سنہری مسجد، پشاور
سنہری مسجد پشاور کے ایک اہم کاروباری مرکز صدر بازار میں واقع ایک خوبصورت جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد پشاور کے فوجی چھاؤنی کے حدود میں واقع ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد قیام پاکستان سے قبل 20 مارچ 1946ء کو رکھا گیا۔
سنہری مسجد پشاور | |
---|---|
بنیادی معلومات | |
مذہبی انتساب | سنی اسلام |
ضلع | پشاور |
ریاست | پاکستان |
صوبہ | خیبر پختونخوا |
مذہبی یا تنظیمی حالت | مسجد |
سربراہی | کنوینر (حبیب الرحمٰن) |
تعمیراتی تفصیلات | |
طرز تعمیر | جدید اسلامی طرزِ تعمیر |
سنگ بنیاد | 20 مارچ 1946ء |
سنہ تکمیل | یکم اپریل 1992ء |
گنجائش | تقریباً 6000 |
مینار | 1 |
مینار کی بلندی | 128 ٖفٹ |
مواد | سرخ پتھر ، اینٹ ، سیمنٹ |
جوں جوں وقت گزرتا گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا تو ساتھ ہی مسجد کی توسیع اور تعمیر و مرمت کا سلسلہ بھی وقتاً فوقتاً جاری رہا اور مسجد کی تعمیر کا یہ سلسلہ یکم اپریل 1992ء کو تکمیل کو پہنچا۔ اس وقت مسجد کا کل رقبہ 18000 ہزار مربع فٹ ہے۔ اس مسجد کا ڈھانچہ یک منزلہ ہے۔ عبادت گاہ کا مین کمرہ ، صحن اور بالائی حصے میں بیک وقت تقریباً 6000 ہزار نمازیوں کی نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کے ساتھ دائیں طرف ایک بلند و بالا مینار بنایا گیا ہے جس کی اونچائی 128 فٹ ہے جبکہ مسجد میں داخلے کے لیے شمال کی جانب تین دروازے موجود ہے۔ یہ تمام دروازے صدر روڈ کی طرف کھلتے ہیں۔ مسجد کے ساتھ مغرب میں سنہری مسجد کے نام سے ایک رہائشی کانونی بھی موجود ہے۔ مسجد کی دیواروں اور مینار کو ہلکا سرخ رنگ کے نقش و نگاری سے مزین کیا گیا ہے اور مغلیہ دور کے فن تعمیر سے ملتا ہے۔ یہ مسجد پورے شہر میں خوبصورتی اور نقش ونگار میں کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تاریخ
ترمیمقیام پاکستان سے قبل موجودہ سنہری مسجد کی جگہ ایک پولیس چوکی واقع تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا نما چبوترا تھا جس میں لوگ نماز پڑھا کرتے تھے۔ 20 مئی 1961ء میں مسجد کی توسیع و تعمیر کے لیے پشاور کے چند معززین اور مخیر حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی نے کام شروع کرتے ہوئے مسجد میں توسیع کے لیے حکومت سے زمین دینے کی درخواست کی۔ لٰہذا صوبائی حکومت کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر پشاور اور چیئرمین ایویکوی ٹرسٹ پراپرٹی نے مجلس انتظامیہ کی درخواست پر مسجد سے ملحق روڈ پر واقع تین دکانیں، بالاخانہ اور ان کے پچھلے چار کمرے جس کا کل رقبہ 4200 مربع فٹ تھی مسجد کی توسیع کے لیے دیں۔
1967ء سے 1969ء کے عرصہ کے دوران مسجد کو وسیع بنانے کی ایک بار پھر ضرورت محسوس کی گئی۔ کمیٹی کے درخواست پر کنٹونمنٹ بورڈ پشاور نے مسجد سے ملحق مزید تین دکانیں جن کا کل رقبہ 600 مربع فٹ تھا مسجد کی توسیع کے لیے وقف کر دیں۔ اور مسجد کے ساتھ واقع نیو کالونی کا نام بھی تبدیل کرکے سنہری مسجد کالونی رکھ دیا گیا۔
صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے دورِحکومت میں ایک سرکاری دورے پر جب پشاور پہنچے تو مسجد کی کمیٹی نے صدر مملکت سے ملاقات کی اور مسجد کو درکار زمین دینے کی استدعا کی جس پر مرکزی حکومت نے مسجد کی توسیع و ترقی کے لیے مسجد سے ملحق گورنمنٹ مڈل اسکول سلوان کے پانچ کمرے، برآمدے، ہال اور اس سے متصل دس مرلے کا گھر جس کا کل رقبہ 6880 مربع فٹ بنتا تھا مسجد کے لیے وقف کیا گیا جس سے مسجد کا کل رقبہ 18000 (اٹھارہ ہزار) مربع فٹ ہو گیا۔
کنونیر کے خیالات
ترمیممسجد کے کنوینر نے ایک انٹرویو میں مسجد کے بارے میں کچھ یوں کہا ہے۔[1]جس کا خلاصہ درج زیل ہے۔[2]
میرا نام حبیب الرحمن ہے۔ میری عمر 94 سال ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے پشاور کنٹونمنٹ کے صدر میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی۔ یہاں کنٹونمنٹ ایریا میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ اس وقت یہاں آس پاس کوئی نزدیک مسجد نہیں تھا۔ لاوڈ سپیکر بھی نہیں تھے۔ یہاں کے لوگ جب نماز کے لیے دوسری جگہ مسجد تشریف لے جاتے تھے تو مسجد دور ہونے کے وجہ سے اکثر لوگ مسجد پہنچنے سے پہلے نماز باجماعت سے رہ جاتے تھے۔ لہذا ہمیں خیال پیدا ہوا کہ یہاں ایک مسجد تعمیر ہونا چاہیے جس کا ایک اونچا مینار ہو جس کی اونچائی مسجد مہابت خان کی مینار سے زیادہ ہو۔ تاکہ مینار میں مؤذن بلند آواز اذان دے کر اس کی آواز دور دور تک جاسکے۔ سلطان محمود خان جو ایک ماہر انجینئر تھے یہ تمام کام اس کے سپرد کیا گیا اور ہماری یہ خواہش تھی کی مسجد کے مینار کا نقشہ اور دیگر نقش و نگار لاہور کے شاہی مسجد سے مماثلت رکھتا ہو۔ انجینئر نے بڑی کمال سے شاہی مسجد لاہور کے طرز پر تقشہ تیار کیا اور یہ مسجد کو بنایا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ پیسے چاہیے تو ہم نے کہا پیسے نہیں چاہیے جو جگہ آپ نے دی ہے۔ ایک اسکول دیا ہے، چھ کمرے دیے ہے ، ایک گھر خرید کر دیا ۔