سورہ کہف
قرآن مجید کی 18 ویں سورت جو مکہ میں نازل ہوئی۔ اس میں اصحاب کہف، حضرت خضر علیہ السلام اور ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 18 |
عددِ پارہ | 15 اور 16 |
تعداد آیات | 110 |
الفاظ | 1,583 |
حروف | 6,425 |
گذشتہ | الاسرا |
آئندہ | مریم |
نام
اس سورت کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت "اذ اوی الفتیۃ الی الکھف" سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے: الکہف آیت 28، الکہف 83 تا 101
یہاں سے اُن سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تفصیل سورۂ انعام کے مضمون میں گذر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً 5 نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب 10 نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے ادوار سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک، استہزاء، اعتراضات، الزامات، تخویف، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا مگر اس تیسرے دور میں انھوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان کو شِعبِ ابی طالب میں محصور کرکے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ---ابو طالب اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا---- ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ 10 نبوی میں دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کردی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔
سورۂ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کرلی تھی مگر ابھی ہجرتِ حبشہ واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحابِ کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انھیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کرچکے ہیں۔
موضوع اور مضمون
یہ سورت مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ اصحاب کہف کون تھے؟ قصۂ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے؟ یہ تینوں قصے مسیحیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا، اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کوئی غیبی ذریعۂ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اُس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی:
- اصحابِ کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اُسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویے سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہیے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔
- اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیشِ زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔
- اسی سلسلۂ کلام میں قصۂ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمھاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمھیں خود معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجۂ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔
- اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سرِ تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور باغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔
اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرف الٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمھاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انھیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمھاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمھارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔