شیر سنگھ
مہاراجا شیر سنگھ (پنجابی زبان: ਸ਼ੇਰ ਸਿੰਘ)(پیدائش: 4 دسمبر 1807ء–15 ستمبر 1843ء) سکھ سلطنت کا چوتھا حکمران تھا۔ 1841ء میں اُس نے چاند کور سے تخت لے لیا اور ستمبر 1843ء تک وہ مہاراجا رہا۔ وہ رنجیت سنگھ اور مہتاب کور کا بیٹا تھا۔مہاراجا شیر سنگھ نے تخت لاہور ڈوگرہ پریوار کے تعاون ے حاصل کیاتھا لہٰذا تخت نشینی کے وقت دھیان سنگھ اور اس کے رفقا کو اعلیٰ عہدوں پر برقرار رکھا گیا تاہم سندھیانوالہ سرداروں نے راہ فرار اختیار کی کیونکہ وہ چاند کور کے حمایتی تھے دھیان سنگھ بھی ان کے سخت خلاف تھا کیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ چاہتے تھے اس لیے دھیان سنگھ نے شیر سنگھ کو نصیحت کی کہ سندھیانوالہ سرداروں سے دور رہے کیونکہ وہ سازشی فطرت کے مالک تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد دربار لاہور کے کئی سرداروں اور شیر سنگھ کے حرم کی سفارش پر سندھیانوالہ سرداروں کو نہ صرف معافت کر دیا بلکہ ان کے عہدے بھی انھیں واپس کر دیے گئے اس وجہ سے ڈوگرہ پریوار شیر سنگھ سے متنفر ہو گیا ۔
شیر سنگھ | |
---|---|
(پنجابی میں: ਸ਼ੇਰ ਸਿੰਘ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 دسمبر 1807ء بٹالا |
وفات | 15 ستمبر 1843ء (36 سال) لاہور |
شہریت | بھارت |
والد | مہاراجہ رنجیت سنگھ |
والدہ | مہتاب کور |
مناصب | |
مہاراجہ | |
برسر عہدہ 18 جنوری 1841 – 15 ستمبر 1843 |
|
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی |
درستی - ترمیم |
مہارانی چاندکور نونہال سنگھ کی موت کے بعد اندرون لاہورایک حویلی میں مقیم تھی مہاراجا نے اس سے وعدہ کیاتھا کہ اسے دوسری شادی پر مجبور نہیں کیاجائے گا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مہاراجا نے یہ وعدہ فراموش کرکے چاند کور کو پیغامات بھیجے کہ شیر سنگھ سے شادی کر لے مگر مہارانی نے سختی سے انکار کر دیا اس پر مہاراجا سخت غصہ میں مبتلاہوگیا۔مہارانی چاند کور کو اس کی نوکرانیو ں نے پتھرمار کر ہلاک کر دیا اور فرار ہوگئیں تاہم بروقت کارروائی کرکے انھیں گرفتار کرلیاگیا ان دنوں مہاراجا لاہور سے باہر تھا گرفتار نوکرانیوں نے سردربار یہ کہا کہ مہارانی کا قتل شیر سنگھ کے حکم پر کیا گیا ہے مگر دھیان سنگھ نے ان کی بات نہ سنی اور نوکرانیوں کے ناک اور کان کاٹ کر دریائے راوی میں پھینکوادیا۔
شیر سنگھ اپنا دربار لاہور سے کچھ دور شاہ بلاول کے مقام پر منعقد کرتاتھا ایک روز سندھیانوالہ سردار شیر سنگھ کے پاس گئے اسے وعدہ لیاکہ ان کی معلومات کو راز رکھاجائے گا انھوں نے مہاراجا کوفرضی واقعہ سنایا کہ دھیان سنگھ یہ چاہتا ہے کہ سندھیانوالہ سردار مہاراجا شیر سنگھ کو قتل کر دیں اور دلیپ سنگھ کو تخت نشین کروایا جائے اس پر مہاراجا نے بغیر تصدیق کیے سندھیانوالہ سرداروں کواجازت دی کہ وہ موقع ملتے ہی دھیان سنگھ کو قتل کر دیں،سازشی فطرت سندھیانوالہ سرداروں نے دھیان سنگھ سے ملاقات کی اور اسے یہی پروانہ دکھاکر دوستی کا اظہار کیا اپنے قتل کا پروانہ دیکھ کر دھیان سنگھ کو طیش آگیا وہ مہاراجا کا محسن تھا مگر مہاراجا ہی اس کا دشمن بن گیااس کی دھیان سنگھ کو توقع نہ تھی اس نے سندھیانولہ سرداروں کوغیر مشروط تعاون کا یقین دلایا۔
1843ء میں مہاراجا شیر سنگھ شاہ بلاول کی بارہ دری میں دربار لگا ئے ہوئے تھا اس دوران اس نے پہلوانوں کی کشتیاں دیکھی اور انھیں انعامات دیے اس کا بیٹا پرتاب سنگھ بھی اس کے ساتھ تھا جو متوقع ولی عہد تھا اس دوران دھیان سنگھ نے ملکی امور کے سلسلہ میں مہاراجا سے لاہور جانے کی اجازت مانگی جو اسے دے دی گئی دھیان سنگھ کے جانے کے بعد سندھیانوالہ سردار اپنے فوجی دستتوں کے ہمراہ شاہ بلاول کی بارہ دری پہنچ گئے انھوں نے مہاراجا سے فوج کے معائنہ کی درخواست کی اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جدید قسم کی بندوق دکھائی جب مہاراجا بندوق دیکھنے میں مصروف تھا تو سردار نے بندوق کا گھوڑا دبا دیا بندوق چل گئی اور مہاراجا یہ کہ کر ڈھیر ہو گیا"تونے دغاکیا" سندھیانوالہ سرداروں نے اس کا سرکاٹ لیا اور اسے نوعمر بیٹے پرتاب سنگھ کو بھی ذبح کر دیا یہ کٹے ہوئے سر لے کر وہ لاہور میں داخل ہوئے انھیں دھیان سنگھ ڈوگرہ دکھائی دیا انھوں نے اسے کٹے ہوئے سردکھائے اورقلعہ چلنے کو کہا جونہی وہ قلعہ لاہور میں داخل ہوئے اس نے اشارہ پر دھیان سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کردیااور ا سکا سر کاٹ کر قلعہ کے ملازمین کو دکھا دیا مہاراجا ،راجکمار اور وزیر اعظم کے کٹے ہوئے سر دیکھ کرلوگ خوفزدہ ہو گئے سندھیانوالہ سرداروں نے نوعمر راجکمار دلیپ سنگھ کے راجا ہونے اعلان کر دیا ۔
ماقبل | مہاراجہ سکھ سلطنت 18 جنوری 1841ء– 15 ستمبر 1843ء |
مابعد |
ویکی ذخائر پر شیر سنگھ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |