سورہ الذاریات

قرآن مجید کی 51 ویں سورت
(سورہ ذاریات سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 51 ویں سورت جس میں 3 رکوع اور 60 آیات ہیں۔

  سورۃ 51 - قرآن  
سورة الذاريات
Sūrat al-Dhāriyāt
سورت الذاریات
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
دیگر نام (انگریزی)The Scatterers, The Dust-Scattering Winds
عددِ پارہ26, 27 واں پارہ
اعداد و شمار3 رکوع, 60 آیات, 360 الفاظ, 1546 حروف

نام

پہلے ہی لفظ والذاریات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس کی ابتدا لفظ الذاریات سے ہوتی ہے۔

زمانہ نزول

مضامین اور انداز بیاں سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا مقابلہ تکذیب وہ استہزاء اور جھوٹے الزامات سے تو بڑے زور و شور کے ساتھ ہو رہا تھا، مگر ابھی ظلم و تشدد کی چکی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ بھی اسی دور کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے جس میں سورہ ق نازل ہوئی ہے۔

موضوع اور مباحث

اس کا بڑا حصہ آخرت کے موضوع پر ہے اور آخرت میں توحید کی دعوت پیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ انبیا علیہم السلام کی بات نہ ماننا اور اپنے جاہلانہ تصورات پر اصرار کرنا خود انہی قوموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے جنھوں نے یہ روش اختیار کی ہے۔ آخرت کے متعلق جو بات اس سورت کے چھوٹے چھوٹے مگر نہایت پر معنی فقروں میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے مآل و انجام کے بارے میں لوگوں کے مختلف اور متضاد عقیدے خود اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ ان میں سے کوئی عقیدہ بھی علم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے قیاسات دوڑا کر اپنی جگہ جو نظریہ قائم کر لیا اسی کو وہ اپنا عقیدہ بنا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے سمجھا کہ زندگی کے بعد موت نہیں ہوگی۔ کسی نے اس کو مانا تو تناسخ کی شکل میں مانا۔ کسی نے حیات اخروی اور جزا و سزا کو تسلیم کیا تو جزائے اعمال سے بچنے کے لیے طرح طرح کے سہارے تجویز کر لیے۔ اتنے بڑے اور اہم ترین بنیادی مسئلے پر، جس کے بارے میں آدمی کی رائے کا غلط ہو جانا اس کی پوری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے مستقبل کو برباد کر ڈالتا ہے،علم کے بغیر محض قیاسات کی بنا پر کوئی عقیدہ بنا لینا ایک تباہ کن حماقت ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ آدمی ایک بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہ کر ساری عمر جاہلانہ غفلت میں گزار دے اور مرنے کے بعد اچانک ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہو جس کے لیے اس نے قطعاً کوئی تیاری نہ کی تھی۔ ایسے مسئلے کے بارے میں جو صحیح رائے قائم کرنے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو آخرت کے متعلق جو علم خدا کی طرف سے اس کا نبی دے رہا ہے اس پر وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور زمین و آسمان کے نظام اور خود اپنے وجود پر نگاہ ڈال کر کھلی آنکھوں سے دیکھے کہ کیا اس علم کے صحیح ہونے کی شہادت ہر طرف موجود نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ہوا اور بارش کے انتظام کو، زمین کی ساخت اور اس کی مخلوقات کو، انسان کے اپنے نفس کو، آسمان کی تخلیق کو اور دنیا کی تمام اشیاء کے جوڑوں کی شکل میں بنائے جانے کو آخرت کی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح ایک قانونِ مکافات کا مقتضی نظر آ رہا ہے۔ اس کے بعد بڑے مختصر انداز میں توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھارے خالق نے تم کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ تمھارے بناوٹی معبودوں کی طرح نہیں ہے جو تم سے رزق لیتے ہیں اور تمھاری مدد کے بغیر جن کی خدائی نہیں چل سکتی۔ وہ ایسا معبود ہے جو سب کا رزاق ہے، کسی سے رزق لینے کا محتاج نہیں اور جن کی خدائی خود اس کے اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انبیا علیہم السلام کا مقابلہ جب بھی کیا گیا ہے کسی معقول بنیاد پر نہیں بلکہ اسی ضد اور ہٹ دھرمی اور جاہلانہ غرور کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ برتی جا رہی ہے اور اس کی محرک بجز سر کشی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان سرکشوں کی طرف التفات نہ کریں اور اپنی دعوت و تذکیر کا کام کیے جائیں، کیونکہ وہ ان لوگوں کے لیے چاہے نافع نہ ہو، مگر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ رہے وہ ظالم جو اپنی سر کشی پر مصر رہیں، تو ان سے پہلے اسی روش پر چلنے والے اپنے حصے کا عذاب پا چکے ہیں اور ان کے حصے کا عذاب تیار ہے۔