سورہ القصص

قرآن مجید کی 28 ویں سورت
(سورت قصص سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 28 ویں سورت جو مکہ میں نازل ہوئی۔ اس میں 88 آیات اور 9 رکوع ہیں۔

القصص
دور نزولمکی
زمانۂ نزولمکی زندگی کا دورِ متوسط
اعداد و شمار
عددِ سورت28
عددِ پارہ20
تعداد آیات88
الفاظ1,441
حروف5,791

نام

آیت نمبر 25 کے اس فقرے سے ماخوذ ہے و قص علیہ القصص یعنی وہ سورت جس میں القصص کا لفظ آیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے قصص کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنے کے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ لفظ باعتبار معنی بھی اس سورت کا عنوان ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مفصل قصہ بیان ہوا ہے۔

زمانۂ نزول

سورۂ نمل کے مضمون میں ابن عباس اور جابر بن یزید کا یہ قول نقل کیا جا چکا ہے کہ سورۂ شعراء سورۂ نمل اور سورۂ قصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں۔ زبان، اندازِ بیاں اور مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں سورتوں کا زمانۂ نزول قریب قریب ایک ہی ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے کے مختلف اجزاء جو ان میں بیان کیے گئے ہیں وہ باہم مل کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں۔ سورۂ شعراء میں نبوت کا منصب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ "قومِ فرعون کا ایک جرم میرے ذمہ ہے جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہاں جاؤں گا تو وہ مجھے قتل کر دیں گے "۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ "کیا ہم نے اپنے ہاں تجھے بچہ سا نہیں پالا تھا اور تو ہمارے ہاں چند سال رہا پھر کر گیا جو کچھ کہ کر گیا"۔ ان دونوں باتوں کی کوئی تفصیل وہاں نہیں بیان کی گئی۔ اس سورت میں اسے بتفصیل بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۂ نمل میں قصہ یکایک اس بات سے شروع ہو گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل و عیال کو لے کر جا رہے تھے اور اچانک انھوں نے ایک آگ دیکھی۔ وہاں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کیسا سفر تھا، کہاں سے وہ آ رہے تھے اور کدھر جا رہے تھے۔ یہ تفصیل اس سورت میں بیان ہوئی ہے۔ اس طرح یہ تینوں سورتیں مل کر قصۂ موسیٰ علیہ السلام کی تکمیل کر دیتی ہیں۔

موضوع اور مباحث

اس کا موضوع اُن شبہات و اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر وارد کیے جا رہے تھے اور اُن عذرات کو قطع کرنا ہے جو آپ پر ایمان نہ لانے کے لیے پیش کیے جاتے تھے۔

اس غرض کے لیے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو زمانۂ نزول کے حالات سے مل کر خود بخود چند حقیقتیں سامع کے ذہن نشین کر دیتا ہے :

اول یہ کہ اللہ تعالٰیٰ جو کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب و ذرائع فراہم کر دیتا ہے۔ جس بچے کے ہاتھوں آخر کار فرعون کا تختہ الٹنا تھا، اسے اللہ نے خود فرعون ہی کے گھر میں اس کے ہاتھوں پرورش کرادیا اور فرعون یہ نہ جان سکا کہ وہ کسے پرورش کر رہا ہے۔ اس خدا کی مشیت سے کون لڑ سکتا ہے اور کس کی چالیں اس کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ نبوت کسی شخص کے کسی بڑے جشن اور زمین و آسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی۔ تم کو حیرت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چپکے سے یہ نبوت کہاں سے مل گئی اور بیٹھے بٹھائے یہ نبی کسیے بن گئے۔ مگر جن موسیٰ علیہ السلام کا تم خود حوالہ دیتے ہو کہ لو لآ اوتی متل مآ اوتی موسیٰ (آیت 48)، انھیں بھی اسی طرح راہ چلتے نبوت مل گئی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی تھی کہ آج طور سینا کی سنسان وادی میں کیا واقعہ پیش آ گیا۔ موسیٰ علیہ السلام ایک لمحے پہلے تک نہ جانتے تھے کہ انھیں کیا چیز ملنے والی ہے۔ آگ لینے چلے تھے اور پیمبری مل گئی۔

تیسرے یہ جس بندے سے خدا کوئی کام لینا چاہتا ہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سر و سامان کے اٹھتا ہے۔ کوئی اس کا مددگار نہیں ہوتا، کوئی طاقت بظاہر اس کے پاس نہیں ہوتی۔ مگر بڑے بڑے لاؤ لشکر اور سر و سامان والے آخر کار اس کے مقابلے میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ جو نسبت آج تم اپنے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان پا رہے ہو اس سے بہت زیادہ فرق موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا۔ مگر دیکھ لو کہ آخر کون جیتا اور کون ہارا۔

چوتھے یہ کہ تم لوگ بار بار موسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہو کہ "محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا"۔ یعنی عصا اور ید بیضا اور دوسرے کھلے کھلے معجزے۔ گویا تم ایمان لانے کو تو تیار بیٹھے ہو، بس انتظار ہے تو یہ کہ تمھیں وہ معجزے دکھائے جائیں جو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دکھائے تھے۔ مگر تمھیں کچھ معلوم بھی ہے کہ جن لوگوں کو وہ معجزے دکھائے گئے تھے انھوں نے کیا کیا تھا؟ وہ انھیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے۔ انھوں نے کہا تو یہ کہا کہ یہ جادو ہے۔ کیونکہ وہ حق کے خلاف ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھے۔ اسی مرض میں آج تم مبتلا ہو۔ کیا تم اسی طرح کے معجزے دیکھ کے ایمان لے آؤ گے؟ پھر تمھیں یہ کچھ یہ بھی خبر ہے کہ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق سے انکار کیا تھا ان کا انجام کیا ہوا؟ آخر کار اللہ نے انھیں تباہ کرکے چھوڑا۔ اب کیا تم بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ معجزہ مانگ کر اپنی شامت بلانا چاہتے ہو؟

یہ وہ باتیں ہیں جو کسی تصریح کے بغیر آپ سے آپ ہر اُس شخص کے ذہن میں اتر جاتی تھیں جو مکے کے کافرانہ ماحول میں اس قصے کو سنتا تھا کیونکہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان ویسی ہی ایک کشمکش برپا تھی جیسی اس سے پہلے فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان برپا ہو چکی تھی اور ان حالات میں یہ قصہ سنانے کے معنی یہ تھے کہ اس کا ہر جز وقت کے حالات پر خود بخود چسپاں ہوتا چلا جائے، خواہ ایک لفظ بھی ایسا نہ کہا جائے جس سے معلوم ہو کہ قصے کا کون سا جز اس وقت کے معاملے پر چسپاں ہو رہا ہے۔

اس کے بعد پانچویں رکوع سے اصل موضوع پر براہ راست کلام شروع ہوتا ہے۔

پہلے اس بات کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا ایک ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ آپ اُمی ہونے کے باوجود دو ہزار برس پہلے گذرا ہوا ایک تاریخی واقعہ اس تفصیل کے ساتھ من و عن سنا رہے ہیں حالانکہ آپ کے شہر اور آپ کی برادری کے لوگ خوب جانتے تھے کہ آپ کے پاس ان معلومات کے حاصل ہونے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس کی وہ نشان دہی کر سکیں۔

پھر آپ کے نبی بنائے جانے کو ان لوگوں کے حق میں اللہ کی ایک رحمت قرار دیا جاتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے اور اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے یہ انتظام کیا۔

پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے جو وہ بار بار پیش کرتے ہیں کہ "یہ نبی وہ معجزے کیوں نہ لایا جو اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام لائے تھے "۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق تم خود مان رہے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے معجزے لائے تھے، انہی کو تم نے کب مانا ہے کہ اب اس نبی سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہو؟ خواہشاتِ نفس کی بندگی نہ کرو تو حق اب بھی تمھیں نظر آ سکتا ہے لیکن اگر اس مرض میں تم مبتلا رہو تو خواہ کوئی معجزہ آجائے، تمھاری آنکھیں نہیں کھل سکتیں۔

پھر کفار مکہ کو اس واقعہ پر عبرت اور شرم دلائی گئی ہے جو اسی زمانے میں پیش آیا تھا کہ باہر سے کچھ مسیحی مکے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن سن کر ایمان لے آئے، مگر مکہ کے لوگ اپنے گھر کی اس نعمت سے مستفید تو کیا ہوتے، ان کے ابو جہل نے الٹی ان لوگوں کی کھلم کھلا بے عزتی کی۔

آخر میں کفار مکہ کے اس اصل عذر کو لیا جاتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات نہ ماننے کے لیے وہ پیش کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم اہلِ عرب کے دینِ شرک کو چھوڑ کر اس نئے دینِ توحید کو قبول کر لیں تو یکا یک اس ملک سے ہماری مذہبی، سیاسی اور معاشی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی اور ہمارا حال یہ ہوگا کہ عرب کے سب سے زیادہ با اثر قبیلے کی حیثیت کھو کر اس سرزمین میں ہمارے لیے کوئی جائے پناہ تک باقی نہ رہے گی۔ یہ چونکہ سرداران قریش کی حق دشمنی کا اصل محرک تھا اور باقی سارے شبہات و اعتراضات محض بہانے تھے جو وہ عوام کو فریب دینے کے لیے تراشتے تھے، اس لیے اللہ تعالٰیٰ نے اس پر آخرِ سورت تک مفصل کلام فرمایا ہے اور اس کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈال کر نہایت حکیمانہ طریقے سے ان تمام بنیادی امراض کا مداوا کیا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ حق اور باطل کا فیصلہ دنیوی مفاد کے نقطۂ نظر سے کرتے تھے۔

متعلقہ مضامین