سعودی عرب میں عصمت دری کو اسلامی قانون کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے، جو سعودی عرب کے قانونی نظام کی بنیاد ہے۔ اسلامی قانون کے تحت، [1] عدالت عصمت دری کرنے والے کو کوڑے مارنے سے لے کر پھانسی تک کی سزا دے سکتی ہے۔ تاہم، سعودی عرب میں کوئی تعزیری ضابطہ نہیں ہے اور ایسا کوئی تحریری قانون نہیں ہے جو خاص طور پر عصمت دری کو جرم قرار دیتا ہو یا اس کی سزا تجویز کرتا ہو۔ اس کے علاوہ ازدواجی عصمت دری کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ [2]

اگر عصمت دری کا شکار اونے والی خاتون پردہ کی خلاف ورزی کرنے کی مرتکب ہوئی اور اس کی عصمت دری بے پردہ ہوتے ہوئے کی گئی، تو اسے بھی قانون کی موجودہ پابندیوں کے مطابق (پردے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے) سزا دی جائے گی۔ [3] 2002ء میں، فی 100,000 آبادی میں 0.3 ریپ رپورٹ ہوئے۔ [4][5]

رپورٹیں ترمیم

ہیومن رائٹس واچ نے صورت حال کی چھان بین کی ہے اور ان کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ عصمت دری کا نشانہ بننے والی/والے کو اس وقت سزا دی جا سکتی ہے جب وہ جرم کے خلاف بات کرتی ہے۔ ایک کیس میں، بولنے پر متاثرہ کی سزا دوگنی کر دی گئی اور عدالت نے متاثرہ کے وکیل کو بھی ہراساں کیا، یہاں تک کہ اس کا پیشہ ورانہ لائسنس ضبط کر لیا۔ [6]

تاہم، یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ شرعی قانون، جو عصمت دری کرنے والوں کو سزا دیتا ہے، ملک کے قانونی نظام کی بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے۔ تاہم، شریعت میں یہ شامل نہیں ہے کہ جب خواتین یا مرد عصمت دری کا شکار ہوں تو انھیں بھی سزا دی جائے۔ [7]

2009ء میں، سعودی گزٹ نے رپورٹ کیا کہ ایک 23 سالہ، غیر شادی شدہ خاتون کو ایک سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا سنائی گئی جب جج نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس عورت کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی، وہ حاملہ ہو گئی تھی اور اس نے جنین کو اسقاط حمل کرنے کی (ناکام) کوشش کی تھی۔ کوڑے مارنے کو بچہ جننے کے بعد تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

سعودی عرب میں عصمت دری کے مقدمات کی سزائیں بھی انتہائی غیر متوازن ہیں۔ مثال کے طور پر، فروری 2013ء میں، ایک سعودی مبلغ نے اپنی 5 سالہ بیٹی کی عصمت دری کی، تشدد کیا اور قتل کر دیا۔ اسے آٹھ سال قید، 800 کوڑے اور 10 لاکھ ریال (270,000 امریکی ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی گئی جو لڑکی کی والدہ، اس کی سابقہ بیوی کو ادا کرنی تھی۔ [8] اس کے برعکس دو پاکستانی شہریوں کا معاملہ ہے جنہیں ریاست نے عصمت دری کا جرم ثابت ہونے کے بعد سر قلم کر دیا تھا۔ [9]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Islam | the Embassy of the Kingdom of Saudi Arabia" 
  2. "Victims of Rape and Law: How the Laws of the Arab World Protect Rapists, Not Victims – JURIST – Commentary – Legal News & Commentary" 
  3. "Rape case calls Saudi legal system into question"۔ Today News۔ 2013۔ 14 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. James Sheptycki، Ali Wardak، James Hardie-Bick (2005)۔ Transnational and Comparative Criminology۔ Routledge Cavendish۔ صفحہ: 95۔ ISBN 1-904385-05-2 
  5. S. Harrendorf,M. Heiskanen S. (2010)۔ United Nations Office on Drugs And Crime(UNODC) (PDF)۔ HEUNI Publication۔ صفحہ: 39۔ ISBN 978-952-5333-787 
  6. "Saudi Arabia: Rape Victim Punished for Speaking Out"۔ HRW۔ 2007 
  7. "Archived copy"۔ 16 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2019 
  8. "Fayhan al-Ghamdi, Saudi Preacher, Sentenced To 8 Years, 800 Lashes For Raping, Killing Daughter"۔ Huffington Post۔ 2013 
  9. "Two Pakistanis beheaded in Saudi for rape"۔ The Independent۔ 2010 

مزید پڑھیے ترمیم