سورہ کوثر

قرآن کا 108 واں سورہ
الکوثر
اعداد و شمار
عددِ سورت108
عددِ پارہ30
تعداد آیات3
گذشتہالماعون
آئندہالکافرون
سورہ کوثر

سورۃ

بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَحیِمِْ۝
  إِنّا أَعطَيناكَ الكَوثَرَ   فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر  إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الأَبتَرُ   

ترجمہ اشرف علی تھانوی

الله کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بے شک ہم نے آپ کو کوثر (ایک حوض کا نام ہے اور ہر خیر کثیر بھی اس میں داخل ہے) عطا فرمائی ہے۔ (1)

سو (ان نعمتوں کے شکریہ میں) آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیئے اور قربانی کیجیے۔ (2)

بالیقین آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔ (3)

ترجمہ احمد علی

الله کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بے شک ہم نے آپ کو کوثر دی (1)

پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیئے اور قربانی کیجیے (2)

بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے (3)

ترجمہ جالندھری

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

(اے محمد) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے (1)

تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو (2)

کچھ شک نہیں کہ تمھارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا (3)

نام

انآ اعطینٰک الکوثر کے لفظر الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول ابن مردویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن الزبیر اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے، کلبی اور مقاتل بھی اسے مکی کہتے ہیں اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ لیکن حضرت حسن بصری، عکرمہ، مجاہد اور قتادہ اس کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی نے اتقان میں اسی قول کو صحیح ٹھیرایا ہے اور امام نووی نے شرح مسلم میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ وجہ اس کی وہ روایت ہے جو امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ محدثین نے حضرت انس بھی مالک سے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ اتنے میں آپ پر کچھ اونگھ سی طاری ہو ہوئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں؟ اور بعض میں ہے کہ آپ نے خود لوگوں سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر آپ نے سورۂ کوثر پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ فرمایا وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے جنت میں عطا کی ہے۔ اس روایت سے اس سورہ کے مدنی ہونے پر اس وجہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ میں نہیں بلکہ مدینے میں تھے اور ان کا یہ کہنا کہ ہماری موجودگی میں یہ سورت نازل ہوئی، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مدنی ہے۔ مگر اول تو انہی حضرت انس سے امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور ابن جریر نے یہ روایات نقل کی ہیں کہ جنت کی یہ نہر (کوثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج میں دکھائی جا چکی تھی اور سب کو معلوم ہے کہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوئی تھی۔ دوسرے، جب معراج میں آپ کو اللہ تعالٰی کے اِس عطیہ کی نہ صرف خبر دی جا چکی تھی بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرا دیا گیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حضور کو اُس کی خوشخبری دینے کے لیے مدینۂ طیبہ میں سورۂ کوثر نازل کی جاتی۔ تیسرے، اگر صحابہ ایک مجمع میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود سورۂ کوثر کے نزول کی خبر دی ہوتی جو حضرت انس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی مذکورۂ بالا روایت میں بیان ہوئی ہے اور اُس کا مطلب یہ ہوتا کہ پہلی مرتبہ یہ سورت اِسی وقت نازل ہوئی ہے، تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے باخبر صحابہ اس سورت کو مکی قرار دیتے اور جمہور مفسرین اس کے مکی ہونے کے قائل ہو جاتے؟ اس معاملہ پر غور کیا جائے تو حضرت انس کی روایت میں خلا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں یہ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے جس مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی اُس میں پہلے سے کیا گفتگو چل رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی مسئلے پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں، اُس کے دوران میں وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا ہو کہ اِس مسئلے پر سورۂ کوثر سے روشنی پڑتی ہے اور آپ نے اِسی بات کا ذکر یوں فرمایا ہو کہ مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ اِس قسم کے واقعات متعدد مواقع پر پیش آئے ہیں جن کی بنا پر مفسرین نے بعض آیات کے متعلق کہا ہے کہ وہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں۔ اس دوسرے نزول کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ آیت تو پہلے نازل ہو چکی تھی، مگر دوسری بار کسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذریعۂ وحی اُسی آیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ایسی روایات میں کسی آیت کے نزول کا ذکر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ وہ مکی ہے یا مدنی اور اس کا اصل نزول فی الواقع کسی زمانے میں ہوا تھا۔ حضرت انس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی یہ روایت اگر شک پیدا کرنے کی موجب نہ ہو تو سورۂ کوثر کا پورا مضمون بجائے خود اِس امر کی شہادت دیتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ میں نازل ہوئی تھی اور اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو انتہائی دل شکن حالات سے سابقہ درپیش تھا۔ تاریخی پس منظر اس سے پہلے سروۂ ضحٰی اور سورۂ الم نشرح میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شدید ترین مشکلات سے گذر رہے تھے، پوری قوم دشمنی پر تلی ہوئی تھی، مزاحمتوں کے پہاڑ راستے میں حائل تھے، مخالفت کا طوفان ہر طرف برپا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے چند مٹھی بھر ساتھیوں کو دور دور تک کہیں کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے تھے، اُس وقت آپ کو تسلی دینے اور آپ کی ہمت بندھانے کے لیے اللہ تعالٰی نے متعدد آیات نازل فرمائیں۔ سورۂ ضحٰی میں فرمایا

اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور (یعنی ہر بعد کا دور) پہلے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے

اور الم نشرح میں فرمایا

اور ہم نے تمہارا آوازہ بلند کر دیا

یعنی دشمن تمھیں ملک بھر میں بدنام کرتے پھر رہے ہیں مگر ہم نے ان کے علی الرغم تمھارا نام روشن کرنے اور تمھیں ناموری عطا کرنے کا سامان کر دیا ہے اور

پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، یقیناً تسگی کے ساتھ فراخی بھی ہے

یعنی اِس وقت حالات کی سختیوں سے پریشان نہ ہو، عنقریب یہ مصائب کا دور ختم ہونے والا ہے اور کامیابیوں کا دور آنے ہی والا ہے۔

ایسے ہی حالات تھے جن میں سورۂ کوثر نازل کر کے اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسلی بھی دی اور آپ کے مخالفین کے تباہ و برباد ہونے کی پیشینگوئی بھی فرمائی۔ قریش کے کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ساری قوم سے کٹ گئے ہیں اور اُن کی حیثیت ایک بے کس اور بے یار و مددگار انسان کی سی ہو گئی ہے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبی بنائے گئے اور آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو قریش کے لوگ کہنے لگے "محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور متوقع یہی ہے کہ کچھ مدت بعد وہ سوکھ کر پیوند خاک ہو جائیں گے" حوالہ: ابن جریر۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مکہ کے سردار عاص بن وائل سہمی کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا "اجی چھوڑو انھیں، وہ تو ایک ابتر (جڑ کٹے) آدمی ہیں، ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں، مر جائیں گے تو کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہوگا"۔ شمر بن عطیہ کا بیان ہے کہ عقبہ بن ابی معیط بھی ایسی ہی باتیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق کہا کرتا تھا حوالہ: ابن جریر۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ کعب بن اشرف (مدینہ کا یہودی سردار) مکہ آیا تو قریش کے سرداروں نے اس سے کہا "بھلا دیکھو تو سہی، اس لڑکے کو جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ ہم حج اور سدانت اور سقایات کے منتظم ہیں حوالہ: بزار۔ اسی واقعہ کے متعلق عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ قریش والوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے "کمزور، بے یار و مددگار اور بے اولاد آدمی جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے" کے الفاظ استعمال کیے تھے حوالہ: ابن جریر۔ ابن سعد اور ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے بڑے صاحب زادے قاسم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبد اللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے، پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں ام کلثوم، فاطمہ اور رقیہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبد اللہ نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ "اُن کی نسل ختم ہو گئی۔ اب وہ ابتر ہیں" (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے کہ عاص نے کہا "محمد ابتر ہیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا قائم مقام بنے، جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمھارا پیچھا چھوٹ جائے گا"۔ عبد بن حمید نے ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی ہی باتیں کہی تھیں۔ شمر بن عطیہ سے ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس غم پر خوشی مناتے ہوئے ایسے ہی کمینہ پن کا مظاہرہ عقبہ بن ابی معیط نے کیا تھا۔ عطاء کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا چچا ابو لہب (جس کا گھر بالکل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر سے متصل تھا) دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور اُن کو یہ "خوشخبری" دی کہ "آج رات محمد لا ولد ہو گئے یا ان کی جڑ کٹ گئی" یہ تھے وہ انتہائی دلشکن حالات جن میں سورۂ کوثر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کی گئی۔ قریش اس لیے آپ سے بگڑے تھے کہ آپ صرف الل ہی کی بندگی و عبادت کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ نے علانیہ رد کر دیا تھا۔ اِسی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ و مقام آپ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ سے چھین لیا گیا تھا اور آپ گویا برادری سے کاٹ پھینکے گئے تھے۔ آپ کے چند مٹھی بھر ساتھی بھی سب بے یار و مددگار تھے اور مارے کھدیڑے جا رہے تھے۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کی بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی باتیں تھیں جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے ہمیشہ انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے آپ کو اِس مختصر ترین سورت کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی ہے جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں دی گئی۔ اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔