شیخ اسماعیل پانی پتی
شیخ محمد اسماعیل پانی پتی (پیدائش: 4 اپریل 1893ء— وفات: 12 اکتوبر 1972ء) مترجم، مضمون نویس، مصنف تھے۔
شیخ اسماعیل پانی پتی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 اپریل 1893ء دہلی |
وفات | 12 اکتوبر 1972ء (79 سال) لاہور |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، مدیر ، مترجم ، کالم نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمخاندان اور ابتدائی حالات
ترمیمشیخ اسماعیل کا خاندان دراصل دہلی میں آباد تھا جہاں اُن کے والد پیشہ تجارت سے منسلک تھے۔ شیخ اسماعیل دہلی کے نواحی گاؤں پالی میں 4 اپریل 1893ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی دہلی میں حاصل کی تھی۔ بالآخر 1908ء میں دہلی سے پانی پت منتقل ہو گئے۔
تعلیم
ترمیمشیخ اسماعیل کی مکتب کی تعلیم کچھ زیادہ نہ تھی لیکن وہ تو صحیح معنوں میں طالب علم تھے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق انھیں بچپن سے تھا۔ یہ شوق انھوں نے ذاتی مطالعے سے مکمل کر لیا تھا۔ اپنی محنت اور سلیقے سے علمی و اَدبی دنیا میں مقام حاصل کیا کہ اُن کا صفِ اَول کے مصنفین میں شمار ہونے لگا۔
ملازمت
ترمیمانھوں نے ملازمت کا آغاز حالی مسلم ہائی اسکول، پانی پت سے کیا جہاں وہ اردو اور فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اُن کا وہاں دِل نہ لگا اور جلد ہی انھوں نے وہاں سے استعفا دے دیا اور ایک مقامی کتب خانہ وکٹوریہ میموریل لائبریری میں کتابدار مقرر ہو گئے اور بعد ازاں لائبریری کے نگران ہو گئے۔ اِس کتب خانہ کی ملازمت انھوں نے دس پندرہ برس کی۔[1]
ادارت جرائد و رسائل
ترمیمبہت جلد ہی علمی قابلیت کی بنا پر وہ صحافی اور مصنف بن گئے۔ کم عمری میں ہی لکھنے لگے۔ اُن کا سب سے پہلا مضمون پندرہ برس کی عمر میں شائع ہوا تھا۔ 1924ء میں انھوں نے اپنا ذاتی ماہنامہ جامِ جہاں نما کے نام سے پانی پت سے جاری کیا۔ بعد ازاں مولوی وحیدالدین سلیم پانی پتی کے مشورے پر اِس جریدے کا نام تبدیل کرکے کائنات رکھ دیا۔ اِس کے علاوہ حالی مسلم ہائی اسکول کے ماہنامہ مشعل کی ادارت بھی اِن کے پاس رہی۔ انھوں نے یہ سب جریدے اِس کامیابی سے جاری رکھے کہ چند سال بعد ہی جب 1932ء میں حکومت پنجاب نے دیہات سدھار کے محکمے کی سرپرستی میں جھنگ سے ایک ہفتہ وار پرچہ ’’عروج‘‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس کی اِدارت کے لیے تقریباً 70 اُمیدواروں میں سے شیخ اسماعیل کے نام کا انتخاب ہوا۔ شیخ اسماعیل نے اِدارت قبول کرلی لیکن شرط یہ رکھی کہ اِس پرچے میں حکومت کی خوشامد نہیں کروں گا۔یہ پرچہ بہت کامیاب رہا۔ چھ مہینے بعد لفٹیننٹ گورنر ایمرسن کے دفتر سے خط ملا کہ گورنر جنرل صاحب تمھارے کام سے بہت خوش اور مطمئن ہیں، تم لاہور آکر سندِ خوشنودی لے جاؤ۔ شیخ صاحب نے لاہور جانے اور انگریز سے سندِ خوشنودی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انگریزوں کے بارے میں یہ جذبہ مخالفت انھیں اپنے دادا حاجی محمد ابراہیم سے وراثت میں ملا تھا، اُن کی پوری زندگی انگریزی مخالفت میں گذری گئی تھی۔ یہی شیخ اسماعیل کا بھی مزاج تھا مگر اِس کا مظاہرہ انھوں نے عملی سیاست کی صورت میں نہیں کیا۔ شیخ اسماعیل نے سب سے پہلے ایک مختصر رسالہ ’’لوریاں اور پہیلیاں‘‘ کے نام سے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی فرمائش پر لکھا تھا اور یہ جلد ہی شائع بھی ہو گیا تھا۔[2]
تقسیم ہند کے بعد
ترمیمتقسیم ہند کے بعد وہ ماہِ ستمبر 1947ء میں تباہ حالی کی صورت میں لاہور پہنچے۔ یہاں انھوں نے بسر اوقات کے لیے اپنے قلم کو آزمایا اور ماہنامہ عالمگیر کے مدیر مقرر ہو گئے۔ دو سو روپئے مشاہرہ مقرر ہوا۔ چند ہی مہینوں کے بعد رسالے کے مالک حافظ محمد عالم سے اختلاف ہو گیا اور یہ مستعفی ہو گئے۔ اِس کے بعد کہیں کوئی ملازمت نہیں کی۔
اواخر عمر اور وفات
ترمیماواخر عمر میں وہ صدمات سے دوچار رہے۔ جنوری 1962ء میں اپنے جواں سالہ بیٹے شیخ محمد احمد کی ناگہانی موت دیکھنا پڑی اور سال بعد ہی زوجہ بھی انتقال کرگئیں۔آخر عمر میں شیخ اسماعیل بہت لاغر ہو گئے تھے، حافظہ کمزور ہو چکا تھا۔ ماہِ اگست 1972ء میں ایک دِن بازار جا رہے تھے کہ ایک سائیکل سوار سے ٹکرا گئے اور بہت زخم آئے۔ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی جب کسی گھریلو علاج سے افاقہ نہ ہوا تو لاہور کے میو اسپتال میں داخل ہو گئے۔ آپریشن کامیاب رہا، کچھ افاقہ کے آثار دکھائی دینے لگے ہی تھے کہ یکایک فشارِ دَم نے خطرناک صورت حال اختیار کرلی اور بروز جمعرات 12 اکتوبر 1972ء کو شام سوا پانچ بجے لاہور میں انتقال کرگئے۔[3]