام سعد اسعدا براعۃ بخدا ویل ام سعد اسعدا صرامۃ وجدا آنحضرت نے فرمایا کہ اور رونے والیاں جھوٹ بولتی ہیں؛ لیکن یہ سچ کہتے ہیں،جنازہ روانہ ہوا تو خود آنحضرت ساتھ ساتھ تھے، فرمایا کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں، لاش بالکل ہلکی ہو گئی تھی، منافقین نے مضحکہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا کہ ان کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔[22]دفن کر کے واپس ہوئے تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مغموم تھے، ریش مبارک ہاتھ میں تھی اور اس پر مسلسل آنسو گر رہے تھے۔ حضرت سعدؓ بن معاذ کی وفات تاریخ اسلام کا غیر معمولی واقعہ ہے، انھوں نے اسلام کی جو خدمات انجام دی تھیں، جو مذہبی جوش ان میں موجود تھا اس کی بدولت وہ انصار میں صدیقی اکبر سمجھے جاتے تھے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں جب آنحضرت نے فرمایا کہ اس دشمن خدا (ابن ابی) نے مجھے سخت تکلیف دی ہے تم میں کوئی اس کا تدارک کرسکتا ہے؟ تو سب سے پہلے انھوں نے اٹھ کر کہا تھا کہ قبیلۂ اوس کا آدمی ہو تو مجھ کو بتائے میں ابھی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں؟ اس وقت اسی محبت صادق اور عاشقِ جاں نثار نے وفات پائی تھی،اس واقعہ کی اہمیت اس سے اور بڑھ جاتی ہے کہ فرشتے جنازہ میں موجود تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کی موت سے عرش مجید جنبش میں آگیا ہے۔ [23] [24]

ایک انصاری فخریہ کہتا ہے وما احتزعرش اللہ من موت ھالک سمعنا بہ الا سعد ابی عمرو کسی مرنے والے کی موت پر خدا کا عرش نہیں ہلا مگر سعد ابن معاذ کی موت پر۔

حلیہ ترمیم

حلیہ یہ تھا کہ قد دراز ، بدن دوہرا ۔ [25]

مناقب و اخلاق ترمیم

جوں جوں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی قبر مبارک کھودی جارہی تھی اس سے مشک کی خوشبو پھیل کر حاضرین کے مشام ِجاں کو معطّر کررہی تھی۔ [26] اخلاقی حیثیت سے سعد بن معاذ بڑے درجہ کے انسان تھے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ کے بعد سب سے بڑھ کر عبد الاشہل کے تین آدمی تھے، سعد بن معاذ ، اسید بن حضیر اور عبادہ بن بشر رضی اللہ عنہ۔ وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں؛ لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں ،پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں ، دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہو سکتا ہے جس میں مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے،اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذ نجات پاتے۔حدیث: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ) ایسے شخص ہیں جب ان کی روح آسمان پر پہنچی تو خوشی کی وجہ سے عرش الہٰی جھومنے لگا اور آسمان کے دروازے کھول دئے گئے اور ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں آئے لیکن اس کے باوجود قبر تنگ کر دی گئی پھر یہ تنگی دور کر دی گئی اور قبر کشادہ ہو گئى۔ اس حدیث کو نسائى نے روایت کیا ہے۔ (یہ قبر کا چمٹنا محبت کے طور پر تھا، لیکن چونکہ تکلیف دہ صورت میں اس کا اظہار ہوا، اس لیے اس باب میں ذکر کر دیا گیا ہے۔) واللہ اعلم .“ [27] [28]حافظ ذہبی فرماتے ہیں: «هٰذا الضمة ليست من عذاب القبر فى شي بل هو أمر يجده المؤمن كما يجد ألم فقد ولده وحميمه فى الدنيا وكما يجد ألم مرضه وألم خروج روحه . . .» ”یہ جھٹکا (مومن کے لیے) عذاب قبر میں سے نہیں بلکہ یہ ایسے ہی ہے جس طرح مومن کو اپنی اولاد یا محبوب چیز کے گم ہونے کا دکھ ہوتا ہے اور جس طرح بیماری کی تکلیف اور روح نکلنے کا درد ہوتا ہے۔۔۔“ [29] [30][31]براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تحفہ میں پیش کیا گیا، لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ تمھارے لیے تعجب انگیز ہے؟“، لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں بہتر ہوں گے“ [32]ایک مرتبہ کسی نے آنحضرت کے پاس حریر کا جبہ بھیجا تھا، صحابہ اس کو چھوتے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے تھے، آنحضرت نے فرمایا کہ تم کو اس کی نرمی پر تعجب ہے ،حالانکہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں۔[33][34]

فضل و حدیث ترمیم

جیسا کہ اوپر معلوم ہوا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال اوائلِ اسلام میں ہوا تھا، آنحضرت کے فیض صحبت سے انھوں نے 5 برس فائدہ اٹھایا ، اس عرصہ میں بہت سی حدیثیں سنی ہوں گی، لیکن چونکہ روایات کا سلسلہ آنحضرت کے بعد قائم ہوا اس لیے ان کی روایتیں اشاعت نہ پاسکیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت مذکور ہے جس میں ان کے عمرہ کا ذکر آیا ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے جس میں سعد بن ربیع کے احد میں قتل ہونے کا تذکرہ ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (بخاری ، ج 2 ،ص 591، باب مرجع النبی من الاحزاب)
  2. (مدارج النبوۃ ،ج 2، ص 181)
  3. (اکمال ، ص 596 و اسدالغابہ، ج 2، ص 298)
  4. "سيرة ابن هشام"۔ islamport.com (بزبان عربی)۔ 15 أكتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2018 
  5. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَعْدُ بْنُ مُعَاذِ (1) آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین
  6. خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ :92
  7. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» سعد بن معاذ (1) آرکائیو شدہ 2017-09-25 بذریعہ وے بیک مشین
  8. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» سعد بن معاذ (2) آرکائیو شدہ 2017-09-25 بذریعہ وے بیک مشین
  9. ":: مجلة المقاولون العرب ::"۔ www.arabcont.com۔ 13 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2020 
  10. بخاری:2/563
  11. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَعْدُ بْنُ مُعَاذِ (2) آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین
  12. زرقافی:1/479
  13. (طبقات ابن سعد ، جلد 2 ،قسم 1،صفحہ:26)
  14. (زرقانی: 2جلد / صفحہ 40)
  15. طبقات،جلد2،قسم1،صفحہ:30
  16. (طبقات،جلد3،قسم1،صفحہ:30)
  17. (بخاری: 2/591 ، دیگر کتب ورجال)
  18. (صحیح بخاری:2جلد / صفحہ 91)
  19. أسد الغابة في معرفة الصحابة - سعد بن معاذ آرکائیو شدہ 2017-03-30 بذریعہ وے بیک مشین
  20. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَعْدُ بْنُ مُعَاذِ (3) آرکائیو شدہ 2017-02-24 بذریعہ وے بیک مشین
  21. بخاری:2/91
  22. جامع ترمذی:633
  23. (بخاری:1/536)
  24. الإصابة في تمييز الصحابة - سعد بن معاذ (2) آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  25. (ترمذی:295)
  26. (طبقات ابن سعد،ج3،ص329)
  27. [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 136]
  28. مسنداحمد عن عائشہ
  29. سیر اعلام النبلاء 1؍290
  30. الإصابة في تمييز الصحابة - سعد بن معاذ (1) آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  31. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الثالث (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 1242 
  32. [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 157]
  33. بخاری:1/536
  34. اسد الغابہ جلد 1 صفحہ912 حصہ چہارم،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور