عبد اللہ بن زبیر

صحابی

عبد اللہ بن زبیر جن کا لقب حمامۃ المسجد پیدائش وفات 73ھ (623ء تا 692ء)۔

عبد اللہ بن زبیر
(عربی میں: عبد الله بن الزبير ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش اپریل624ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 اکتوبر 692ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ [3]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل حجاج بن یوسف   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات لڑائی میں ہلاک   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ تماضر بنت منظور   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عباد بن عبداللہ بن زبیر ،  عامر بن عبداللہ بن زبیر ،  حمزہ بن عبداللہ بن زبیر ،  خبیب بن عبداللہ بن زبیر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد زبیر ابن العوام [2]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ اسماء بنت ابی بکر   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
خلیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
14 نومبر 683  – 2 نومبر 692 
یزید بن معاویہ  
عبدالملک بن مروان  
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  مفسر قرآن ،  فقیہ ،  محدث ،  الٰہیات دان ،  خلیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ یرموک ،  جنگ سبیطلہ 647ء ،  جنگ جمل ،  محاصرہ مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نسب

حضرت عبد اللہ بن زبیر، زبیر ابن العوام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ حضرت اسماء حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی بیٹی اور حضرت عائشہ صدیقہ کی حقیقی بہن تھیں۔ مدینہ منورہ میں کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے مہاجرین کے ہاں چونکہ کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی اس لیے یہود مدینہ نے اسے سحرکاری کا کرشمہ قرار رکھا تھا۔ لٰہذا آپ کی پیدائش پر مسلمانوں نے خوب خوشیاں منائیں۔ تقریباً 8 برس کی عمر میں رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کا شمار ان مشاہیر اسلام میں ہوتا ہے جنھوں نے حق و صداقت کا علم بلند رکھنے کے لیے اپنی جان تک بھی نثار کرنے سے دریغ نہ کیا۔

بچپن ہی سے آپ کی پیشانی سے بڑائی کے آثار ہواید تھے۔ دلیری بہادری، شجاعت اور صاف گوئی کے اوصاف کی وجہ سے خواص و عوام میں معروف تھے۔ خلافت راشدہ کے دور میں آپ کئی ایک مہمات میں شریک ہوئے اور قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ جنگ جمل میں اپنی خالہ حضرت عائشہ کی حمایت میں خلیفہ المسلمین علی ابن ابی طالب کے خلاف بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں ان کے جسم پر 40 سے زیادہ زخم لگے۔ جب امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو آپ نے شدید مخالفت کی۔ امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید کے قاصد آپ سے بیعت لینے آئے تو آپ ایک دن کی مہلت لے کر مدینہ سے نکل کر مکہ میں آ گئے اور حدود حرم میں پناہ لی۔ آپ کی پیہم کوششوں کے نتیجہ کے طور پر اہل حجاز نے اموی خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

اعلان خلافت

شہادت حسین نے لوگوں کے دلوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو اس قدر شدت سے برانگیختہ کیا کہ ملک کے طول و عرض میں اموی اقتدار کے خلاف عام ناراضی اور بغاوت کی ایک زبردست لہر اٹھ کھڑی ہوئی چنانچہ جب ابن زبیر نے اہل حجاز کو انقلاب کی دعوت دی تو اہل مکہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس وقت دنیائے اسلام میں آپ جیسی موثر شخصیت کا حامل کوئی دوسرا شخص نہ تھا اس لیے اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ سوائے بنی ہاشم کے جنھوں نے تسلیم نہیں کیا اور انھیں محصور کر دیا گیا تھا۔ محمد بن حنفیہ کو گرفتار کر لیا تھا۔

واقعہ حرہ

یزید نے اہل مدینہ کو بیعت پر مجبور کرنے کے لیے مسلم بن عقبہ کو دس ہزار فوجیوں کے ساتھ حجاز روانہ کیا۔ اہل مدینہ نے شامی افواج کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا مگر تین دن کی جنگ کے بعد شکست کھائی۔ شامی افواج میں اکثریت مسیحی فوجیوں کی تھی جنھوں نے مسلمانوں کی عزت و آبرو پر بڑے بے دردی سے ہاتھ ڈالا اور ان کے مال اسباب کو جی بھر کر لوٹا۔ اس تباہی سے جو لوگ زندہ بچ گئے انھوں نے بیعت کر لی۔ تاریخ اسلام میں اس شرمناک واقعہ کو سانحہ حرہ اور واقعۂ حرہ کا نام دیا جاتا ہے۔

یزید کی موت

مدینہ کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد یزید کی افواج مکہ کی طرف بڑھیں۔ مسلم بن عقبہ دوران میں سفر ہی میں مر گیا۔ لٰہذا حصین بن نمیر کو سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ابن نمیر نے مکہ کا محاصرہ کر لیا جو 64 دن جاری رہا اس دوران میں جب یزید کی موت کی خبر پہنچی تو محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس وقت ابن زبیر ہی مسلمانوں میں سب سے معروف اور موثر شخصیت کے حامل تھے لہذا ابن نمیر نے آپ کو خلافت کی پیش کش کی اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ابن زبیر اگرچہ ایک دلیر اور بہادر انسان تھے مگر انھوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ :

’’ جب تک ایک ایک حجازی کے بدلے دس دس شامیوں کو قتل نہ کر لوں گا تب تک کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘

یہ جواب سن کر حصین نے کہا

’’جو شخص آپ کو عرب کا مدبر کہتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ میں آپ کو راز کی بات کہتا ہوں اور آپ چلا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔ خلافت دلانا چاہتا ہوں اور آپ جنگ و خونریزی پر آمادہ ہیں۔‘‘

ابن نمیر مایوس ہو کر شام واپس لوٹ گیا۔ یہ آپ کی ایک سیاسی غلطی تھی اگر آپ جذبات کی بجائے دو ر اندیشی سے کام لیتے تو حجاز کے علاوہ شام اور عراق بھی فوری طور پر آپ کی خلافت کو تسلیم کر لیتے اور اس طرح اموی خلافت حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جاتی۔

عراق اور مصر کی اطاعت

ابن زبیر کی شخصیت اس وقت تمام عالم اسلام میں نمایاں اور محترم تھی۔ کوئی شخص بھی ان کے مدمقابل دعویٰ خلافت کرنے کی اہلیت اور حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ چنانچہ ان کے داعیوں اور ساتھیوں نے عراق مصر و شام کا رخ کیا۔ سوائے شام کے باقی سب ملکوں کے حکمرانوں اور عمائدین حکومت نے عبد اللہ بن زبیر کو اپنی وفاداریاں سونپ دیں۔ عوام نے بھی ان کی قیادت کو تسلیم کر لیا۔ اس طرح آپ کی خلافت کی حدود حجاز کے علاوہ عراق اور مصر تک وسیع ہوگئیں۔

معرکہ مرج راہط کے اثرات

عبد اللہ ابن زبیر نے مروان کو شام دھکیل کر زبردست سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے جب مروان بن حکم شام پہنچا تو تمام اموی اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اور اکثر امویوں نے اس کے وجود کو غنیمت جانا اور باہمی مشورہ اور رائے کے بعد دوسرے دو خلافت کے دعویداروں کی بجائے، مروان بن حکم کو ہی 683ء میں اپنا خلیفہ چن کر اس کی بیعت کر لی۔ قبیلہ بنو قیس نے امویوں کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ مروان اور حامیان عبد اللہ بن زبیر (بنو قیس) کے درمیان معرکہ مرج راہط پیش آیا جس میں بنو قیس کو شکست ہوئی اور اس طرح عبد اللہ ابن زیبر کی قوت کو پہلی کاری ضرب لگی۔

توابین اور مختار ثقفی کی بغاوت

یزید کی موت کے بعد عراقیوں نے بھی عبد اللہ ابن زبیر کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا کیونکہ بصرہ پر ان کے بھائی مصعب ابن زبیر کا قبضہ تھا۔ اور کوفہ ان کے مقرر کردہ والی عبد اللہ ابن یزید کے ماتحت تھا۔ عراق ہمیشہ کی طرح شورشوں اور سازشوں کا مرکز تھا۔ افراتفری کے اس عالم میں کئی ایک گروہ اور اشخاص اس کشمکش سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔ ان میں توابین کا گروہ سرفہرست تھا۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے امام حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی مگر خوف کی بنا پر ان کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ انھوں نے اپنے گناہوں کے کفارہ کے لیے یہ عہد کیا کہ خون حسین کا بدلہ لیں گے۔ چنانچہ اس وجہ سے توابین کہلائے۔ توابین کے رہنما سلیمان بن صرد خزاعی نے عراق میں علم بغاوت بلند کیا لیکن شکست کھا کر شہید ہوئے۔ مختار ثقفی نے جو نہایت ہی زیرک اور بہادر انسان تھا حالات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ توابین نے اب اسے اپنا رہنما بنا کر کوفہ پر حملہ کر دیا۔ کوفہ کا حاکم عبد اللہ بن مطیع جو عبد اللہ بن زبیر کا ہمنوا تھا قتل کر دیا گیا۔ مختار ثقفی نے کوفہ پر قبضہ کے بعد قاتلین حسین کو چن چن کر قتل کیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ عام عرب آبادی کو بھی نشانہ ستم بنانا شروع کر دیا۔ عرب اکابرین نے مصعب ابن زبیر سے شکایت کی چنانچہ مصعب نے اپنے نامور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ کو مختار ثقفی کی سر کوبی کے لیے مقرر کیا۔ پہلی جھڑپ میں ہی کوفیوں نے شکست کھائی اور ان کی فوج کا کثیر حصہ تباہ ہو گیا۔ مختار ثقفی نے اب محصور ہو کر لڑنے کو ترجیح دی۔ یہ محاصرہ تقریباً چار ماہ قائم رہا لیکن بالآخر مختار قتل ہو گیا۔ مختار کے قتل کے بعد عراق عبد اللہ ابن زبیر کی عملداری میں آ گیا۔

خارجیوں کے خلاف اقدامات

مختار کی سرکشی کے خاتمہ کے بعد عبد اللہ ابن زبیر نے اب اپنے دوسرے طاقتور حریف خوارج کی طرف توجہ دی۔ اگرچہ یزید کے مقابلہ میں انھوں نے ابن زیبر کا ساتھ دیا لیکن اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی بنا پر کسی کے ساتھ بھی زیادہ عرصہ چل نہ سکتے تھے۔ چنانچہ خوارج کے سردار نافع بن ارزق نے عراق میں بڑی سخت بے امنی اور شورش برپا کی۔ عبد اللہ بن حارث والی بصرہ کے ساتھ مقابلہ میں نافع مارا گیا لیکن خوارج کی مزاحمت میں کوئی کمی نہ آئی۔ لٰہذا ابن زبیر نے مہلب بن ابی صفرہ کو خارجیوں کا قلع قمع کے لیے روانہ کیا۔ جس نے بڑے خونریز معرکوں کے بعد ان کی طاقت کو کچل دیا۔

عراق پر عبد الملک کا قبضہ

عبد اللہ ابن زبیر کی سیاسی غلطیوں کی بنا پر حالات آہستہ آہستہ امویوں کے لیے سازگار ہو رہے تھے۔ عبدالملک بن مروان کسی صورت بھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا کہ عراق پر ابن زبیر کا قبضہ بدستور بحال رہے۔ لٰہذا اس نے ایک زبردست لشکر کے ساتھ عراق پر حملہ کر دیا۔ مصعب بن زبیر جو ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھے بڑی جانبازی اور شجاعت سے لڑے مگر عراقیوں نے بے وفائی کی اور ان کے بڑے بڑے سردار عبد الملک سے مل گئے۔ ان سے اگرچہ مصعب کی قوت کمزور ہو گئی مگر انھوں نے مقابلہ جاری رکھا۔ ابراہیم بن مالک جو اس جنگ میں مصعب کے دست راست تھے کام آئے۔ اس کے بعد مصعب خود بھی لڑتے ہوئے مارے گئے۔ مصعب کی افواج کو شکست ہوئی اور وہ میدان سے فرار اختیار کر گئیں۔ اب عراق عبد المک کے قبضہ میں تھا۔

محاصرہ مکہ

ابن زبیر کا اقتدار پہلے ہی روبہ زوال تھا لیکن مصعب بن زبیر کے قتل نے عبدالملک اور ابن زبیر کے درمیان میں سیاسی کشمکش اور رسہ کشی کا حتمی فیصلہ کر دیا۔ عراق کے ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد ابن زبیر کی سیاسی اور فوجی قوت بہت زیادہ کمزور ہو چکی تھی۔ لٰہذا ان حالات میں عبد الملک کے لیے زبیری اقتدار پر ضرب کاری لگانا آسان تھا چنانچہ حجاج بن یوسف کو ابن زبیر کے خلاف مہم کا انچارج بنا کر روانہ کیا گیا۔ حجاج 695ء میں مکہ کا محاصرہ کرکے شہر پر سنگباری شروع کر دی۔ حدود حرم بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں اور خانہ کعبہ کی عمارت کو بھی خاصہ نقصان پہنچا۔ محاصرہ طویل مدت تک جاری رہا جس کی وجہ سے اہل مکہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ محاصرہ اس قدر شدید تھا کی کوئی چیز باہر سے اندر نہ جا سکتی تھی۔ اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہو چکی تھی عام آبادی قحط اور بھوک کا شکار تھی۔ لیکن یہ مصائب ابن زبیر کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے۔ محصورین ان صعبتوں کو آخر کب تک برداشت کر سکتے تھے۔ آہستہ آہستہ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا۔

عبد اللہ بن زبیر کی شہادت

یہ محاصرہ تقریباً 7 ماہ جاری رہا۔ دونوں افواج نے حج کے دوران میں طواف وغیرہ کے لیے جنگ روک دی۔ حج کے اختتام پر جنگ دوبارہ شروع ہوئی تو حجاج نے شہر مکہ پر سنگباری کا حکم دیا جس سے شہر کا اکثر حصہ منہدم ہو گیا۔ جب مقابلہ جاری رکھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو آپ مشورہ کی غرض سے اپنی والدہ حضرت اسماء کے پاس گئے اور عرض کیا کہ

’’اب جب کہ میرے بیٹے بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور جو چند باقی رہ گئے ان میں بھی لڑنے کی تاب نہیں ہے۔ ہمارا دشمن ہمارے ساتھ کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟‘‘

حضرت اسماء جو حضرت صدیق اکبر کی بیٹی تھیں نے جواب دیا

’’بیٹا تم کو اپنی حالت کا اندازہ خود ہوگا۔ اگر تم حق پر ہو اور حق کے لیے لڑتے رہے ہو تو اب بھی اس کے لیے لڑو کیونکہ تمھارے بہت سے ساتھیوں نے اس کے لیے جان دی ہے اور اگر دنیا طلبی کے لیے لڑتے تھے تو تم سے برا کون خدا کا بندہ ہوگا۔ تم نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھ کتنوں کو ہلاک کیا۔ اگر یہ عذر ہے کہ حق پر ہو لیکن اپنے مددگاروں کی وجہ سے مجبور ہو تو یاد رکھو شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔ تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے۔ جاؤ حق پر جان دینا دنیا کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘

یہ جواب سن کر ابن زبیر نے کہا ماں مجھے ڈر ہے کہ میرے قتل کے بعد بنو امیہ میری لاش کو مثلہ کرکے سولی پر لٹکائیں گے۔ اس خدا پرست خاتون نے جواب دیا۔ ’’ذبح ہو جانے کے بعد بکری کی کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی۔ جاؤ خدا سے مدد مانگ کر اپنا کام پورا کرو۔‘‘ ماں کے اس جواب سے ابن زبیر ایک نئے ولولہ اور جذبہ سے اٹھے۔ ماں کو آخری بار الوداع کہہ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور ان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ لیکن بالآخر میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ حجاج آپ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ جو تین دن وہیں لٹکتی رہی آپ کی والدہ حضرت اسماء کا ادھر سے گذر ہوا تو دیکھ کر بولیں

’’شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا۔‘‘

حجاج بن یوسف اور اس کی فوج نے شہر فتح کرکے کعبے پر مجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگادی۔ جس سے کعبہ کی دیواریں شق ہوگئیں اور حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ لوگ کعبہ کی دیواروں کے ٹکرے اور حجر اسود کے ٹکرے اٹھا کر لے گئے جنہیں بعد میں منگوا کر کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

عبد اللہ بن زبیر کے ناکامی کے اسباب

حصین بن نمیر کا مشورہ ماننے سے انکار

یزید کی موت کی خبر پاکر شامی فوج کے سربراہ حصین بن نمیر نے مکہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور عبد اللہ بن زبیر کو بیعت کی پیشکش کی لیکن ابن زبیر نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ اور شامیوں سے حجازیوں کے قتل کا انتقام لینے کا اعلان کرکے شامیوں میں اپنے خلاف شدید رد عمل پیدا کر دیا۔ اس وقت اگر وہ حصین بن نمیر کی بات مان لیتے تو شام پر ان کا قبضہ ہو سکتا تھا اور ان کی بزرگی اور زہد و تقویٰ کی بدولت عام مسلمان بھی ان کی خلافت کو تسلیم کر سکتے تھے لیکن ابن زبیر نے اپنے مخالفین کو طاقتور ہونے کا موقع دے دیا۔

مروان بن حکم کا مدینہ سے اخراج

یزید کی موت کے وقت مروان بن حکم مدینہ میں تھا اور عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کرنے کو تیار تھا لیکن حضرت ابن زبیر کو بنو امیہ سے سخت نفرت تھی۔ انھوں نے اس سے بیعت لینے کی بجائے اسے مدینہ سے نکال دیا۔ اس نے دمشق میں پہنچ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس کے بیٹے عبد الملک نے ابن زبیر کی حکومت کو ختم کر ڈالا۔

خوارج کی شورش

خوارج اپنے عجیب و غریب عقائد اور سرکش مزاج کی وجہ سے تمام حکومتوں کے خلاف بر سر پیکار رہتے۔ عبد اللہ بن زبیر کو بھی ایک نہایت نازک موقع پر ان کی شورش کو فرو کرنے کے لیے فوج بھیجنی پڑی۔ فیصلہ کن مراحل میں جب عبد اللہ بن زبیر کو فوجی قوت کی شدید ضرورت تھی، ان کی بہترین فوج مہلب بن ابی صفرہ کی قیادت میں خوارج کی شورش ختم کرنے میں مصروف تھی۔

توابین اور مختار ثقفی

عبد اللہ بن زبیر کی قوت مختار ثقفی اور توابین کی شورشوں کو فرو کرنے میں زائل ہو گئی۔ ان تمام ہنگاموں کے بعد ابن زبیر کی قوت چونکہ کمزور پڑ چکی تھی اس لیے اموی انھیں آسانی سے شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔

عراقیوں کی غداری

عراقی متلون مزاجی اور وفاداریاں تبدیل کرنے میں بدنامی کی حد تک مشہور تھے۔ چنانچہ جب حجاج نے عراق پر فوج کشی کی تو مصعب کی فوج میں افسروں کی ایک کثیر تعداد انعام و اکرام اور عہدوں کے لالچ میں جنگ کے دوران میں حجاج سے جا ملی اور ابن زبیر کی شکست کا باعث بنی۔

مصعب بن زبیر کی شہادت

عبد اللہ بن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر ایک اچھے منتظم اور بہادر انسان تھے عراق پر عبدالملک کے حملہ کے وقت ان کی شہادت سے عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

حجاج بن یوسف کی سفاکی

حجاج بن یوسف نہایت ظالم و سفاک تھا۔ اس نے مکہ کے محاصرہ میں تمام اخلاقی و مذہبی حدود کو پامال کرتے ہوئے خانہ کعبہ پر پتھراؤ سے بھی گریز نہ کیا۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی سفاکی اور طویل محاصرہ مکہ سے اہل مکہ کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑنے لگے اور تنہا لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

شخصیت و کردار

قبیلہ قریش کا یہ قابل فرزند عبد اللہ بن زبیر جو تقریباً نو سال تک اموی اقتدار کے خلاف نبرد آزما رہا میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوا۔ وہ حسب و نسب۔ عزت و وقار۔ بہادری اور شجاعت میں کسی سے کم نہ تھے۔ صغیر سنی ہی میں کئی مہمات میں شامل ہو کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔ صرف چودہ برس کی عمر میں اپنے باپ کے ساتھ جنگ یرموک میں موجود تھے۔ تین برس بعد عمرو بن العاص فاتح مصر کے لشکر میں تھے۔ آپ نے اپنے باپ کے ساتھ کئی ایک مہمات میں شرکت کی۔ افریقہ کی فتوحات کے ضمن میں بھی آپ نے قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ شہادت عثمان کے وقت آپ ان کے زبردست ہمنواؤں میں سے تھے اور جنگ جمل میں اپنی خالہ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی کمان میں بہادری اور شجاعت کے بے مثال جوہر دکھائے۔ حق کی راہ میں آپ ایک نڈر اور بے باک سپاہی تھے

آپ نے حضرت حسین رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُکی شہادت تک خلافت کے حصول کی کبھی تمنا نہ کی تھی۔ یزید کی نامزدگی کے آپ شدید مخالف تھے۔ آپ کا شمار چونکہ اکابرین عرب میں ہوتا تھا اس لیے یزید کی موت کے بعد عوام اور خواص نے آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ نو سال کے مختصر عرصے میں چونکہ آپ کا اکثر وقت جنگ و جدل اور بغاوتوں کے فرو کرنے میں گذرا اس لیے آپ نظام حکومت کی طرف کماحقہ توجہ نہ دے سکے۔ لیکن پھر بھی رفاہ عامہ کے کاموں سے بے اعتنائی نہ کی۔ کعبہ کی تعمیر کا کام بھی آپ ہی نے شروع کیا تھا۔ آپ کا زہد و تقویٰ مثالی تھا۔ عوام و خواص میں آپ اپنے بلند اخلاق اور زہد تقویٰ کی بنا پر مقبول تھے۔ علم و ادب سے بھی خدا نے بہرہ ور رکھا تھا۔ چنانچہ آپ ایک اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی تھے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت جذبہ جہاد، بہادری اور شجاعت تھی۔ وہ ایک نڈر سپاہی تھے۔ آپ کی شہادت کے ساتھ مملکت اسلامیہ سے ایک ایسی شخصیت اٹھ گئی جو سنت نبوی کی علم بردار اور خلفائے راشدین کے دور کی عملی تصویر تھی۔ اس کے بعد حجاز دنیائے اسلام کا سیاسی مرکز نہ رہا۔ شمع رسالت کے اس آخری پروانے کی شہادت کے ساتھ خلافت علی منہاج النبوۃ کا آفتاب غروب ہو گیا۔

حوالہ جات

  1. مصنف: اینڈریو بیل — عنوان : Encyclopædia Britannica — ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک.
  2. ^ ا ب عنوان : Абдуллах ибн Зубайр
  3. http://www.britannica.com/EBchecked/topic/724/Abd-Allah-ibn-az-Zubayr
  4. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 22 مئی 2020

سانچے