سورہ ق

قرآن مجید کی 50 ویں سورت

قرآن مجید کی 50 ویں سورت جس میں 3 رکوع اور 45 آیات ہیں۔

  سورۃ 50 - قرآن  
سورة ق
Sūrat Qāf
سورت ق
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
عددِ پارہ26 واں پارہ
اعداد و شمار3 رکوع, 45 آیات, 373 الفاظ, 1507 حروف

نام

آغاز ہی کے حرف ق سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس کا افتتاح حرف ق سے ہوتا ہے۔

زمانہ نزول

کسی معتبر روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ ٹھیک کس زمانے میں نازل ہوئی ہے، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سال سے شروع ہو کر پانچویں سال تک رہا۔ اس دور کی خصوصیات ہم سورہ انعام کے مضمون میں لکھ چکے ہیں۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازہً یہ قیاس کیا جا سکتا ہے یہ سورت پانچویں سال میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی، مگر ابھی ظلم و ستم کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

موضوع و مباحث

معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کر تے تھے۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ، جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پڑوسن تھیں، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورہ ق یاد ہی اس طرح ہوئی کہ جمعہ کے خطبوں میں آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی۔ بعض اور روایات میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آپ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں ایک بڑی اہم سورت تھی۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اس اہمیت کی وجہ سے سورت بغور پڑھنے سے با آسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ پوری سورت کا موضوع آخرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ تو بالکل انہونی بات ہے، عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہو سکتا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہو چکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گذرنے کے بعد پھر سے اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنا دیا جائے اور ہم زندہ اٹھ کھڑے ہوں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع کے دلائل دیے گئے ہیں اور دوسرے طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، بعید از عقل سمجھو یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمھارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالٰی کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے اور یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہوجائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح تمھارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمھیں جواب دہی نہیں کرنی ہے،ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی براہ راست خود بھی تمھارے ہر قول و فعل سے، بلکہ تمھارے دل میں گذرنے والے خیالات تک سے واقف ہے اس کے بعد فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہوگے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمھاری عقل پر پڑا ہوا ہے، تمھارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو۔ اس وقت تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے۔ جزا و سزا، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ، جنہیں آج فسانۂ عجائب سمجھ رہے ہو، اس وقت یہ ساری چیزیں تمھاری مشہود حقیقتیں ہوں گی۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی پلٹ آنے والے تمھاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمھیں تعجب ہو رہا ہے۔