شیخ عبداللطیف تپش
شیخ عبد اللطیف تپشؔ (پیدائش: 29 اکتوبر 1895ء – وفات: 11 جنوری 1943ء) اُردو اور فارسی کے شاعر اور معَلمَّ (پروفیسر)تھے۔ بیسویں صدی میں اردو زبان میں سخن گوئی کے لیے ملتان کی سرزمین بالکل ہی خالی پڑی تھی جسے تپشؔ نے دوبارہ آباد کیا۔ تپشؔ نامور جسٹس شیخ عبد القادر کے داماد بھی تھے۔
شیخ عبداللطیف تپش | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 اکتوبر 1895ء پسرور |
وفات | 11 جنوری 1943ء (48 سال) لاہور |
مدفن | ملتان |
عملی زندگی | |
پیشہ | مترجم ، معلم ، شاعر ، ادیب |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش وتعلیم
ترمیمشیخ عبد اللطیف کی پیدائش 29 اکتوبر 1895ء کو پسرور میں ہوئی۔البتہ تعلیم کی تمام تر تحصیل لاہور سے ہی ہوئی۔ منشی فاضل اور بی اے کے امتحان پاس کرنے کے بعد تپشؔ نے کچھ عرصہ جامعہ پنجاب (لاہور) میں ہی ملازمت کی ۔ تپش کا تعلق لاہور سے تھا۔ اُن کے والد شیخ امام الدین تھے۔ تپش شیخ عبد القادر کے داماد تھے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بطور مترجم کے عہدہ پر کئی سال کام کرتے رہے۔ 1928ء میں گورنمنٹ کالج پسرور میں فارسی اور اُردو کے استاد مقرر ہوئے۔ گورنمنٹ کالج پسرور میں السنۂ الشرقیہ کے پروفیسر ہوکر پسرور چلے گئے۔1930ء میں ایم اے فارسی کا امتحان دیا تو جامعہ پنجاب میں اوَّل آئے اور سونے کا تمغا (گولڈ میڈل) حاصل کیا۔ پھر 1933ء میں ملتان کے گورنمنٹ ایمرسن کالج سے وابستہ ہو گئے اور السنۂ الشرقیہ ے پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔[1]
وفات
ترمیم11جنوری 1943ء کو مختصر علا لت کے بعد تپشؔ کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر 48سال تھی ۔ ان کے صاحبزادے ابو ظفر حنیف ، صاحبزادی خالدہ ادیب خانم اور ملازم گل زمان ان کے پاس تھے ا ور ان کے سسر اور خوش دامن شیخ عبد القادر اور لیڈی عبد القادر بھی موجود تھے۔وہ دور وز قبل بہاول پور سے آئے ہوئے تھے ۔ ان دنوں سر عبد القادر بہاول پور ہائی کو رٹ میں چیف جسٹس تھے ۔ تپش مرحوم کے چھوٹے بھائی شیخ عبد الرشید ان کی میت لاہور لے کر جانا چاہتے تھے سر عبد القادر نے کہا ۔ ” لطیف وصیت کرچکا ہے کہ اگر موت آجائے تو مجھے ملتان میں ہی دفن کیا جائے ”۔ ان کی وصیت کے مطابق انھیں ملتان کے حسن پروانہ قبرستان میں دفن کیا گیا ۔
شخصیت و شاعری
ترمیمتپش نہایت زِیرک اور ملنسار آدمی تھے۔ ادبی ذوق کے حامل ہونے کے باعث گورنمنٹ کالج ملتان میں ہر دلعزیز رہے۔ شعر و شاعری سے بچپن سے ہی لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ غزل گوئی کی جانب رجحان زیادہ رہا۔ ابتداً پُرگوئی کے شائق تھے لیکن کثرتِ مشق اور پختہ گوئی کے اثر کے بعد گاہے گاہے ہی شعر کہا کرتے تھے۔ ہندوستان کے تمام ادبی رسائل میں آپ کے اشعار شائع ہوا کرتے تھے۔ بعد ازاں معارف (اعظم گڑھ) اور اُس جیسے ادبی رسائل میں ہی اشعار شائع ہوتے رہے اور پھر آخر میں یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔[2]
شاعری میں تپشؔ ذکی دہلوی کے شاگرد تھے۔ جب وہ پسرور میں تھے تو ادبی رونق اپنے عروج پر رہی اور یہی ادبی رونق اُن کے ہمراہ ملتان آگئی۔ ملتان آئے تو ایمرسن کالج میں مشاعرے ہونے لگے جس میں کشفیؔ ملتانی، احسان دانشؔ، تلوک چند محرومؔ، افسرؔ میرٹھی، حیرتؔ وارثی، غنچہؔ امروہوی، اسدؔ ملتانی، سلیمؔ فارانی، میلا رام وفاؔ اور بہت سے دوسرے شعرا شرکت کرتے تھے۔ملتان میں تپش کا قیام وہی زمانہ ہے جب ن م راشد ملتان میں تھے ، لیکن تپش کی اُن سے ملاقات کا کوئی احوال نہیں ملتا۔ علامہ محمد اقبال کی وفات بھی اُن کے زمانۂ قیام ملتان کے دوران ہی ہوئی۔ لا ہور میں تپش کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ۔ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ان کے اچھے مراسم تھے ۔ علامہ اقبال سے ان کی نیا ز مندی تھی۔ تپش کا کلا م ہمایوں ، مخزن ، ادبی دنیا ، نیرنگ خیال ، رومان، ساقی ، زمانہ معارف اور نگار میں اکثر چھپتا تھا۔
کتابیات
ترمیم- ملک محمد باقر نسیمؔ رضوانی: شعرائے پنجاب (عصر حاضر)، مطبوعہ گجرات پرنٹنگ پریس، گجرات (پنجاب)، اشاعت اول، 1937ء