سلطان سخی سرور
سید احمد جو سلطان سخی سرور اور لکھ داتا کے نام سے مشہور ہیں، بارہویں صدی کے ایک صوفی بزرگ تھے جن کا تعلق خطہ پنجاب پاکستان سے تھا۔[1]
ولادت
ترمیمسخی سرور کی ولادت ملتان کے ایک موضع کرسی کوٹ میں 524ھ 3 اپریل (1130ء) میں ہوئی اور پھر ان کے بھائی عبد الغنی المعروف خان جٹی یا خان ڈھوڈا نے جنم لیا۔
القابات
ترمیمسید احمد کے دیگر کئی القاب اور نام ہیں جن سے وہ جانے جاتے ہیں جیسے ،سلطان، لکھ داتا، نگہ والا پیر، لالن والی سرکار اور روہیاوالا۔ ان کے پیروکار خود کو سلطانی اور سروری کہتے ہیں۔[2]
تعلیم و تربیت
ترمیمسخی سروربچپن سے ہی بڑے ذہین و فہمیدہ تھے۔ اکثر اوقات اپنے والد مکرم سے شرعی مسائل سیکھتے رہتے تھے۔ ان دنوں لاہور میں مولانا سید محمد اسحاق کے علم و فضل کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کو علوم ظاہری کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے لاہور بھیج دیا گیا۔ مولانا کی محبت و تربیت و تعلیم کی بدولت آپ ان تمام صلاحیتوں اور صفات سے متصف ہو گئے جو کسی عالم دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔ تحصیل علم کے بعد واپس آکر باپ کا پیشہ اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا تھا۔ ظاہری علوم کے ہم آہنگ علوم باطنی حاصل کرنے کا جذبہ اشتیاق سینے میں کروٹیں لینے لگا جس میں روزافزوں طغیانی آتی گئی۔ آپ کے والد محترم نے جب اپنے اس ہونہار بیٹے کا رجحان دیکھا تو اس طرح تربیت فرمانے لگے جیسے مرشد مرید کی تربیت کرتا ہی۔ لیکن دل کی خلش برقرار رہی۔ چاہتے تھے کہ سلوک و معرفت کی راہوں پر گامزن ہوں۔ علم لدنی سے مالامال ہوں اور کسی صاحب حال بزرگ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوں۔
خاندان
ترمیمسید احمد سلطان سخی سرور شہید کے والد بزرگوار زین العابدین سرزمین پاک و ہند آنے سے قبل بائیس سال سے روضہ رسول اطہر کی خدمت کرتے چلے آ رہے تھے۔ ایک روز سیدالانبیاء و ختم المرسلین نے عالم خواب میں ہندوستان جانے کا حکم دیا۔ آپ نے فوراً رخت سفر باندھا اور ضلع شیخوپورہ میں شاہ کوٹ میں قیام کیا۔ یہ 520 ہجری (1126ء) کا واقعہ ہی۔ آپ ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ گذر اوقات کے لیے آپ نے زراعت کے علاوہ بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ دو سال کے بعد آپ کی اہلیہ محترمہ بی بی ایمنہ ‘جنت الفردوس کو سدھاریں۔ ان کے بطن سے تین لڑکے سلطان قیصر‘ سید محمود اور سید سہرا تھے۔ شاہکوٹ کا نمبردار پیرا رہان آپ کا مرید تھا۔ اس نے اپنی کھوکھر برادری سے مشورہ کے بعد اپنی بڑی دختر بی بی عائشہ کو آپ کے عقد میں دے دیا۔ جن سے سید احمد سلطان پیدا ہوئے
شادی
ترمیمباپ کے وصال کے بعد آپ کی شادی گھنو خاں حاکم ملتان کی بیٹی بی بی بائی سے ہو گئی۔ انھوں نے لاگیوں اور بھانڈ میراثیوں کو بہلا پھسلا اور لالچ دے کر بھیجا کہ وہ سید احمد سلطان کو بدنام و شرمسار کریں اور ترکیب یہ بتائی کہ اگر وہ سیر دے تو وہ سواسیر مانگیں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالٰیٰ اپنے نیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے۔ آپ نے نہ صرف لاگیوں‘ بھانڈوں‘ میراثیوں کو ہی نہیں بلکہ غربا و مساکین اور محتاجوں کو بے شمار دولت‘ جہیز کا سامان اور دیگر اشیاءسے خوب نوازا‘ اس دن سے آپ سخی سرورر‘ لکھ داتا‘ مکھی خاں‘ لالانوالہ‘ پیرخانو‘ شیخ راونکور وغیرہ مختلف القابات سے نوازے جانے لگے۔ لیکن سخی سرور کا لقب ان سب پر حاوی ہو گیا۔ آپ کے خالہ زاد بھائی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے لہٰذا ان کی آتش حسد و انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ اسی اثناءمیں آپ کی والدہ محترمہ اور سوتیلے بھائی سید محمود اور سید سہر راہی ملک عدم ہوکر شاہکوٹ میں ہی دفن ہوئے تو آپ دل برداشتہ ہو گئے۔ کسی مردحق کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا جذبہ بڑی شدومد سے بیدار ہو گیا۔ چنانچہ تلاش حق کے لیے آ پ بغداد شریف پہنچے جو ان دنوں روحانی علوم کا سرچشمہ تھا۔
حصول تصوف
ترمیمآپ نے سلسلہ چشتیہ میں خواجہ مودود چشتی سلسلہ سہروردیہ میں شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ قادریہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ بغداد شریف سے واپسی پر آپ نے چند دن لاہور میں قیام فرمایا اور پھر وزیرآباد کے قریب سوہدرہ میں دریائے چناب کے کنارے یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ عشق‘ مشک اور اللہ کے اولیاءکبھی چھپے نہیں رہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ عام دنیادار انسان ان کے قریب ہو کر بھی فیضیاب نہ ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ ہر وقت لوگوں کا ہجوم ہونے لگا۔ جو بھی حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا تہی دامن و بے مراد نہ لوٹتا۔ آ پکو جو کچھ میسر آتا فوراً راہ خدا میں تقسیم فرما دیتی۔ ہر جگہ لوگ آپ کو سخی سرور اور سختی داتا کے نام نامی اسم گرامی سے یاد کرنے لگی۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے دنیا کے ساتھ دین کی دولت سے بھی مالامال ہونے لگے۔ دن بدن آپ کے محبین‘ معتقدین اور مریدین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اثرات
ترمیم(گل بہار گہنورآنی سخی سرور) آپ کے کثرت کے ساتھ ہندو بھی معتقد تھے، جو سلطانی کہلاتے، مشرقی پنجاب بالخصوص جالندھر ڈویژن کے اکثر زراعت پیشہ جاٹ جو سکھ نہیں ہوئے، سلطانی تھے۔ ضلع جالندھر کے گزٹیئر میں لکھا ہے کہ
” | اجمالی طور پر ہندو آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ گرو کے سکھ یعنی سکھ اور سلطانی جو ایک مسلمان پیر کے جسے سخی سلطان یا لکھ داتا بھی کہتے ہیں، پیرو ہیں۔ ۔ ۔ ۔ زراعت پیشہ ہندوؤں میں سلطانیوں کی اکثریت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے دیہاتوں کے باہر سلطان کی زیارتیں (مصنوعی) ہوتی ہیں۔ آٹھ یا دس فٹ کے قریت اونچی، چوڑی، اور لمبی، جن کے اوپر ایک گنبد ہوتا ہے اور چار مینار چھوٹے چھوٹے چاروں کونوں پر، ہر جمعرات کو یہ زیارتیں صاف کی جاتی ہیں، اور رات کو چراغ جلائے جاتے ہیں۔ جمعرات کو اس زیارات کا نگہبان جو مسلمان ہوتا ہے اور بھرائی قوم کا فرد ہوتا ہے شام کو ڈھول لے کر جاتا ہے اور نیاز اکٹھی کرتا ہے۔ | “ |
ضلع لدھیانہ کے گزئیٹر میں بھی اسی طرح کا بیان ہے، جاٹ یہ عقائد پچھلے تین چار سو سال میں اپنے ساتھ لائے، غالب خیال ہے کہ سلطانی عقائد پندرہویں و سولہویں صدی کے درمیاں میں مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب کی طرف پھیلنے شروع ہوئے اور گرو گوبند سنگھ کے زمانے میں تقریباً سبھی جاٹ سلطانی تھے، کیونکہ جو ہندو سکھ ہوئے وہ بھی سلطانیوں میں سے تھے۔ سلطانیوں کی سب سے بڑی رسم سخی سلطان کے مزار کی زیارت ہے، جو وسط فروری میں شروع ہوتی ہے اور بھرائی اپنے اپنے علاقوں سے قافلوں کی صورت میں ڈیرہ غازی خان کی صرف نکلتے ہیں، سکھوں کے عہد حکومت میں ملتان کے سکھ دیوان ساون مل نے اس زیارت پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور تمام ہندوشں پر فی کس سو روپے جرمانہ نافذ کیا، لیکھ انیسویں صدی کے بعد ان سلطانیوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہونا شروع ہو گئی ہے جو زیادہ تر سکھ ہو گئے ہیں۔[3]
وفات
ترمیم22رجب المرجب 577ھ (1081ء) کو تریپن سال کی عمر میں جب آپ کی وفات ہوئی۔ آپ مزار مقام ڈیرہ غازی خان کے علاقہ "سخی سرورشہر"، پنجاب پاکستان میں ہے۔گل بہار گہنورآنی[4]
سخی سرور شہر
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Folk Religion Change and Continuity by H S Bhatti Rawat Publications ISBN 81-7033-608-2
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 22 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولائی 2016
- ↑ شیخ محمد اکرام (2015ء)۔ آب کوثر۔ لاہور: ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ صفحہ: 82-85۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2018 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); - ↑ "Saraiki Heros - Saraikistan Forum"۔ 10 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2017