شمر بن ذی الجوشن

قاتلِ حسین ابن علی رضی ﷲ عنہُ

شَمِر بن ذی الجَوْشَن، تابعین اور قبیلۂ ہوازن کے رؤساء میں سے تھا، ابتدا میں اصحاب علی میں شامل تھا لیکن بعد میں امام علی اور آپ کے خاندان کے کینہ پرور دشمنوں کے زمرے میں شامل ہوا۔ اس کا باپ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اور اس کی ماں بدنام عورتوں میں سے تھی۔

شمر بن ذی الجوشن
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 686ء (-15–-14 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل کیان ابو عمرہ   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ صفین ،  سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

واقعہ کربلا میں اس کا کردار نمایاں تھا، اسی نے مسلم بن عقیل کی شہادت کے اسباب مہیا کیے، عاشورہ کے دن جنگ کی آگ بھڑکا دی، عمر بن سعد کے میسرے کا امیر تھا، امام حسین کو اسی نے شہید کیا، خیام پر حملہ کیا اور امام سجاد کو شہید کرنے کی کوشش کی۔

زیارت عاشورہ میں شمر کا تذکرہ لعنت و بد دعا کے ساتھ ہوا ہے۔ اس کو مختار ثقفی کے مقابلے میں شکست ہوئی اور اس کا سر تن سے جدا ہوا۔

شمر کا نسب

ترمیم

شَمِر، کی کنیت "ابو سابغہ" تھی۔ تابعین میں سے تھا اور قبیلہ ہوازن کی شاخ بنو عامر بن صعصعہ کے رؤساء میں شمار ہوتا تھا اور ضباب بن کلاب کی نسل سے تھا۔[1] اسی بنا پر اس کا تذکرہ عامری، ضِبابی[2] اور کلابی[3] جیسے انساب کے ساتھ ہوا ہے۔ لغت کی کتابوں میں اس کا نام "شَمِر" آیا ہے لیکن عام لوگوں کے ہاں "شِمْر" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بظاہر شمر ایک عبرانی لفظ ہے جس کی جڑ "شامِر" بمعنی "سامِر" (= افسانہ سرا، شب نشینی میں مصاحب) ہے۔[4][5] شمر کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

شمر کا باپ (ذو الجوشن) (=زرہ والا) کا نام "شُرَحبیل بن اَعْوَر بن عمرو" تھا۔[6] اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ پہلا عرب تھا جس نے زرہ پہنی اور یہ زرہ ایران کے بادشاہ نے اس کو دی تھی۔ بعض دوسروں کا خیال ہے کہ اس کا سینہ چونکہ آگے کی طرف ابھرا ہوا تھا اسی وجہ سے اس کو ذوالجوشن کہا جاتا تھا۔[7] ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام "جوشن بن ربیعہ" تھا۔[8] ذوالجوشن نے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کی دعوت کو وقعت نہ دی لیکن فتح مکہ میں جب مسلمان مشرکین پر فتح مند ہوئے تو اس نے (بہت سے دوسروں کی مانند) اسلام قبول کیا۔[9][10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابن عبدربه، العقد الفرید، ج3، ص318ـ320۔
  2. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص186۔
  3. انساب الاشراف، بلاذری، ج2، ص482۔
  4. ابومخنف، ص124۔
  5. نیز حاشیہ نمبر 3۔
  6. ابن سعد، ج6، ص46۔
  7. فیروزآبادی، ذیل "جوشن"۔
  8. ابن سعد، طبقات، ج6 ص24۔
  9. ابن سعد، طبقات، ج6، ص47ـ48۔
  10. تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص187ـ188۔