الاعراف
قرآن مجید کی ساتویں سورت، جس میں 206 آیات ہیں۔ یہ مکی سورت ہے۔
فائل:AL-ARAF.PNG الاعراف | |
دور نزول | مکی |
---|---|
زمانۂ نزول | ہجرت سے قبل |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 7 |
عددِ پارہ | 8 اور 9 |
تعداد آیات | 206 |
الفاظ | 3,344 |
حروف | 14,071 |
گذشتہ | الانعام |
آئندہ | الانفال |
نام
اس سورت کا نام اعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی آیات 46اور 47 میں اعراف اور اصحاب کا ذکر آیا ہے۔ گویا اسے "سورۂ اعراف" کہنے کا مطلب یہ ہے کہ "وہ سورت جس میں اعراف کا ذکر ہے "۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے : الاعراف آیت 163 تا 170
اس کے مضامین پر غور کرنے سے بین طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول تقریباً وہی ہے جو سورۂ انعام کا ہے۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ پہلے نازل ہوئی یا وہ مگر اندازِ تقریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ اسی دور سے متعلق ہے۔ لہٰذا اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے سورۂ انعام کے مضمون پر نگاہ ڈال لینا کافی ہوگا۔
مباحث
اس سورت کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے لیکن اس دعوت میں انداز (تنبیہ اور ڈراوے) کا رنگ زیادہ نمایاں پایا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں (یعنی اہل مکہ) انھیں سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گذر چکا ہے اور ان کی گراں گوشی، ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر کو ان سے مخاطبہ بند کرکے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لیے تفہیمی انداز میں قبولِ رسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جو روش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلے میں اختیار کر رکھی ہے ایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلے میں اختیار کرکے بہت برا انجام دیکھ چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پر حجت تمام ہونے کے قریب آگئی ہے اس لیے تقریر کے آخری حصہ میں دعوت کا رخ اُن سے ہٹ کر اہل کتاب کی طرف پھر گیا ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دور جس میں نبی کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے، خاتمے پر آلگا ہے۔ دورانِ تقریر میں چونکہ خطاب کا رخ یہود کی طرف بھی پھر گیا ہے اس لیے ساتھ ساتھ دعوتِ رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیار کرنے اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے کے بعد اسے توڑ دینے اور حق و باطل کی تمیز سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستفرق رہنے کا انجام کیا ہ۔ ے سورت کے آخری میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حکمتِ تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ انھیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلے میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہوکر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔