ابو طالب بن عبد المطلب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا
(ابو طالب سے رجوع مکرر)

ابو طالب بن عبد المطلب

ابو طالب بن عبد المطلب
(عربی میں: أبو طالب بن عبد المطلب ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 539ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 619ء (79–80 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت اسد   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد علی بن ابی طالب [3]،  جعفر ابن ابی طالب ،  عقیل ابن ابی طالب ،  طالب ابن ابی طالب ،  جمانہ بنت ابی طالب ،  ام ہانی بنت ابی طالب ،  ام طالب بنت ابی طالب   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبد المطلب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ بنت عمرو   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ تاجر ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں لامیہ ابی طالب   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد مَناف بْن عَبْدُ الْمُطلب بن ہاشم، ابو طالب کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کا ایک اسمِ گرامی عمران بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، حضرت علی کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لیے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سر پرستی قبول کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ اور جب تک زندہ رہے مشرکین اور کفار کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت رسولؐ خدا پہ کسی قسم کی سختی کر سکیں۔ آپ کے القاب میں سیدالعرب ، شیخ بطحا اور مومنِ قریش زیادہ مشہور ۔

خاندان

آپ کے والد کا نام عبدالمطلب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبد المطلب ،حضرت زبیر اور عبدالکعبہ کے سگے بھائی تھے چونکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔[4]

قبولیتِ اسلام

ایمانِ ابو طالب پہ مسالکِ اسلام میں اختلاف ہے ۔ تمام اہلسنت ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے قائل ہیں ، جبکہ تمام اہل تشیع ابو طالب کے ایمان لانے کے قائل ہیں۔تمام اہل سنت کے عقیدہ پر مشتمل قرآن و احادیث سے دلائل ۔

ابو طالب کے ایمان نہ لانے پر دلائل

آپ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اس پر اتفاق ہے۔ اور آپ نے تاحیات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ان کی بت پرستی کی روایات میں اختلاف ہے لیکن کعبہ میں موجود بُتوں کے وہ ساری زندگی نگران رہے اور مشرکین کے حج میں مشرکین کے طعام اور کعبہ کی دیکھ بھال کا انتظام آپ ہی کے پاس تھا۔

دلیل۔1۔ سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ [5] وَنَزَلَتْ : ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ [6]

”جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو دیکھا تو فرمایا : اے چچا ! لا اله الا الله کہہ دیں کہ اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابو طالب ! کیا آپ عبد المطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی بات ابو طالب کو پیش کرتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے، حتیٰ کہ ابو طالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ وہ عبد المطلب کے دین پر ہیں۔ انھوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما دیں : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ [7] ”نبی اور مؤمنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ انھیں ان کے جہنمی ہونے کا واضح علم ہو جائے۔“

دلیل نمبر 2:

بخاری ہی نے اپنی کتاب میں برائت کے نزول کے بارے میں لکھا ہے: "عن الْبَرَاء رضى الله عنه قَالَ آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَة"۔

ترجمہ: براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ برائت ہے"۔

بہر صورت تاریخ گواہ ہے کہ ابو طالب نے بعثت کے دسویں سال مکہ میں وفات پائی ہے اور اس سال کو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ابو طالب اور سیدہ خدیجۃ الکبری(رضی اللّٰہ عنہ) کی وفات کی بنا پر عام الحزن (یا صدمے کا سال) کا نام دیا ہے جبکہ سورہ توبہ اور آیت 113 سمیت اس کی تمام آیتیں دس سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور سورہ برائت مشرکین کو پڑھ کر سنانے کے لیے علی کا مکہ روانہ کرنے کا واقعہ تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے۔


اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں قرآن نازل کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :

﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (القصص : ٥٦) ”بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے۔“ [8]

دلیل نمبر 3:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ [9]

  ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» کہہ دیں ۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ انھوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (28-القصص : ٥٦) ”یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرما دیتا ہے ۔“ [10]

دلیل نمبر 4 :

سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :

مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: نعم، ھو فی ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار

”اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا – وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے[11]دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! ( میں نے انھیں فائُدہ پہنچایا ہے ) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے۔“ [12]

حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ”یہ صورت حال تو اس شخص کی ہوتی ہے جو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابو طالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ [13]

 دلیل نمبر 5 :

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : ‏‏‏‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، ‏‏‏‏ فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه.

انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا۔“ [14]


دلیل نمبر 6: سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ

”جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا۔“ [15]

دلیل نمبر 7 :

خلیفہ راشد سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ

”جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا کر انھیں دفنا دیں۔“ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور انھیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔“ [16] ایک روایت کے الفاظ ہیں :

إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔ [17] [18]

یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔

دلیل نمبر 8:

سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو:

‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ [19]

”عقیل اور طالب دونوں ابو طالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے۔“ [20]

یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابو طالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ”نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔“ [21] ان سب دلائل سے 1.5 ارب اہل سنت مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔


ابو طالب بن عبد المطلب کے اشعار

ابو طالب شاعر تھے اور ان کے بے شمار اشعار تاریخ میں ملتے ہیں۔ ان کا ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس کا ابن کثیر نے تذکرہ و تعریف کی ہے۔ یہ سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے اور تمام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح و ثنا میں ہے۔ ایک شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے : میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سچا جانثار ہوں۔ اور انھیں اللہ کا سچا رسول مانتا ہوں۔ خدا نے انھیں دنیا کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔ کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ان کا معبود ایسا ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ان سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ ایسا ممتاز ہے کہ ہر بلندی اس کے آگے پست ہے۔ اور اس کی حفاظت کے لیے ہم نے اپنے سینوں کو سپر بنا لیا ہے۔ خدا اس کو اپنی حمایت و حفاظت میں رکھے اور اس کے نہ مٹنے والے دین کو دنیا پر غالب کر دے۔

تاریخ ابوالفداء میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ ابوالفداء کے دیے ہوئے اشعار میں سے ایک کا ترجمہ یہ ہے: بخدا کفارِ قریش اپنی جماعت سمیت تم (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں زمین میں دفن نہ ہوجاؤں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم کو جو خدا کا حکم ہے اس کا بے خوف اعلان کرو۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم نے مجھ کو اللہ کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے تمھاری صداقت و امامت کا محکم یقین ہے اور تمھارا دین تمام مذاہبِ عالم سے بہتر اور ان کے مقابلے میں کامل تر ہے۔[22] سیرت ابن ہشام میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ سیرت ابن ہشام میں کچھ شعر ایسے ہیں جس میں حضرت ابو طالب نے ابولہب کو متنبہ کیا ہے کہ اسے عرب کے میلوں اور محفلوں میں برا کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اشعار سیرت ابن ہشام نے نقل کیے ہیں۔[4]

وفات

آپ کی وفات کے بعد کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مظالم کی انتہا کر دی۔ آپ کی وفات 619ء میں 85 سال کی عمر میں ہوئی۔ اسی سال خدیجہ بنت خویلد کی وفات بھی ہوئی۔ ان دو واقعات کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی "دکھ کا سال" قرار دیا۔

اولاد

ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں سب سے بڑے بیٹے کا نام طالب ابن ابی طالب تھا۔ باقی بیٹوں میں جعفر الطیار، عقیل ابن ابی طالب اور علی ابن ابی طالب شامل تھے اور تین بیٹیاں ام طالب بنت ابی طالب، ام ہانی بنت ابی طالب اور جمانہ بنت ابی طالب۔

طالب بن ابی طالب

ان کے بڑے بیٹے طالب کے بارے میں زیادہ روایات نہیں ملتیں۔ کچھ روایات کے مطابق ان کی وفات شرک کی حالت میں جنگِ بدر میں ہوئی۔ ”عباس بن عبد المطلب‘ نوفل بن حارث‘ طالب بن ابی طالب‘ عقیل بن ابی طالب اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ (بدر) روانہ ہو گئے“۔[23][24]
تاریخ خمیس میں علامہ دیار بکری نے لکھا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے زبردستی طالب کو جنگ کے لیے گھسیٹا جبکہ وہ جانا نہیں چاہتے تھے۔۔[25] علامہ مسعودی نے لکھا ہے کہ کفارِ قریش نے طالب کو زبردستی جنگ کے میدان کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ دوران میں سفر غائب ہو گئے پھر ان کی کوئی خبر نہ ملی مگر ان کے اس موقع پر اشعار علامہ مسعودی نے نقل کیے ہیں جن کا ترجمہ ہے : اے پروردگار یہ لوگ زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ تو ان کو شکست دے اور اس درجہ کمزور کر دے کہ یہ خود لوٹ لیے جائیں اور کسی کو لوٹ نہ سکیں۔[26]

عقیل ابن ابی طالب

آپ کربلا کے واقعے سے پہلے کوفہ میں شہید ہونے والے حضرت مسلم ابن عقیل کے والد تھے۔ عقیل بن ابی طالب (عربی زبان: عقيل بن أبي طالب) 590 میں پیدا ہوئے۔ عقیل ابن ابی طالب علی کے بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ عقیل ابو طالب کے چار بیٹوں میں سے دوسرے بیٹے ہیں۔ عقیل کی کنیہ ابو عقیل ہے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ سنہ پیدائش 590ء ملتا ہے۔ غزوہ موتہ میں شرکت فرمائی جس کے بعد نابینا ہو گئے۔ 96 سال کی عمر پائی۔ آپ کے کئی بیٹے تھے جن میں سے حضرت مسلم ابن عقیل سفیرِ حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور کربلا کے واقعہ سے کچھ عرصہ قبل انھیں یزید کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے قتل کر دیا۔ آپ نے 96 سال کی عمر میں وفات پائی۔

جعفر ابن ابی طالب (جعفر طیار)

آپ صحابیٔ رسول تھے اور ایک حدیث کے مطابق انھیں جنت میں پر ملیں گے کیونکہ ان کے ہاتھ ایک جنگ میں کاٹے گئے تھے اسی لیے آپ جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں۔

علی ابن ابی طالب

علی ابن ابی طالب اولین مسلمانوں میں شامل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد، دینی بھائی اور خلیفہ تھے۔ اہل سنت و اہل حدیث کے مطابق چوتھے خلیفہ اور اہل تشیع کے مطابق پہلے امام تھے۔ تمام غزوات میں حضرت علی نے سب سے زیادہ کفار و مشرکین کو تہ تیغ کیا۔

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/123907519 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0000398.xml — بنام: Abū Ṭālib
  3. عنوان : Али ибн Абу Талиб
  4. ^ ا ب سیرت ابن ہشام[مکمل حوالہ درکار]
  5. (التوبة : 113)
  6. (القصص : 56)
  7. (التوبة : 113)
  8. ( صحیح البخاری : 3884 )
  9. (28-القصص : ٥٦)
  10. ( صحیح مسلم : 55/1، ح:25)
  11. اس جملے کو اس کے ذرایع سے دوبارہ دیکھیں۔ اس میں گرائمر کی غلطی ہے۔ اصل جملے میں [ لیے] کا لفظ نہیں تھا۔
  12. (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209)
  13. (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)
  14. (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210)
  15. (صحیح المسلم : ح : 515)
  16. (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )
  17. ( مسند الامام احمد : 97/1، سنن ابي داؤد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، واللفظ لهٗ، وسندهٗ حسن )
  18. اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمہ اللہ علیہم (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
  19. (صحیح بخاری 1588)
  20. (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً)
  21. (صحیح البخاری:551/2،ح:6764، صحیح المسلم:33/2،ح:1614)
  22. تاریخ ابوالفداء جلد اول
  23. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی، الانفال، 5
  24. تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی، الانفال، 7
  25. تاریخ خمیس از علامہ دیار بکری
  26. مروج الذہب از علامہ مسعودی بر حاشیہ کامل ابن اثیر جلد 5 صفحہ 176