علامہ شارق جمال (1927ء – 2003ء، پیدائشی نام: جمال الدین) وسطی بھارت کے معروف عروض دان اور شاعر تھے۔ علم عروض میں متعدد بحریں ایجاد کیں اور ان پر طبع آزمائی کی۔ شارق جمال کا تعلق بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے تھا۔ وہ اپنی عروض دانی کی بنا پر بھارت کے مسلم ادبی حلقوں میں شعر و سخن، آداب سخن، حسن سخن کے حوالہ سے مسلم الثبوت استاذ تسلیم کیے جاتے تھے۔

علامہ
شارق جمال
مقامی نامجمال الدین
پیدائش1927
ناگپور
وفات2003
ناگپور
آخری آرام گاہناگپور
قلمی نامشارقؔ جمال
پیشہشاعری، اصلاح سخن
زباناردو، ہندی
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
دوربیسویں صدی
اولادقمر الدین، شمس الدین حامد، بدر الدین، معراج الدین، قطب الدین، نجم النساء اور سراج النساء
رشتہ دارپوتا: محمد شعیب

جنوبی ہند میں اگر کسی استاد فن شاعری کے شاگرد زیادہ ہیں تو وہ شارق جمال کے ہیں۔ سینکڑوں شاگرد علامہ شارق جمال صاحب سے شرف تلمذ رکھتے ہیں۔

علامہ شارق جمال شہر مدنپلی کے ایک مشاعرے میں شمع روشن کرتے ہوئے۔ اس تصویر میں آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کے چیرمن قادری صاحب، مقامی یم یل اے شوبھا، عقیل نعمانی اور احمد نثار۔

بچپن اور تعلیم

ترمیم

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

ادبی سفر

ترمیم

اسی کی دہائی میں ناگپور سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ ایجوکیشن ٹائمز میں آپ ادارت کے فرائض بخوبی انجام دے چکے ہیں۔

خدمات

ترمیم

تکیہ معصوم شاہ، مومن پورہ، ناگپور، مہاراشٹرا ایک طویل مدت تک منتظم، جامع مسجد، ناگپور کے منتظم رہے۔

تصانیف

ترمیم
 
علامہ شارق جمال۔
  • تفہیم العروض
  • عکس بر عکس
  • نقش بر نقش
  • عروض میں نئے اوزان کا وجود
  • سمپورن غزل شاستر (ہندی)
  • مختلف صنف سخن
  • اور نثر میں

شعری مجموعے

ترمیم

کلام میں سادگی کا نمونہ

ترمیم
صبح سویرے آنگن آنگن ہنستا ہے
انگلی پکڑ کر باپ کی بچپن ہنستا ہے
وہ سنجیدہ ہے اس کی اس کم علمی پر
ماں کی گود میں شوخ لڑکپن ہنستا ہے
پلکوں کے جگنو ہیں گو افسردہ سے
مہندی والے ہاتھ میں کنگن ہنستا ہے
عید ہو یا دیوالی کا شبھ اَوسر ہو
شہر میں ہوٹل گائوں میں ساون ہنستا ہے
جنگ میں اتنا دھیان رکھے ہے افسر بھی
وار نہ ہو بھر پور تو دشمن ہنستا ہے

معاصرین کی نظر میں

ترمیم

پروفیسر نادم بلخی نقش بر نقش کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:

جناب شارقؔ جمال ناگپوری کا تعلق آج ہی کے یعنی جدید عہد سے ہے۔ آپ کا شمار آج کے جانے پہچانے اچھے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں اگر ایک طرف کہنہ مشقی اور کلاسیکیت ہے تو دوسری طرف دل موہ لینے والی جدیدیت۔ وہ لکیر کے فقیر نہیں جادۂ اعتدال سے بھٹکتی ہوئی جدیدیت سے وہ بیزار بھی نظر آتے ہیں ورنہ یوں نہ کہتے:

میں بھی تھا اندھی روایت کا مخالف شہر میں
شارقؔ، اس جرأت پہ میرے ساتھ بھی سازش ہوئی

بھارت کے معروف شاعر بشیر بدر لکھتے ہیں:

شارق جمال ناگپوری کی غزلوں میں ایسے اشعار ہیں جن میں احساس کی وہ سچائی ہے جو سننے والے کو فوراً متاثر کرتی ہے۔ ایسے اشعار بھی جن میں یکسانیت سے بیزاری کا اظہار ہے اور خوشگوار تبدیلیوں کی سچی آوازیں ہیں۔[1]

اعزازات

ترمیم
  • علامہ محسن شعر و ادب ایوارڈ
  • امین سخن ایوارڈ
  • مسیح الشعوراء ایوارڈ
  • سند فضیلت اعزاز
  • علامہ ایوارڈ

حوالہ جات

ترمیم
  1. نقش بر نقش، صفحہ: 10

بیرونی روابط

ترمیم