شگر
شگر : (Shigar) :
شگرپاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے آبادی اور رقبہ دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔
شگر کی آبادی لمسہ نامی گاؤں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے جو پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص سے برالدو نالے کی جانب جانے والی سڑک برالدو نالے کے آخری گاؤں تستے پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ شگر خاص سے تستے کے بیچ میں یونین کونسل چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی (K.2) موجود ہے۔ کے۔ ٹو کے علاوہ گشہ بروم1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاورجیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
شگر کی باہنی جانب باشے کا ایریا موجود ہے جس کی ابتدا یونین کونسل گلاب پور کے پہلے گاؤں نیالی سے ہوتا ہے، اس کے بعد یونین کونسل تسر اور یونین کونسل باشہ کا ایریا آتا ہے۔ یونین کونسل تسر میں چھوترون کا قدرتی گرم چشمہ اور یونین کونسل باشہ میں بیسل کا قدرتی گرم چشمہ بہت مشہور ہیں۔ باشہ ایریا کا اختتام ارندو کے بڑوق سے ہوتا ہے ، وہاں سے حراموش گلگت کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ ارندو میں سپانگ ٹیک کے نام سے ایک چوٹی ہے، جس کو سر کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے کوہ پیما آتے ہیں۔
خوبانی اور خصوصا باشہ کی دیسی گھی کا بہت چرچا ہے۔ شگر میں مختلف قسم کے معدنیات کی فراوانی ہے۔ یہاں سے نکالے گئے سنگ مرمر سے دنیا بھرپور استفادہ کرتی ہے؛ جبکہ یہاں کے باسیوں کے گھر آج بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
پورے بلتستان کی طرح شگر میں بھی پہلے راجا کا دور ہوتا تھا مگر اب کونسلر نظام رائج ہے۔ مذہبی طور پر یہاں کی آبادی کی اکثریت شیعہ اثنا عشری ہے جبکہ نوربخشیہ کی دوسری بڑی آبادی ہے، جو اپنے اپنے مذہبی پیشواؤں کے تابع ہوتے ہیں۔ سن 2015 میں شگر کو ضلع کا درجہ دیا گیا شگر کی آبادی تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار (1,40،000) کے لگ بھگ ہے۔شگر میں ایک انٹر کالج اور سات ہائی اسکول ہیں۔
تفریحی مقامات
اس وادی کے خوبصورت اور دلکش قدرتی مناظر ،بلندپھاڑی چوٹیاں ،لہلہا تے کھیت ،ٹھنڈی چشمے اور آبشاریں ،ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے اپنے اندر ایک منفرد کشش رکھتی ہے ۔ اس وادی کی سرحدیں مشرق میں خپلو ، مغرب میں نگر گلگت اور جنوب کی وادی سکردو سے ملتی ہیں۔شمالی طرف دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی «کے ٹو»اور کوہ قراقرم کی دیگر پہاڑی چوٹیاں اور گلیشرزہیں۔جن کو سر کرنے کی کوشش میں لاتعداد کوہ پیما اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
وادی شگر کے مہمان نواز، بہادر اور جفا کش لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی،اور مویشی پالنا ہے بہت کم لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔یہ وادی پھلوں اور میووں کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں۔ان میں خوبا نی ،بادام، سیب، ناشپاتی، انگور، آلوبخارا، گلاس، شہتوت، اخروٹ اور دوسری پھلیں شامل ہیں۔وادی کے پہاڑوں میں قدرت کا پیش بہا اور قیمتی خزا نہ پوشیدہ ہیں۔ان پہاڑوں میں چھپی معدنیات کے علاوہ بہت ہی دوسری قیمتی اشیاء ہیں جن میں سے چند مشہور معدنیات کا ذکر پیش خدمت ہے۔ «ابرق» یہاں خاص مقدار میں ابرق پایا جاتا ہے جو شیشہ سازی کے کام آتا ہے۔ «کچا چونا»شگر میں کئی جگہوں پر چونے کا پتھر دستیاب ہے جن کو کار خانوں میں پکا کر عمدہ قسم کا چونا تیار کیا جاتا ہے۔
«نیلم »اس وادی کے پہاڑو ں سے نیلم بھی ملتے ہیں یہ پتھر جواہرات کی دنیا میں بڑی قیمت پاتے ہیں۔
«زہرمہرہ»شگر سے تقریبا «30»میل مشرق کی سمت پہاڑی نالوں کو عبور کرنے کے بعد ایک تیز سبز رنگ کا پہاڑ ہے جسے مقامی زبان میں «پزول»کہتے ہیں۔یہ سبزرنگ کا پتھر عام پتھروں کی نسبت نرم ہے جس سے ہر قسم کے برتن اور دوسری نمایشی چیزیں بنایی جا سکتی ہیں۔اس پتھر سے بنے ہوئے برتنوں کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ان میں زہر ملاکر کھانا ڈالا جاے تو کھانا خود بہ خود ابلنے لگتا ہے۔اور زہر کا اثر زائل ہوجا تا ہے اگر کوئی آدمی زہر کھالے یا اسے سانپ کاٹ جائے تو زہر جسم میں پھیلنے سے پہلے زہرہ مہرہ کا ایک ٹکڑا پیس کر پانی میں حل کر کے مریض کو پلا یا جائے تو مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔
«جڑی بوٹیاں»پہاڑوں اور ندی نالوں کے کنارے بہت سی قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن سے طبی ادویات تیار کی جاتی ہیں۔
موسم بہار میں یہ وادی بہت خوبصورت نظر آتی ہے چاروں طرف ہرے بھرے درخت نظر آتے ہیں لیکن درج ذیل مقامات کو خاص اہمیت حاصل ہے:جربہ ژھو، مسجد امبوڑک، پھونگ کھر، خانقاہ معلی ، حشوپی باغ، گرم چشمہ چھوترون، گرم چشمہ بیسل، زل میں موجود بڑے گلیشئیرز گنگچن شلچقپہ پہاڑ ، گمونوکو سپنگ سیسکو، واتولی کھور تسر ، مونی بڑق تسر اور ژھوقگو آبشار موجود ہیں ۔
داخلے تک رسائی
ترمیموادی، سکردو سے 52 کلومیٹر کے فاصلے پر، انتظامی طور پر ایک ضلع ہے جو 170 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسکردو سے شگر روڈ کے ذریعے جیپ پر 1 گھنٹہ 30 منٹ کی ڈرائیو ہے۔ پی آئی اے کی ایک گھنٹے کی طے شدہ پروازیں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور اسکردو ایئرپورٹ کے درمیان چلتی ہیں، جو سیرین ہوٹل شگر سے 45 منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہ ہوٹل شگر میں ہیلی پیڈ کے ذریعے نجی اور چارٹر دونوں ہیلی کاپٹروں تک رسائی فراہم کرتا ہے، جو 10 منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔
وادی شگر میں دور دراز اور بڑے پیمانے پر ناقابل رسائی دیہات ہیں جہاں اسکول (اردو: اسکولی)، وادی شگر کا آخری قصبہ ہے۔ اب بھی ماسیف سے بہت دور، Askole، K-2 "Godwin Austen" تک کوہ پیمائی مہمات کے لیے لانچ پیڈ، آخری گاؤں ہے۔ اسے دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے جسے آٹھ ہزار (8,000 میٹر سے اوپر) کہا جاتا ہے۔ Askole سے، خطرناک گلیوں، رسی کے پلوں، مورینز اور گلیشیئرز میں 3-4 دن کی ٹریکنگ کرکے بالآخر کنکورڈیا، بیس کیمپ تک پہنچنا ہے۔
آرکیٹیکچرل ہیریٹیج سائٹس
ترمیموادی شگر کا شاندار منظر قدیم تعمیراتی زیورات سے مزین ہے۔ شگر کا تاریخی 17 ویں صدی کا فونگ کھر قلعہ، 16 ویں صدی کا خانقاہ ملا اور 14 ویں صدی کی امبوریق مسجد آپ کو وادی شگر میں موجود ماضی کے تعمیراتی خزانوں سے پردہ اٹھانے دیتی ہے۔
شگر قلعہ، جو ورثے میں سے ایک ہے، اماچا خاندان کے 20ویں راجا، راجا حسن خان نے 17ویں صدی کے اوائل میں دریائے شگر کے کنارے تعمیر کیا تھا۔ سطح سمندر سے 2250 میٹر کی بلندی پر واقع دنیا کے سب سے حیران کن پہاڑی سلسلوں میں کھڑا یہ قلعہ واقعتاً فطرت کے تنوع اور شگر کے علاقے کی افسانوی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ تاریخی قلعہ AKCS-Pakistan کو 20 ویں صدی کے اوائل میں راجا محمد علی شاہ صبا نے عطیہ کیا تھا، جس نے اسے زیادہ دیکھ بھال کے اخراجات کی وجہ سے خالی کر دیا تھا۔ AKCS-P/ AKTC نے قلعہ کو سرینا ہوٹلز کے زیر انتظام ایک ہیریٹیج ہوٹل میں تبدیل کر دیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کا کام رہائشی رہے گا۔ اس کا ایک اور حصہ ایک میوزیم ہے جس میں گذرے ہوئے دور کے آثار ہیں جہاں محل کی اصل جمالیات کو بہترین طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ قلعہ اپنے اردگرد کے ماحول کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ گھل مل جاتا ہے کیونکہ کشمیری معماروں، کاریگروں اور سناروں کے ذریعے استعمال کیے جانے والے تعمیراتی ڈیزائن اور تعمیراتی تکنیک اسے آرکیٹیکچرل ماڈل میں ایک منفرد حیثیت دیتی ہے۔ قلعہ میں 40 کمرے ہیں جن میں کھانا پکانے کی جگہ، نوکروں کے کوارٹر اور ایک خاندانی مسجد شامل ہے۔
مشرق میں فوری طور پر مغل طرز کا ایک باغ ہے، جس میں ایک خوبصورت مرکزی بارداری ہے جس کے چاروں طرف سنگ مرمر کی بنیاد ہے جو تازہ چشمے کے پانی کے تالاب سے گھری ہوئی ہے، جو روایتی مغل بارادریوں سے ڈھل گئی معلوم ہوتی ہے۔
16ویں صدی کی خانقاہ ملا، مسجد اور ٹریول لاج شاہ ناصر طوسی نے بنوایا تھا، جو فارس کے طوس سے آئے تھے اور اس کی بنیاد بھی 1602 میں رکھی تھی۔ بالکونیوں اور چھتوں پر لکڑی کا حیرت انگیز کام ایک ماہر کاریگری سے متاثر ہوتا ہے۔
وادی شگر کو 14ویں صدی کی امبوریق مسجد سے بھی مزین کیا گیا ہے، جسے 2005 میں یونیسکو کی جانب سے محفوظ ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہ بلتستان کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ اس مسجد کو فارسی کاریگروں نے تعمیر کیا تھا جو سید علی ہمدانی کے ساتھ تھے، جو کبرویہ حکم کے ایک سفر کرنے والے فارسی صوفی، ایک شاعر اور ایک مسلم اسکالر تھے جنھوں نے وادی کشمیر میں اسلام کی تبلیغ کی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
پیش نظر صفحہ گلگت بلتستان کی جغرافیہ سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |