سورہ عبس
قرآن مجید کی 80 ویں سورت جو 30 ویں پارے میں ہے۔ اس کی کل 42 آیات ہیں۔
عبس | |
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 80 |
تعداد آیات | 42 |
الفاظ | 133 |
حروف | 538 |
گذشتہ | النازعات |
آئندہ | التکویر |
نام
پہلے ہی لفظ عبس کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
مفسرین و محدثین نے بالاتفاق او سورت کا سبب نزول یہ بیان کیا ہے کہ یہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں مکۂ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ اتنے میں ابن ام مکتوم نامی ایک نابینا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپ نے ان سے بے رخی برتی۔ اس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ سورت نازل ہوئی۔ اس تاریخی واقعہ سے اس سورت کا زمانۂ نزول بآسانی متعین ہو جاتا ہے۔
اولاً یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم بالکل ابتدائی دور کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر اور حافظ ابن کثیر تصریح کرتے ہیں کہ اسلم بمکۃ قدیماً اور ھو ممن اسلم قدیماً یعنی یہ ان لوگوں میں سے تھے جو مکۂ معظمہ میں بہت پہلے اسلام لائے تھے۔
ثانیاً حدیث کی جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اسلام لا چکے تھے اور بعض سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہو چکے تھے اور تلاش حق میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ انھوں نے آ کر عرض کیا تھا: یا رسول اللہ، ارشدنی (یا رسول اللہ، مجھے سیدھا راستہ بتائیے) ۔[1] حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ آ کر قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ علمنی مما علمک اللہ‘‘ (یا رسول اللہ، مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے) ۔[2] ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا کا رسول اور قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کر چکے تھے۔ دوسری طرف ابن زید آیت 3 کے لفظ لعلہ یزکٰی کا مطلب لعلہ یسلم (شاید وہ اسلام قبول کر لے) بیان کرتے ہیں ۔[3] اور اللہ تعالٰی کا اپنا یہ ارشاد بھی کہ
” | تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ | “ |
اور یہ کہ
” | جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو | “ |
اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت ان کے اندر طلبِ حق کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو ہدایت کا منبع سمجھ کر آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے تھے کہ ان کی طلب یہیں سے پوری ہوگی اور یہ بات ان کی حالت سے ظاہر ہو رہی تھی کہ انھیں ہدایت دی جائے تو وہ اس سے مستفید ہوں گے۔
ثالثاً حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں جو لوگ اس وقت بیٹھے تھے، مختلف روایات میں ان کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے۔ اس فہرست میں ہمیں عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف، ابی بن خلف جیسے بد ترین دشمنان اسلام کے نام ملتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ان لوگوں کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی نہ بڑھی تھی کہ آپ کے ہاں ان کی آمدورفت اور آپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ یہ سب امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سورت بہت ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
موضوع اور مضمون
بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیاں دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نابینا سے بے رخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اس سورت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عتاب فرمایا گیا ہے لیکن پوری سورت پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عتاب کفارِ قریش کے ان سرداروں پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبلیغِ حق کو حقارت کے ساتھ رد کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اُس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں آپ اختیار فرما رہے تھے۔ آپ کا ایک نابینا سے بے رخی برتنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں کو معزز اور بیچارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے اور معاذ اللہ یہ کوئی کج خُلقی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالٰی نے گرفت فرمائی، بلکہ معاملہ کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی دعوت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر اس کا رحجان اس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے با اثر لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں تاکہ کام آسان ہو جائے، ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں میں دعوت پھیل بھی جائے تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی طرز عمل ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرک سراسر اخلاص اور دعوتِ حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگوں کی تعظیم اور چھوٹے لوگوں کی تحقیر کا تخیل۔ لیکن اللہ تعالٰی نے آپ کو سمجھایا کہ اسلامی دعوت کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے، بلکہ اس دعوت کے نقطۂ نظر سے ہر وہ انسان اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور، بے اثر یا معذور ہو اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ اس لیے آپ اسلام کی تعلیمات تو ہانکے پکارے سب کو سنائیں، مگر آپ کی توجہ کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جن میں قبولِ حق کی آمادگی پائی جاتی ہو اور آپ کی بلند پایہ دعوت کے مقام سے یہ بات فروتر ہے کہ آپ اسے ان مغرور لوگوں کے آگے پیش کریں جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہوں کہ اُن کو آپ کی نہیں بلکہ آپ کو اُن کی ضرورت ہے۔
یہ آغازِ سورت سے آیت 16 تک کا مضمون ہے۔ اس کے بعد آیت 17 سے براہ راست عتاب کا رخ ان کفار کی طرف پھر جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو رد کر رہے تھے۔ اس میں پہلے اُس رویے پر انھیں ملامت کی گئی ہے جو وہ اپنے خالق و رزاق پروردگار کے مقابلے میں برت رہے تھے اور آخر میں ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنی اس روش کا کیسا ہولناک انجام دیکھنے والے ہیں۔