شمس الدین بلبل
رئیس شمش الدین بلبل (پیدائش: 21 فروری، 1857ء - وفات: 13 دسمبر، 1919ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے نامور شاعر اور صحافی تھے۔
شمس الدین بلبل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 21 فروری 1857ء میہڑ ، ضلع دادو ، سندھ |
تاریخ وفات | 13 ستمبر 1919ء (62 سال) |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی ، فارسی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمشمس الدین بلبل 21 فروری، 1857ء کو میہڑ، ضلع دادو، برطانوی ہند (مودجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔[1] ابتدائی تعلیم میہڑ ہی میں حاصل کی۔ وہ ایک ذہین اور قابل شخص تھے، جن کی قابلیت کے جوہر کی تشہیر کے لیے میہڑ کافی نہ تھا، لہٰذا وہ 1889ء میں خان بہادر حسن علی آفندی کے پاس کراچی چلے آئی، جنھوں نے ان کی اہلیت سے استفادہ کرنے کے لیے ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جا ری کیا۔ اس اخبار کی وساطت سے بلبل نے سندھ مدرسۃ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کی بڑی عمدہ اور مؤثر خدمات کی، یوں حسن علی آفندی کے دست و بازو بن گئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں جب حسن علی آفندی کو کمیشن کے روبرو گواہی دینے کی ضرورت پڑی تو اس وقت زمینداری قرضوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کام بلبل کے ذمے تھا، جنھوں نے پورے سندھ کے زمینداروں سے حالات جمع کیے اور حسن علی آفندی کو گواہی کے لیے مواد فراہم کیا، کمیشن کا اجلاس پونہ میں تھا، گواہی دیتے وقت آفندی شمس الدین بلبل کو بھی پونہ لے گئے، جہاں انھوں نے ان کی خاطر خواہ مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمینداری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوا۔ 1895ء میں حسن علی آفندی کی وفات کے بعد بلبل کراچی چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے میہڑ میں آکر رہنے لگے اور وہیں سے گھر بیٹھ کر اخباروں کو ایڈٹ کرنے لگے۔ معاون کے بعد وہ کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوئے، مگر یہ اخبار ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔[2] لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے بھی کچھ وقت تک ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ الحق سکھر کی ادارت کے فرائض بھی سنبھالے، اخبار مسافر حیدرآباد میں بھی کام کیا۔ آخر میں سیٹھ حاجی احمد میمن کے مشہور اخبار روزنامہ آفتاب سکھر کے مستقل ایڈیٹر بن گئے، جس کے ذریعے انھوں نے مسلمانانِ سندھ کی انتہائی قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔[3]
ان کی تحریر ظرافت آمیز اور پُر مذاق ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ہر شخص ان کے مضامین کو بڑے شوق اور لطف کے ساتھ پڑھتا تھا۔ انھوں نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور نئے رنگ میں سندھی ادب میں اضافہ کیا۔ نظم کے مقابلے میں ان تصانیف نثر میں زیادہ ہیں۔[3]
شمس الدین بلبل کی حاکم وقت اور با اثر شخصیات تک بڑی رسائی تھی۔ ریاست خیرپور کے تالپر میروں اور وزیروں سے ان کے گہرے روابط تھے۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا اور ان کا بہترین ذاتی کتب خانہ بھی تھا۔ نقشبندی طریقت پر مخدوم نظام الدین صدیقی پاٹائی کے مرید تھے اور بدعتی پیروں کے سخت مخالف تھے اور ان کے خلاف گاہے بہ گاہے روزنامہ آفتاب میں مضمون بھی چھاپتے رہتے تھے۔ 1906ء میں انھوں نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی۔ جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا اور اب یہ مدرسہ ہائی اسکول میہڑ کے نام سے موجود ہے۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو بلبل نے اس کی تائید میں تقریر کی جو فصاحت و بلاغت کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ جس پر ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین بشمول نواب وقار الملک کی طرف سے داد دی گئی۔[4]
تصانیف
ترمیم- رحیما
- نیچرل کریما
- تیرھن جار
- بہارِ عشق* دیوان بلبل (سندھی)
- عقل اور تہذیب
- مسلمان اور تعلیم
- قرض جو مرض
- صد پند سود مند
- شمس المکاتیب
- احسن التواریخ
- دیوان بلبل (فارسی)
- بہارستان بلبل
- آئینہ ظرافت
- گنجِ معرفت
وفات
ترمیمشمس الدین بلبل نے اپنی جائداد و وقف علی الاولاد ایکٹ کے تحت محفوظ کروانے کے بعد 13 ستمبر، 1919ء میں 62 سال کی عمر میں وفات کر گئے۔[1][3]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جدید سندھی ادب کا بانی شمس الدین بلبل، سندھی دنیا ڈاٹ کام، 30 نومبر 2016ء[مردہ ربط]
- ↑ مولانا دین محمد وفائی، تذکرہ مشاہیر سندھ (جلد اول)، اردو ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر عزیز انصاری، عبد اللہ وریاہ، سندھی ادبی بورڈ، جامشورو، 1991ء، ص 184
- ^ ا ب پ تذکرہ مشاہیر سندھ، ص 185
- ↑ تذکرہ مشاہیر سندھ، ص 186