شاہ محمد عیسیٰ
خواجہ سید محمد عیسی گنڈا پوری سلسلہ نقشبندیہ کے بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت با سعادت موضع چودھیواں علاقہ گنڈا پور تحصیل کلاچی ضِلع ڈیرہ اسماعیل خاں (خیبر پختونخوا)
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے ظاہری تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کی اور پھر تصوّف کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ حضرت خضر کے صحبت یافتہ تھے اور اُنہی کے اشارے پر ہی رامپور جا کر حافظ شاہ محمد جمال اللہ کے دستِ حق پر سعادتِ بیعت حاصل کی اور عرصۂ دراز تک اُن کی خدمت بابرکت میں حاضر رہے۔ سفر و حضر میں ساتھ رہکر فیوض و برکات کے خزانے لُوٹے۔ پیر و مرشد کے محبوب اور راز دار خلیفہ تھے۔ اتنے منظورِ نظر اور با اعتبار تھے کہ آپ کے شیخ بعض مریدوں کو آپ کے حوالے کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ سیّد محمد جمال اللہ نے اپنے مریدوں سے ارشاد فرمایا کہ آج ہم سب لوگ اَورادو وظائف سے فارغ ہوکر شاہی قلعہ اور شاہی باغ کی سیر کو جائیں گے۔ چنانچہ خواجہ محمد عیسیٰ و دیگر خلفاء و مریدان کے ہمراہ شاہی قلعہ کے نزدیک پہنچے تو اُس وقت وہاں خواجہ فیض اللہ تیراہی بطور سپہ سالار متعین تھے اور دیوارِ قلعہ پر پہرہ کی نگرانی فرما رہے تھے۔ جب اُن کی نظر شاہ جمال اللہ پر پڑی تو بے خود ہوکر حاضر خدمت ہوئے، قدموں میں گے، تڑپے اور بے ہوش ہو گئے۔ دو تین گھنٹے بعد ہوش میں آئے تو بیعت کے لیے عرض کیا۔ آپ نے کشف سے معلوم کر لیا کہ اِن کا فیض باطنی خواجہ محمد عیسیٰ کے پاس ہے۔ چنانچہ آپ کو اُن کے حوالہ کر کے فرمایا کہ اس کی بیعت اگرچہ میری طرف سے ہے مگر اس کی تکمیل تمھارے ذمّہ ہے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔
کرامات
ترمیم- ایک دفعہ خواجہ فیض اللہ تیراہی آپ کی قدمبوسی کے لیے حاضر خدمت ہو رہے تھے کہ راستے میں سخت علیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ زندگی کی اُمید نہ رہی۔ ایک مسجد میں قیام پزیر ہو کر ہر وقت رو رو کر آپ کو یاد کرتے تھے۔ اُن کی آہ وزاری آپ تک پہنچتی تو خواجہ فیض اللہ کو دیکھنے کے لیے اپنے دردِولت سے روانہ ہوئے۔ جب اس مسجد میں پہنچے جہاں خواجہ محمد فیض اللہ مقیم تھے تو نماز مغرب سے فارغ ہو کر حجرہ میں داخل ہوئے۔ خواجہ محمد فیض اللہ آپ کو دیکھ کر وجد میں آگئے اور قدمبوسی کر کے قدموں سے لپٹ کر تڑپنے لگے۔ آپ نے انھیں اُٹھا کر سینے سے لگایا اور نور علی نور کر دیا۔ کیونکہ خواجہ محمد فیض اللہ رحمۃ اللہ علیہ بہت کمزور ہو چکے تھے اور کافی دنوں سے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا۔ لہٰذ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی چیز کو دل سے چاہے تو تیار کریں۔ خواجہ محمد فیض اللہ نے عرض کیا کہ حضور! ’’جو نعمت مجھے اس وقت نصیب ہو چکی ہے یہی کافی ہے۔ یعنی آپ کا دیدار فیض بار‘‘۔ گر خواری یک لقمہ ازنانِ نُور خاک ریزی برسرِ نانِ تنور اگر تو نور کی روئی کا ایک لقمہ ہی کھالے تو تو تنور کی روئی پر خاک ڈالے گا پھر آپ نے ایک پیالے میں سے تھوڑا سا ہریسہ (ایک قسم کا کھانا جو گندم کے آئے، گوشت کی یخنی اور دودھ سے پکایا جاتا ہے) نکالا اور ارشاد کیا کہ یہ تھوڑا سا کھالو انشااللہ تعالیٰ صحت عاجلہ کاملہ نصیب ہوگی۔ آپ نے حسب الحکم دو تین لقمے تناول فرمائے تو تمام حجابات اُٹھ گئے۔ بعد ازاں آپ کو سخت بھوک لگی اور آپ نے بقیہ تمام ہریسہ کھالیا اور سو گئے۔ دوسرے دن صبح بیدار ہوئے تو آپ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔ نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
- ایک مرتبہ خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ میرے ایک بچپن کے دوست اور ہم سبق مسمّی ’’حضرت جی‘‘ سے ملاقات کے لیے دل بہت بیقرار ہے جو پشاور شہر کے قرب و جوار میں رہتے ہیں اور ایک عرصہ سے اُن کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ دعا فرمائیں کہ ملاقات ہوجائے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ جنگل میں چل۔ وہاں پہنچ کر آپ مراقب ہوکر بیٹھ گئے اور حضرت خواجہ کو بھی مراقبہ کرنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ دور سے دو آدمی چلے آ رہے ہیں۔ انھوں نے نزدیک آکر بڑے ادب سے ملاقات کی اور وہیں بیٹھ گئے۔ خواجہ محمدفیض اللہ نے بغور دیکھا تو اُن میں سے ایک اُن کے دوست ’’حضرت جی‘‘ تھے جن کی ملاقات کے لیے وہ مشتاق اور منتظر تھے۔ چنانچہ مل کر بہت خوش ہوئے۔ دریں اثنا حضرت خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرہ نے ارشاد کیا کہ اے دیوانے! کیا تو دوسرے شخص کو پہچانتا ہے؟ خواجہ فیض اللہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے ارشاد کیا کہ یہ حضرتِ خضر ہیں۔ ان سے ملاقات کرو اور جس چیز کی ضرورت ہو ان سے طلب کرو۔ خواجہ محمد فیض اللہ نے عرض کیا کہ حضور! ’’مجھے جو کچھ ملنا ہے، آپ ہی سے ملنا ہے، اگر خضر علیہ السلام بھی ملے ہیں تو آپ ہی کی کرم نوازی سے ملے ہیں لہذا آپ کے درِ اقدس کو چھوڑ کر کسی اور کے دروازے سے کیوں مانگوں‘‘۔ زمانہ چھوٹ جائے لیکن تیرا در نہ چھوٹے گا کہ ساقی تیرے میخواروں کو غدّاری نہیں آتی آپ کو یہ بات بہت پسند آئی اور خواجہ محمد فیض اللہ کو گلے لگالیا اور سینہ روشن کر دیا۔
وفات
ترمیمآپ کی وفات 7؍ ذی الحجہ 1220ھ/26؍ فروری 1806ء کو ہوئی مرقدِ انور موضع ’’چودھواں‘‘ علاقہ گنڈہ پور تحصیل کلاچی ضِلع ڈیرہ اسمٰعیل خاں(خیبر پختونخوا) میں زیارتِ گاہ خاص و عام ہے۔ آپ نے اپنے پیچھے تین صاحبزادے یادگار چھوڑے (1) خواجہ پیر محمد (2) خواجہ جان محمد (3) خواجہ علی محمد۔ جب وقتِ وصال قریب آیا تو صاحبزادے خواجہ جان محمد اور خواجہ علی محمد بقیدِ حیات تھے۔ آپ نے دونوں کو وصیّت فرمائی کہ تم میرے بعد خواجہ محمد فیض اللہ سے تجدیدِ بیعت کرنا اور اُس وقت تک اُن کی خدمتِ بابرکت میں رہنا جب تک کہ تصوّف کی تمام منازل طے نہ ہوجائیں۔ چنانچہ حسبِ وصیّت دونوں صاحبزادے حضرت خواجہ محمد فیض اللہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور تجدیدِ بیعت کرکے چھ ماہ تک وہاں قیام فرما رہے اور اکتسابِ فیضِ باطنی کرتے رہے۔ جب مراحلِ تصوّف طے ہو گئے تو دونوں صاحبزادوں کو خرقۂ خلافت دیکھ کر بصد ادب و احترام اور اعزاز و اکرام سے واپس وطن بھیجا گیا۔ بعد ازیں تاحیات تیزئی شریف (تیراہ) میں حاضر ہوتے رہے۔ دونوں ہی صاحبِ باطن، صاحبِ کشف و کرامات اور صاحبِ حال تھے، بے شمار لوگوں نے اُن کے فیض سے استفادہ کیا۔ خواجہ محمد عیسیٰ کی رحلت کے بعد صاحبزادہ جان محمد سجادہ نشین ہُوئے۔ [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تاریخِ مشائخ نقشبندصفحہ 449 محمد صادق قصوری زاویہ پبلشر لاہور