پروفیسر سید مجتبیٰ حسین (پیدائش:یکم جولائ، 1922ء - وفات: یکم اپریل، 1989ء ) پاکستان کے ممتاز اردو تنقید نگار، استاد۔ دانشور اور شاعر تھے۔

سید مجتبیٰ حسین
پیدائش1 جولائی 1922(1922-07-01)ء
سنجر پور،جون پور، برطانوی ہندوستان
وفات1 اپریل 1989(1989-04-01)ء

لاہور، پاکستان
قلمی نامسید مجتبیٰ
پیشہسرکاری ملازمت ، تدریس
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے ، اردو ادب
مادر علمیالہ آباد یونیورسٹی
اصنافتنقید نگاری ، شاعری , تدریس
نمایاں کامانتظارِ سحر

تہذیب و تحریر (تنقید) ۔

نیم رخ ( تنقید)دو ایڈیشن

آغا شاعر قزلباش ۔ حیات و شاعری ( تالیف )

ابتدائی حالاتِ زندگی ترمیم

سید مجتبی حسین یکم جولائی 1922ء میں موضع سنجر پور، ضلع جونپور، برطانوی ہند میں ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1]دادا کا نام عبد اللہ تھا۔ صدر قانون گو اور بے مثل خطاط تھے۔ والد کا نام سید باقر حسین تھا اور وہ ڈپٹی کلکٹر تھے۔ اور الہ آباد یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ تھے۔ شعر و سخن کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ سید مجتبی حسین کی والدہ قمر النسا بیگم شعر و سخن کا نہایت عمدہ ذوق رکھتی تھیں۔ مجتبی حسین کا ایک بڑا بھائی مصطفی حسین اور ایک بہن سیدہ شمیم آرا تھے۔ مجتبی حسین نے ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی۔ والدین کی طرف سے ادبی ذوق ورثے میں ملا لہذا نو برس کی عمر میں گلستانِ سعدی بھی پڑھ لی تھی۔ ابتدائی دو جماعتوں کے بعد کی تعلیم انھوں نے جونپور اور جھانسی سے حاصل کی۔ جونپور کے مشن ہائ اسکول سے کلاس سوم سے ہشتم تک پڑھا اور اسکول کی بقیہ تعلیم اپنے بڑے بھائی مصطفی حسین کے پاس " جھانسی" میں آ کر حاصل کی اور 1935ء میں میٹرک کیا۔

سید مجتبی حسین کے والد کو انگریزی، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا لہذا مجتبی حسین کو بچپن سے ہی انگریزی ادب کا شائق بنایا اور اردو ادب کی بھی تمام مشہور اور اہم کتب اسکول کے زمانے میں ہی پڑھوا دیں۔ ان بیش قیمت کتب کا مطالعہ مجتبی حسین کی شخصیت کو صحیح معنوں میں ادب آشنا بنانے میں بہت معاون ثابت ہوا۔ کالج ٹیوٹوریل میں فراق گورکھپوری جیسے استاد ملے۔ ان کے فارسی کے استاد ڈاکٹر زبیر اور فلسفے کے استاد ڈاکٹر مکر جی تھے ۔ 1943ء میں گریجویشن پاس کی اور الہ آباد یونیورسٹی سے 1945 میں اول درجے میں ایم اے (اردو) کیا ۔

کیرئیر کا آغاز ترمیم

ایم اے کرنے کے بعد پروفیسر مجتبی حسین نے فراق گورکھپوری کے ساتھ " سنگم پبلشنگ ہاؤس " الہ آباد میں قائم کیا۔ اس مکتبہ کو قائم کرنے اور چلانے کے لیے تمام روپیہ مجتبی حسین نے ہی لگایا۔ اور نہ صرف فراق صاحب بلکہ دیگر بہت سے نامور ادیبوں کی کتب اسی اسی مکتبے سے شائع ہوئیں۔1945 میں ہی سنگم پبلشنگ ہاؤس کو اپنے دوست رئیس احمد رزاقی کے حوالے کیا اور بمبئ آ گئے جہاں دو سال تک قیام کیا۔ یہاں کچھ عرصہ انجمن اسلام ہائ اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی اور فلم اسکرپٹ پر طبع آزمائ کرتے رہے۔ 1947 میں گاؤں واپس لوٹ آئے۔ اور آبائ جاگیر کا نظم و نسق سنبھالا ۔" سنگم پبلشنگ ہاؤس " کچھ عرصہ اچھا کام کرنے کے بعد خسارے میں جانے لگا لہذا 1948 کے آخر میں مجتبی حسین مستقل طور پر پاکستان آ گئے۔ اور نارتھ ناظم آباد کراچی میں رہائش پزیر ہوئے ۔[2] کراچی کے کالجز میں نوکری نہ ملنے کے باعث پہلے کچھ مدت اسکولوں میں پڑھایا پھر چینی سفارت خانے کے مترجم اور پھر خبرنامے کے مدیر ہوئے۔ یہاں تقریباََ دس برس تک کام کرتے رہے۔ اس کے بعد محکمہِ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ 1965 سے 1972 کے دوران پہلے نیشنل کالج کراچی میں صدر شعبہِ اردو کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے چار برس بعد سراج الدولہ کالج کی بنیاد رکھی اور اس میں بطور صدر شعبہ اردو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اور بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو گئے۔ 1973 سے جامعہ بلوچستان میں شعبہِ اردو ان کی کوششوں اور کاوشوں سے وجود میں آیا ۔[3] 1975 میں استاد شعبہ اردو کی حیثیت سے بلوچستان یونیورسٹی میں تقرر ہوا اور بعد میں صدر شعبہ اردو، بلوچستان یونیورسٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔[4]اور تادمِ مرگ اس یونیورسٹی سے وابستگی رہی ۔

تخلیقی سفر ترمیم

مجتبی حسین نے ادبی تخلیقات کی ابتدا افسانہ نگاری سے کی۔ پہلا افسانہ " سوچ " 1943 میں رسالہ " نگار " لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس کے بعد " نگار ' " ادبی دنیا " اور " ساقی میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ جب تنقید نگاری کی طرف آئے تو پہلا تنقیدی مضمون " جریدہ اردو شاعری " 1944 میں رسالہ نگار لکھنؤ میں چھپا۔ اس کے بعد تنقیدی مضامین کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ڈراما نگاری سے بھی دلچسپی رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ اور ان گنت فیچر اور ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر کر کے مقبولیت پائ ۔

شعر و سخن ترمیم

پروفیسر مجتبی حسین کو شاعری کا بھی شغف رہا۔ انکا کلام مختلف رسالوں میں شائع ہوا۔ البتہ ان کا مجموعہِ کلام زیرِ ترتیب ہے ۔

نمونہِ کلام ترمیم

پہلا شعر

عرصے سے ان کے شعر و سخن کا اسیر ہوں میں بچپنے سے عاشقِ نظمِ دبیر ہوں

٭٭٭

یہ جو ہے میری گفتگو اس پہ نہ جا کہ ذہن میں ایسی ہیں بے خیالیاں جن کا شمار ہی نہیں

٭٭٭

ان کے بغیر وقت کا جیسے شعور ہی نہیں رات بسر ہوئ تو کیا ، عمر بسر ہوئ تو کیا

٭٭٭

نظم

بہت اداس ہے یہ شام زندگی کی طرح غموں کے سائے بڑھ آئے ہیں تیرگی کی طرح
ہوائیں کھوئ ہوئ چل رہی ہیں کھیتوں میں مجھے بھی لے کے چلیں موجِ بے خودی کی طرح

٭٭٭

تخلیقات ترمیم

مطبوعہ ترمیم

  1. انتظارِ سحر (ایک ڈراما اور افسانوں کا مجموعہ )1951
  2. انکار، اہرمن، بن بلایا مہمان۔ ۔۔ ( ڈرامے )
  3. تہذیب و تحریر (تنقید ) 1959
  4. ادب و آگہی ( تنقید ) 1963
  5. نیم رخ ( تنقید) پہلا ایڈیشن 1978
  6. دوسرا ایڈیشن 1986
  7. آغا شاعر قزلباش۔ حیات و شاعری ( تالیف )

زیرِ ترتیب ترمیم

  1. اردو مرثیہ عہد بہ عہد
  2. تنقیدی مضامین
  3. شعری مجموعہ

چند ایک ڈرامے پی، ٹی، وی سے بھی ٹیلی کاسٹ کیے جا چکے ہیں۔ اہرمن، بن بلایا مہمان، انکار وغیرہ نیز پروفیسر مجتبی حسین ماہنامہ شعور کراچی کے شریک مدیر بھی رہے

تنقیدی کلیات ترمیم

پاکستان اسٹڈی سنٹر، کراچی یونیورسٹی، پروفیسر مجتبی حسین کے حوالے سے بہت جلد ایک ہزار صفحات سے زائد ایک جامع کتاب شائع کروا رہی ہے۔ اس کتاب کا عنوان پروفیسر مجتبی حسین تنقیدی کلیات ہے۔ اور اس کتاب کی تحقیق و ترتیب و تدوین ڈاکٹر ہلال نقوی نے انجام دی ہے ۔

اعزازات ترمیم

یو ۔ این ۔ او ایوارڈ برائے بچوں کا ادب۔

پروفیسر مجتبیٰ حسین کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات ترمیم

اردو ادب میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ میں سے چند نام ایسے بھی ہیں جنھوں نے پروفیسر مجتبی حسین کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات پیش کیے ہیں۔ ان میں کوئٹہ کے بیرم غوری کا نام بھی شامل ہے ۔

وفات ترمیم

یکم اپریل 1989ء کو وہ لاہور میں ایک کنوینشن میں شرکت کے بعد کراچی واپس آ ئے توراستے میں ایک ٹریفک حادثہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کی تدفین کراچی میں ہوئی۔ پسماندگان میں بیوہ نرگس خاتون اور چار بیٹے انیس باقر، اقبال باقر، عباس باقر اور غالب باقر چھوڑے ۔

تنقید و آرا ترمیم

کراچی یونیورسٹی کے استاد اور نامور شاعرڈاکٹر ہلال نقوی نے پروفیسر مجتبی حسین کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے ان کو خراج پیش کرتے ہوئے کہا ہے ۔

میں نے سراج الدولہ کالج کراچی میں 1975 میں سالِ اول سے لے کر اپنے پی ایچ ڈی کی تکمیل تک ان ان سے بحیثیت استاد ان سے رہنمائ پائ۔وہ نقاد بھی تھے،افسانہ نگار اور شاعر بھی ، تاہم تنقید میں انہوں نے بہت سے سنگِ میل قائم کیئے ۔اور انیس و دبیر ، فیض، جوش، قراہ العین کا ناول الغرض سلام نگاری اور قصیدہ گوئی کے ہنر پر بھی مفصل بات کرتے ہیں۔ گویا جملہ اصنافِ شعر و نثرپر عمدہ لکھنے کا ہنر پروفیسر مجتبی حسین کا وصف ہے ۔وہ ایک سماجی اور خاص نظریئے کے مالک تھے ۔ انکا ذہن ترقی پسند تھا لیکن وہ ازحد معتدل بھی تھے۔ وہ صرف میرے استاد ہی نہیں تھے بلکہ ایک شفیق دوست کی طرح سے تھے ۔

ریڈیو پاکستان، کوئٹہ کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر جناب عابد رضوی نے پروفیسر مجتبی حسین کی حیات میں ان کی ڈراما نگاری سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا ۔

مجتبی حسین صاحب گزشتہ چالیس برسوں سے ریڈیو پاکستان سے پروگرام نشر کر رہے ہیں ۔بلا شبہ انکی ذاتِ گرامی اس ادارے کے لیے سرمایہِ افتخار ہے۔پروفیسر مجتبی حسین صاحب کی شخصیت کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انکی تحریروں میں حیران کن حد تک ہم آہنگی پائ جاتی ہے ۔وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں اورجو کہتے ہیں وہی لکھتے ہیں ۔ وہ قلم کی طہارت اور فکر کی صداقت کے ہر پیمانے پر اترتے ہیں۔ [5]

حوالہ جات ترمیم

  1. Bio-bibliography.com - Authors
  2. https://rekhta.org/ebooks/khayal-mujtaba-husain-number-shumara-number-022-magazines
  3. KARACHI: Mujtaba Hussain remembered - Newspaper - DAWN.COM
  4. "Department of Urdu"۔ 24 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2017 
  5. https://rekhta.org/ebooks/khayal-mujtaba-husain-number-shumara-number-022-magazines مجتبی حسین ۔ شخصیت اور ادبی خدمات از فوزیہ وحید ، صفحہ 32 ، سہ ماہی مجلہ خیال ( پروفیسر مجتبی حسین نمبر )