شعیب رضا
تاریخ دان + معروف فوٹو گرافر
پروفیسر شعیب رضا کے نانا ابو چودھری بشیر احمد تقسیم پاک و ہند کے وقت بٹالہ (گرداس پور ) سے لاہور ہجرت کر کے آئے، لاہور میں قتل و غارت و خون دیکھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی غرض سے کچھ عرصے کے لیے جھنگ شفٹ ہو گئے، چودھری بشیر احمد لڑکیوں کی تعلیم کے قائل تھے اور انھوں اپنی تینوں بیٹیوں کو ایم اے تک تعلیم دلوائی، تینوں ہیڈ مسٹرس اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئیں۔، بشیر احمد محکمہ تعلیم میں سپرنٹنڈنٹ کی ملازمت کرتے تھے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے اپنے ہی نام سے لڑکیوں کا ایک پرائیویٹ اسکول کھولا جو 1970 کی دہائی میں گورنمنٹ بشیر گرلز ہائی اسکول کے نام سے قومیایہ گیا اور آج بھی موجود ہے۔ جہاں سے پورا خاندان دوبارہ 1970 میں لاہور شفٹ ہو گیا۔پروفیسر شعیب رضا کے دادا قیام پاکستان سے کچھ سال قبل جالندھر سے اوکاڑہ شفٹ ہو گئے تھے اور بعد میں وہاڑی چلے گئے ان کے والد چودھری عبد المجید نے ابتدائی تعلیم وہاڑی اور ملتان سے حاصل کی پنجاب یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے 1960 کی دہائی کے کافی سال لاہور گزارے، گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو پاس کیا، جتنا عرصہ لاہور گزارا، یہاں کے تاریخی مقامات کی فوٹو گرافی بھی کی، ملتان ڈویژن کے چیف سکاؤٹ ماسٹر بھی تھے سکاؤٹس کے ٹورز کے ساتھ پاکستان بھر کی سیر کی اور مختلف شہروں کی فوٹوگرافی بھی کی۔، زندگی نے زیادہ وفا نہ کی اور وہ 1975ء میں 36 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ پروفیسر شعیب رضا کی والدہ نے بھی فیصل آباد اور لاہور سے ایف اے، بی اے اور بی ایڈ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایم اے تاریخ شروع کیا تھی لیکن ایم اے ڈگری نامکمل چھوڑ کر اپنے والد محترم کے بنائے ہوئے اسکول کو چلانے کے لیے واپس جھنگ آنا پڑا، ا نہوں نے ضلع جھنگ میں کافی عرصہ بطور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اپنی خدمات سر انجام دیں۔پروفیسر شعیب رضا کے پاس اپنے والدین کی فوٹوگرافی کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔ اور اسی ریکارڈ سے متائثر ہوکرانہوں نے سیاحت اور فوٹوگرافی میں دلچسپی لی۔ پروفیسر شعیب رضا کی پیدائش ضلع جھنگ کی ہے، پورا ننہال لاہور میں تھا، گرمیوں اور سردیوں کی تمام چھٹیاں لاہور ہی گذرتی تھیں، میٹرک کے بعد اپنے والدین کی فوٹو گرافی کا ذخرہ دیکھ کر فوٹو گرافی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور 1990ء میں ایک چھوٹے کیمرے سے اپنے شوق کا آغاز کیا۔ایف ایس سی کے بعد فیصل آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا، یونیورسٹی تعلیم کے دوران بھی ہر ویک اینڈ لاہور گذرتا تھا، کیمرا لے کے بلا مقصد مختلف عمارات کی فوٹو گرافی کرنا ویر شعیب کا ایک مشغلہ تھا، اس دوران لاہور کے علاوہ پاکستان کے دیگر کچھ شہر اور بالخصوص پنجاب کے کافی شہر وں میں تاریخی عمارات اور ورثہ کی فوٹو گرافی کی، سال 2000 میں اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور لیکچرار ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں کیا، 2007ء میں شادی ہوئی اور ایک بار پھرجنون کے ساتھ لاہور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے تمام اضلاع میں فوٹو گرافی کا سلسلہ شروع کر دیا جو تاحال جاری ہے۔پروفیسر شعیب کے تین بچے ہیں جنھوں کے آرٹ میں دلچسپی ہے، ویر شعیب کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی بچہ ان کے شوق کو لے کر آگے چلے۔ 2013 میں لاہور کے نوجوان محقق و چیئرمین لاہور شناسی فاؤنڈیشن سید فیضان عباس نقوی سے رابطہ ہوا اور بات فوٹو گرافی سے تحقیق پر چلی گئی اورپھر با مقصد فوٹو گرافی کا سلسہ شروع ہوا۔فیضان عباس نقوی اور لاہور سے متعلق تاریخ کے استاد محترم راؤ جاوید اقبال (مرحوم) سے ملاقات کے بعد باقائدہ تحقیق اور تحریر میں دلچسپی پیدا ہوئی، مقامی رسالوں اور میگزین میں آرٹیکلز لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔ انھوں نے ایک انگریز کے لکھے ہوئے مضامین کو اردو میں ترجمہ کر کے "پرانا لاہور " کے نام سے کتابی شکل دی ہے جو مارکیٹ میں آچکی ہے۔تاریخ اور سیاحت کے موضوع پر مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔ موجودہ لکھاریوں میں سے فیضان عباس نقوی (المعروف لاہور کا کھوجی) سے متائثر ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیضان کی تمام لکھائی تحقیق پر مبنی ہے انھوں نے صرف لائبریری میں بیٹھ کر یا چار کتابیں کھول کر اپنی کتب یا اپنے آرٹیکلز تیار نہیں کیے، بلکہ خود لاہور کا کونہ کونہ چھان کر حقائق اور شواہد کو تلاش کر کے اپنی تحریر بنائی، سابقہ لکھاریوں میں سے میں راؤ جاوید اقبال مرحوم سے متائثرہیں، جن سے پہلی ملاقات کے بعد ان میں تحقیق کرنے اور لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ویر شعیب نے 1990 سے پاکستان کے مختلف شہروں میں شوقیہ فوٹوگرافی کا سلسلہ شروع کیا ان کا ریکارڈ ہے ان کے پاس پنجاب کے تمام اضلاع اور دیگر صوبوں کے کچھ شہروں کے تاریخی مقامات اور ورثہ کی فوٹو گرافی کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1990 سے اب تک ان کے پاس سات لاکھ سے زیادہ تصاویر ہیں۔تاریخی مقامات پر درجن کے قریب آرٹیکلز ہیں، ان کی گھر یلو لائبریری میں تاریخ، سیاحت و ادب کے موضوع پر کتابوں کی تعداد تقریباً2500 ہے۔ان کی رہائش گاہ پر نوادرات اور پرانے کیمروں پر مشتمل ذاتی میوزیم بھی موجود ہے۔کافی تصویری نمائشیں ہو چکی ہیں، مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ اس وقت وہ لاہور شناسی فاؤنڈیشن کے سرپرست، وسیب ایکسپلورر کے چیئرمین، کراس روٹ بائیکرز کلب (انٹرنیشنل) اور پاکستان ہیریٹیج کلب کے سینئر ایگزیکٹو ہیں۔ پروفیسر شعیب رضا کی عملی زندگی یعنی بطور استاد و محقق پروفیشنل لائف کا سفر 21 سال پر محیط ہے، اس وقت وہ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں اپنے شعبہ ہارٹیکلچر کے سربراہ ہیں، اپنی یونیورسٹی کے انتظامی امور میں کافی دلچسپی شروع سے رہی ہے، وہ سینیئر ٹیوٹر، ہاسٹل وارڈن،آفس کوآرڈینیٹر، ڈپٹی رجسٹرار، کے علاوہ کچھ عرصہ رجسٹرار کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ہیں، فی الوقت وہ ڈائریکٹر میڈیا کوآردڈنینیشن، پبلک انفارمیشن آفیسر اور وائس چانسلر آفس کی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔