سید وجیہ السیما عرفانی
بابا سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی آستانہ سندر شریف کے بانی جنہیں بابا عرفانی اوربابا حضور بھی کہا جاتا ہے۔
سید محمد وجیہ السیما عرفانی | ||
---|---|---|
[[Image:|150px|]] | ||
ادیب | ||
پیدائشی نام | سید محمد وجیہ السیما | |
عرفیت | بابا عرفانی | |
قلمی نام | سید محمد وجیہ السیما عرفانی | |
تخلص | عرفانی | |
ولادت | 4 اکتوبر 1920ء گوجر خان | |
شہریت | پاکستانی | |
ابتدا | راولپنڈی، پاکستان | |
وفات | 22 فروری1991ء سندر شریف (پنجاب) | |
اصناف ادب | شاعری | |
ذیلی اصناف | غزل، نعت | |
اعزازات | تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل | |
تصنیف اول | میرے حضورﷺ | |
معروف تصانیف | میرے حضورﷺ | |
ویب سائٹ | / آفیشل ویب گاہ |
ولادت
ترمیمسید محمد وجیہ السیما عرفانی کی ولادت 4اکتوبر 1920ء کو تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں ”لودھن“ کے ایک سیّدگھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی سید محمد ہادی تھا۔ بابا عرفانی مادرزادولی تھے۔ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے دادا حاجی فضل الدین کو خواب میں خواجہ معین الدین چشتی نے بابا حضور کی ولادت کی خوشخبری دی اور ساتھ نام بھی تجویز فرمایا۔
تعليم
ترمیمآپ نے نوعمری ہی میں نو ماہ کی قلیل مدت میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور اس کے بعد درس نظامی کا کورس مکمل کیا۔ اس کے بعداسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کی شروع میں باقاعدہ بیعت نہیں لیا کرتے تھے۔ 13 مارچ1977ء کو سیّد تلطف حسین معینی (جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی اولاد سے تھے) شملہ پہاڑی پر تشریف لائے اور بابا حضور کو اپنی موجودگی میں باقاعدہ بیعت کا سلسلہ شروع کروایا۔ آپ صرف چشتیہ سلسلہ میں ہی بیعت لیتے ہیں۔ آپ کو قرآن حکیم کے علاوہ تمام مجموعات احادیث زبانی یاد تھیں اور اس کے علاوہ بابا حضور کو سعدی، مولانا جامی، حافظ شیرازی اور علامہ اقبال کے تمام مجموعات یہاں تک کہ دور جاہلیت کے شعراءمثلاً امراءالقیس کا کلام بھی زبانی یاد تھا۔ سرکار بابا حضور ؒ کو عربی، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ یعنی جس طرح روانی سے وہ یہ زبانیں بولتے تھے اُسی روانی سے لکھا بھی کرتے تھے۔
ذريعۂ روزگار
ترمیمبابا حضور نے دینی علوم کو روزگار کا ذریعہ نہیں بننے دیا بلکہ ایک مترجم، صحافی اور براڈ کاسٹر کے طور پر کام کر کے اپنا روزگار کمایا۔ ریڈیوپاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن اور اخبارات اس کے گواہ ہیں۔ سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1943ء میں روزنامہ پر بھارت میں بطور ایڈیٹوریل سٹاف کے کیا۔ روزنامہ پر بھات میں آپ نے تقریباً ایک سال ملازمت کی۔ آپ نے روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ زمیندار، روزنامہ آفاق، روزنامہ پاکستان ٹائمز او رروزنامہ انصاف کراچی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے لیے لکھا۔
تصنيفات
ترمیمآپ کی حیات مبارکہ میں آپ کی کتابوں کے تین مجموعے شائع ہو چکے تھے جو بالترتیب درج ذیل ہیں:
- میرے حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نعتیں(1985ء)
- خوا جہ ہی خوا جہ(مجموعۂ مناقب) (1985ء)
- حرفِ جمال(مجموعۂ غزلیات) (1986ء)[1]
آپ نے قرآن مجید کا اُردو ترجمہ بھی کیا جو شالیمار ریکارڈنگ کمپنی سے تحریر معاہدے کے بعد 1978ء خود اپنی آواز میں ہی ریکارڈ کروایا۔ اس میں تلاوت قرأت کے ساتھ قاری غلام رسول صاحب کی ہے ۔ یہ ترجمۂ قرآن اب ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ چنانچہ آپ کی ترجمہ شدہ کتب کچھ یوں ہیں:
- عرفان القرآن (قرآن مجید آسان فہم ترجمہ)
- دعائے امام الشہداء (امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ کا ترجمہ)
- قرآن حکیم اور جدید سائنس (پروفیسر موریس بوکائی کی شہرہ آفاق کتاب ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ سے قرآنی حصے کا ترجمہ) (زیرِطبع)
ان کے علاوہ آپ کی مزید کتب جو زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر قارئین کی داد وصول کر رہی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- حی علی الصلوٰۃ (نماز کے مسائل شش کلمات، نماز، نماز جنازہ)
- سراپائے جمال (سیرت طیبہ)
- گنجینۂ صالحین (اولیاء اللہ پر ریڈیو تذکار کا مجموعہ)
- صلی اللہ میرے حضورﷺ (سیرتِ طیبہ)
- غنچۂ شوق (ملفوظاتِ بابا عرفانی)
- تماشائے کرم (ملفوظاتِ بابا عرفانی)
- گوہرِ صدف (ملفوظاتِ بابا عرفانی)
شخصیت پر کتب
ترمیمبہت سے صاحبانِ علم و فضل نے حضرت سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی کی شخصیت پر بھی کتب تحریر کی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
- ایسا کہاں سے لاؤں؟ از پروفیسر غلام سرور قریشی
- حُسنِ خیال (مناقب بحضور باباعرفانی)
- Harvest of Good Deeds (Prof. Ghulam Sarwar Qureshi)
- یاد کے چراغ (شخصیت اور فن پر معاصرین کے مضامین کا مجموعہ)
وصال
ترمیمسیّد محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی کا وصال 22فروری 1991ء بمطابق 6شعبان المعظم 1411ھ بروز جمعۃ المبارک ہوا۔ آپ لاہور کے قریب ایک قصبہ سندر شریف 32کلومیٹر ملتان روڈ لاہور میں مدفون ہیں۔[2]
حواله جات
ترمیم- ↑ http://sundarsharif.com
- ↑ پاکستان کے نعت گو شعرا جلد دوم ،سید محمد قاسم،کراچی ،حرا فاؤنڈیش، 2007ء، ص 381