ہندو کتابوں کے مطابق شیوجی یگیوں اور راگوں کے مالک، درخشان، تاباں، فیاض، انسانوں، حیوانوں، گھوڑوں اور گایوں کو تندرستی دینے والے پرورش کنندہ، مرضوں کو دور کرنے والے اور گناہوں کو معافی دینے والے ہیں۔ وجر، کمان اور تیر رکھنے والے، خوفناک اور مہلک شکل جنگلی جانور کی طرح ہیں۔ انھیں ایشان، مہشیور اور مہادیو کہاجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کی ابتدا ،انتہا اور انجام نہیں ہے۔ متبرک اما کے خاوند مثل نیل کنٹھ تین آنکھو والے اور سب سے اعلیٰ مالک ہیں۔ یہی برہما جی، یہ ہی اندر، یہی وشنوجی اور غیر فانی ہیں۔

شیو
God of Destruction, Meditation, یوگا, Time and نٹراج; The Destroyer of Evil; Parabrahman, Supreme Being (شیو مت)
Member of تری مورتی
A statue of Lord Shiva meditating in the Padmasana
دیگر نامShankara, Bholenath, Mahesha, Mahadeva, رودر
سنسکرت نقل حرفیŚiva
دیوناگریशिव
منترOm Namah Shivaya
ॐ नमः शिवाय।
دنپیر
سوارینندی (بیل)[1]
جنسMale
تہوارمہا شیوراتری, Shraavana, Kartik Purnima, Bhairava Ashtami[2]
ذاتی معلومات

رامائین میں شیوجی کو عظیم دیوتا کہا گیا۔ شوجی کی وشنوجی سے لڑائی ہوئی تاہم برہما اور وشنو جی نے ان کی پوجا بھی کی تھی۔ مہابھارت میں وشنو جی اور سری کرشن جی کو بڑا کہا گیا ہے۔ لیکن بعض جگہ شوجی کو سب اعلیٰ اور مالک لکھا ہے۔ جس کی وشنو جی اور سری کرشن جی نے پرستش کی ہے۔ شیو جی مہادیو ہیں اور اندر، وشنو جی اور برہما کو انھوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ پورانوں کے مطابق وشنو اور شیو ایک ہستی ہیں۔

حلیہ ترمیم

شوجی کے پانچ منہ اور شکل نہایت خوبصورت ہے۔ اس کے آنکھوں اوپر پیشانی پر تیسری آنکھ ہے۔ جس کے گرد چاند کا حلقہ ہے۔ بالوں کا گچھا سیکھ پر کنڈل کی طرح ہے۔ اپنی جٹاؤں میں گنگا کا پانی جب سورگ سے گرا تو جٹاؤں میں لے لیا کہ اس کا زور توٹ جائے۔ گلے میں منڈ مالا، ناگ کنڈل، نیل کنٹھ یعنی گلے میں ترسول یا پناک، پوشاک ہرن، شیر اور ہاتھی کے چمرہ کی۔ اس لیے اس کا نام کرتی واس پڑا۔ بعض اوقات شیر کے کھال کا لباس اور ہاتھ میں ایک ہرن کی کھال ہے۔ نندی بیل اکثر اس کے ساتھ رہتا ہے اور اجگر، کمان ڈور، کھٹوانگ اور پاش ہاتھ میں لیے ہوئے۔ اس کے محافظ اور دربان بھوت راکش وغیرہ ہوتے ہیں۔ شیو جی کی تیسری آنکھ بڑی خطرناک ہے۔ اس آنکھ سے شیو جی نے کام دیو کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ برہما جی نے شیوجی کے لیے سخت الفاظ کہے تھے تو شوجی نے برہماجی کا پانچواں سر کاٹ ڈالا تھا اور اب برہما جی کے چار منہ ہیں۔ مختلف جگہوں پر شیوجی کی بڑی پوجا ہوتی ہے اور ان کا نام وشویشور بھی ہے۔

شیو جی کے کھالوں کے لباس کے بارے میں کتھا ہے کہ ایک دفعہ شیو جی ایک خوبصورت برہمن کی شکل بنا کر کسی جنگل میں گئے۔ وہاں رشیوں کی عورتیں ان پر شکل دیکھ فریقہ ہوگئیں۔ رشیوں برا لگا اور شیوجی کو سزا دینے کے لیے ایک گڑھا زمین میں کھود کر اس میں ایک جادو کا چیتا بیٹھایا جائے کہ شیوجی قریب آئیں تو حملہ کرے۔ مگر شیوجی نے اس چیتے کو مار ڈالا اور اس کی کھال کو پہن لیا۔ پھر رشیوں نے ایک ہرن تیار کیا۔ مگر شیو جی نے اسے بھی مار ڈالا اس کی کھال ہاتھ رہیتی ہے۔ پھر انھوں نے ایک گرم لوہا جادو سے بنایا۔ اسے بھی شیو جی پکڑلیا اور اس کا تشول استعمال کرنے لگے۔

ہاتھی کی کھال کی کھتا یوں ہے کہ ایک اسر گیہ نے اس قدر طاقت حاصل کرلی کہ اس نے دیوتاؤں کو اپنے قابو میں کر لیا۔ پھر منو کو قابو کرنے کے لیے ہاتھی کی شکل میں حملہ کیا۔ منو بھاگ کر کاشی کے شیوجی کے مندر میں جاگھسے۔ شیوجی نے گیہ کو ماڑ ڈالا اور اس کے چمڑہ کو استعمال کرنے لگے۔

ٍنام اور خصوصیات ترمیم

براہمن میں لکھا ہے کہ جب رودر برہماجی کی پیشانی سے پیدا ہوئے تو رونا شروع کیا۔ اس کے باپ پرجاپت نے رونے کا سبب پوچھا تو میرا کوئی نام نہیں ہے اور پیدا ہونے کی وجہ کیا ہے۔ اس کے باپ نے رونے کی وجہ سے رودر نام رکھ دیا اور بعض جگہ یہ لکھا ہے کہ متواتر آٹھ دفعہ اس نے اپنا نام پوچھا تو اس کے آٹھ نام بہو، سترو پشوپتی، اگردیو، مہادیو، ایشان، اشنی، شیو رکھے گئے۔ یہ نام اس کی خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ رودر اور مہاکال نہایت غارت اور تباہ کرنے والی طاقت۔ شیو اور شنکر دوبارہ پیداہ کرنے والی طاقت۔ یعنی ایک دفعہ تباہ کرکے دوبارہ بحال کرنا۔ اس لیے ان کا نام ایشور یعنی سب کا مالک اور مہادیو یعنی سب سے بڑا ہے۔ اس کا نشان لنگ یونی کے ساتھ یعنی وہ شکتی جو اس کے ساتھ ہے۔ شیو مہایوگی اور ریاضت درود اور جپ تپ، دہیان اور مراقبہ میں اسے کمال حاصل ہے۔ یہ معجزاوں اور کرامتوں کی کھدان ہے۔ یہ برہنہ زاہد اور جٹی یعنی بالوں کا گچھہ سر پر اور تمام بدل پر راکھ ملی ہوئی ہو تو اس حالت کو بھیرو یعنی خوفناک اور تباہ کرنے والا ہے اور اسے بربادی پر خوشی ہوتی ہے۔ اس کا ایک نام بھورتیشور یعنی بھوتوں کا آقا اور بھورتیشور کی آمد اور پوجا قبرستانوں اور مسانوں میں ہوتی ہے۔ یہ گلے میں سانپ اور انسانی کھوپڑیوں کی مالا گلے میں ہے۔ اس کے ساتھ بھوتوں کی فوج رہتی ہے۔ جس کا کام باغی راکشوں کو تباہ و قتل کرنا ہے۔ بعض اوقات اپنی بیوی پاربتی جی کے ہمرا تانڈویہ ناچ بڑی تیزی سے ناچتا ہے اور اس کے ساتھ بھوتوں کی فوج دیوانہ وار اس کے گرد ناچتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں۔

شیو کے نام ترمیم

شیو جی کے کچھ ناموں میں ترلوچن۔ یعنی تین آنکھ والا، نیل کنٹھ۔ نیلے گلے والا، اگہور۔ خوفناک، بھگوت۔ دیوتا، چندر شنکھر۔ چاند کے تاج والا، گنگا دھر۔ گنگا کا مالک، گریش۔ پہاڑ کا مالک، ہر۔ گرفتار کرنے والا، ایشان۔ حاکم، جٹا دہر۔ بالوں کے گچھ والا، جل مورتی۔ پانی کی صورت والا، کال۔ وقت، کالنجر، کپال، مالن، منڈ مالا پہنے والا، مہا کال۔ بڑے وقت والا، مہیش۔ بڑا مالک۔ رت ین جے۔ موت کو تباہ کرنے والا۔ پشو پتی۔ مویشیوں کا آقا، شنکر، شر، سواشو، شمبو، متبرک، مشتھانو۔ مظبوط، تری مبک تین آنکھوں والا، اگر۔ درد پاکش، دشوناتھ۔ سب کا مالک وغیرہ ہیں۔

رودر ترمیم

شویتا شویتر اپنشد کے مطابق ایک عہد کے خاتمے پر دنیا کو تحلیل کیا جاتا ہے تو صرف رودر ہی متاثر نہیں ہوتا ہے۔ بلاخر رودر کی اپنی علاحدہ شناخت ختم ہوئی اور یہ مکمل طور پر شیو میں ضم ہو کر رہے گیا۔ یہ ملاپ دراصل غیر آریائی عقائد کے ویدوں میں سرایت کا نتیجہ تھا یگیہ کے دوران میں اگنی ہوتر دوبارہ کفگیر کو شمال کی طرف ٹہراتا ہے اور یہ عمل دراصل رودر کے اعزاز میں کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یگیہ کے دوران مقام متعینہ کے شمال میں کھڑے ہونا خطرے سے خالی خیال نہیں کیا جاتا ہے۔ رودر کے نام کا کوئی ہون نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ احترام اور تعریف کی بجائے خوف کو زیادہ جنم دیتا تھا۔ غالباً اسی وجہ سے اس کے لیے مخصوص بھینٹ چوراہے اور ایسی دوسری جگہوں پر رکھی جاتی تھیں جن سے بڑ شگون لیا جاتا تھا۔

تموگن پوجا ترمیم

تموگن کی پوجا کرنے والے رودر کی پوجا کرتے ہیں۔ رودر کے معنی رولا دینے والے کے ہیں۔ دور جدید میں ہندووَں کا کہنا ہے کہ مہادیو اور شیو ویدوں کا رودر ہے۔ جب کہ شیو کی نسبت بیان گیا ہے کہ یہ کیلاش کے پہاڑ پر رہتا ہے جو یکشوں میں گھرا ہوا ہے۔ گنیش جس کے منہ پر ہاتھی کا سر ہے وہ رودر کا متبنی ہے۔ شیو یعنی رودر مہاکال (عظیم موت ) جو ہر چیز ناش کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ترسول گلے میں رنڈ مال یعنی انسانی کھوپڑی کی مالا ہے۔ وہ بھوتوں پشاجوں اور مسان کا رہبر ہے۔ وہ بھیرو ہے اور دیوانوں اور احمقوں کا خدا ہے۔ جس کا لباس ہاتھی کے چمڑہ کا ہے۔ جس پر خون کے دھبے ہیں اور جنگلی ناچ ناچتا ہے۔ جس کو تانڈو کہتے ہیں۔ مالتی مادھوا شیو کی شکتی ہے نام بھی ایسے ہی خوفناک ہیں جیسے خوفناک رعدر یعنی شیو کے اوصاف ہیں۔ یعنی درگا، پاربتی، کالی، چنڈی، چامونڈی اور بھیروں وغیرہ۔ ان کی مورتیں نہایت خوفناک اور ڈراونی بنائی جاتی ہیں۔

پنچاتن مورتیاں ترمیم

شیو نام وید کے آخر میں ملتا ہے جو بہت غیر اہم دیوتا تھا۔ ہندووَں کا کہنا ہے کہ ویدوں میں رودر شیو جی کا نام ہے۔ مگر ایسی پنچانتن مورتیاں ملی ہیں جس میں شیور کے ساتھ رودر کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے شیو اور رودر الگ الگ دیوتا اور یہ کہنا کہ ویدک کا عہد دیوتا رودر شیو نہیں تھا۔ مگر موجودہ دور میں اسے شیو مانا جاتا ہے۔ پنچاتن وہ مورتیاں ہیں جس میں وشنو، شیو، رودر، دیوی اور سورج کی مورتیاں ایک جگہ بنائی جاتی تھیں اور ان پوجا بھی پنچانتن کہلاتی تھی۔ کیوں کہ ابتدا میں پرتما کے دیوتاؤں کی الگ الگ پوجا نہیں ہوتی تھی اور ان کی پوجا کے لیے پنچانتن مورتیاں بنائی جاتی تھیں اور بہت عرصہ تک پنچانتن پوجا کا رواج رہا ہے اور انھیں ایک ہی ذات کے مختلف روپ مانا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں تری مورتی اس کی ایک شکل ہے اور فلسفہ وحدت الود کے تحت یہ تینوں روپ ایک خالق کے بتایا جارہا ہے۔

شیو میں ویک دیوتاؤں کی خصیات ترمیم

بقول لی بان کہ یہ برباد کرنے والا یا اقلاً حاکم بدلنے والا الواقع موت اور زندگی کا دیوتا ہے۔ اس کی نشانی لنگم ہے اور اسی کے نام سے جانور کاٹے جاتے ہیں۔ ۔ یہی ہے خدا اس جوہر کا جس سے کائنات پیدا ہوئی ہے اور یہی خاد ہے اس موت کا جو کائنات کو تلف کرتی ہے۔ حقیقت میں یہ شیو ہند کا سچا خدا اور ہندووَں کی قور اخلاق کا نتیجہ ہے، یہ جدید برہمنی مذہب کے دیوتاؤں میں سب سے پرانا ہے۔ یہ رگ وید کے رودر یعنی ہوا اور پانی کے دیوتا سے مشابہ ہے۔ آخر میں چل کر یہ اگنی سے مشابہ کر دیا گیا۔ قدیم آریاؤں میں آگ جس کی بڑے اہتمام سے پرستش کرتے تھے مادہ زندگی مانا جاتا تھا اور وہ ہر مخلوق میں سائر اور اس کو زندہ رکھنے ولا تھا۔ اگنی ہی برباد کرنے والا دیوتا بھی ہے۔ کیوں کہ کہ جو چیز اس پرچڑھائی جاتی تھی اسے وہ جلا دیتا تھا۔

جدید برہمب میں شیو نے اگنی کی جگہ لے لی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مگستھنز کے زمانے میں شیو کی پرستش عام ہو چکی تھی اور اس کا نام اور خصاءص متعن ہو چکے تھے، کیوں کہ مگستھنز اسے یونانیوں کے ڈایونیسیس سے تشبیہ دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے شیو کی نشانی لنگم سنہ عیسوی کی ابتدا میں قرار دے دی گئی تھی۔ گیارویں صدی عیسویں میں محمود آیا تو بارہ ایسے مندر تھے جو شیو کہ نام سے تعمیر ہوئے تھے اور اس دیوتا کی پرستش ہوتی تھی۔

شیو مذہب کا ارتقا ترمیم

شیو کی پوجا کا سب سے پہلا ثبوت پہلی صدی عیسوی میں کشان فرمانروا کڈفسس کے سکوں پر پہلی صدی میں شیو کی مورتی سے ملتا ہے۔ وادی سندھ کی مہروں سے ایک دیوتا تصویریری مہریں ملی ہیں جس کی خصوصیات شیو کی طرح ہیں۔ یہ تین سروں والا مویشی کے ساتھ دیکھایا گیا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیو وادی سندھ کا دیوتا تھا جسے بعد میں ہندووَں نے پوجنا شروع کیا۔

لیکن رفتہ رفتہ صرف شیو کی پوجا کا رواج ہوتا گیا اور شیو کی مختلف شکلوں میں مورتیاں بناکر پوجی جانے لگیں۔ یہ مورتیاں عموماً ایک چھوتے گول ستون کی صورت کی ہوتی تھیں یا اوپر کے حصہ گول کر کے چاروں طرف چار منہ بنا دیے جاتے تھے۔ اوپر کے گول حصے برہمانڈ (کائناتٌ) اور چاروں منہ میں پورپ والے سورج، پچہم والے سے وشنو، اتر والے سے برہما اور دکھن والے سے رودر مراد ہوتا تھا۔ کچھ مورتیں ایسی ملی ہیں جن کے چاروں طرف منہ ہیں اور چاروں دیوتاؤں کی مورتیاں ہی بنی ہیں۔ ان چاروں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بنانے والوں کے نذیک کائنات کا خالق شیو ہے اور چاروں طرف دیوتا اس کی صفات کی مختلف صورتیں ہیں اور شیو اور رودر کو ایک ساتھ پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ابتدا میں رودر اور شیو ایک نہیں سمجھے جاتے تھے اور یہ الگ الگ دیوتا تھے۔

بعد کے دور میں شیو کی عظیم الجثہ تری مورتی (تثلیث) بنائی گئیں جو کہیں کہیں پائی گئی ہیں۔ اس کے چھ ہاتھ تین منہ بڑی بڑی چٹاؤں سے مزیں تین چہرے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک روتا ہوا چہرہ تھا جو شیو کو رودر کہلانے کی دلیل تھا۔ اس واضح ہو گیا کہ لوگ رفتہ رفتہ رودر اور شیو کو ایک ہی سمجھنے لگے تھے۔ اس کے وسط کے دو ہاتھوں میں ایک میں بجورا اور دوسرے میں مالا ہے۔ داہنی طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں سانپ اور دوسرے میں پیالہ۔ بائیں طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں پتلی چھڑی اور دوسرے میں ڈھال یا آئینہ کی شکل کی کوئی گول چیز ہوتی ہے۔ تثلیث مورتی جپوترے کے اوپر اس میں صرف جسم کا بالائی دیوار سے ملا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے زمین پر اکثر شیو لنگ ہوتا ہے۔ مگر اس وقت تک شیو لنگ کی پوجا نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ چھوٹا سا گول ستون چار بالا الزکر دیوتاءوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ اگرچہ اس پر سے دیوتاؤں کے چہرے غائب ہو گئے تھے۔ لیکن لنگ کی پوجا نہیں کرنے کا ثبوت پھر بھی نہیں ملا ہے۔ اس کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ان مندروں میں شیو کی مورتی تو ہوتی تھی مگر لنگ لازمی نہیں ہوتا تھا اور لنگ ہر جگہ نہیں ملا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ رفتہ رفتہ دوسرے دیوتاؤں کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ ایسی تری مورتیان بمبئی سے چھ میل دور ایلنٹٹا، چتور کے قلعے، سررہی راج وغیرہ کئی مقامات پر دیکھنے میں آئی ہیں۔ جن میں سب سے پرانی ایلفنٹا والی ہے۔ شیو کی رقص کرتی مورتیاں دھات یا پتھر کی بھی کئی سے جگہ ملی ہیں۔

قدیمی عقائد ترمیم

شیو فرقہ کے لوگ مہادیو کو عالم خالق، رزاق اور ہلاک کرنے والا سمجھتے ہیں۔ یوگ ابھیاس اور راکھ ملنے کو یہ لوگ ضروری سمجھتے ہیں اور موکش (نجات) کے قائل ہیں۔ اس فرقہ میں پرستش کے چھ ارکان ہیں۔ ہنسنا، گانا، ناچنا اور بیل کی طرح آوازیں نکالنا، زمین دوز ہوکر نمسکار کرنا اور جپ کرنا۔ اس طرح کی مختلف رس میں یہ ادا کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے کرموں کا پھل ملتا ہے۔ جیو قدیم ہے، جب وہ مایا کے پھندے سے جھوٹ جاتا ہے تو وہ بھی شیو ہوجاتا ہے۔ پر وہ مہادیو کی طرح مختار کل نہیں ہوتا ہے۔ یہ لوگ جپ اور یوگ سادھن وغیرہ کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔

لکویش فرقہ ترمیم

شویوں کو پاشوپت کہلاتے تھے اور بعد میں ایک اور فرقہ لکولیش کا اضافہ ہوا۔ جس کے سب سے پرانے آثار 971ء کے ایک کتبہ سے جو بھروچ سے ملا ہے۔ اس کتبہ میں لکھا کہ وشنو نے بھریگو منی کو شاپ دیا۔ بھریگیو منی نے شیو کی پرستش کرکے اسے خوش کر دیا تو شیو ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہاتھ میں لیے نمودار ہوا۔ لکت ڈنڈے کو کہتے ہیں اس لیے شیو لکوئش یا نکولیش بھی کہلاتا اور یہ جگہ بروڈا میں ہے اور کلیا وتار کہلاتا ہے۔ یہ مقام لکولیش فرقہ کا متبرک مقام بن گیا۔ لکولیش کی مورتیں راجپوتانہ، گجرات، کاٹھیاواڑ، دکن میں مسیور تک، بنگال میں اور اوڑیسہ میں ملی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فرقہ کتنا مقبول ہوا۔ اس مورتی کے سر پر اکثر جین مورتیوں کی طرح لمبے بال ہیں۔ ہاتھ دو اور دائیں ہاتھ میں بیجورا اور بائیں ہاتھ میں دنڈا ہوتا تھا اور اس کی نشت پدماسن ہوتی ہے۔ لکولیش کے چار شاگردوں کوشک، گرگ، متر اور کورش کے نام لنگ پران میں ملتے ہیں۔ جن کے نام سے شیویوں کے چار ضمنی فرقہ بنے۔ لیکن اب لکولیش فرقہ کے پیرووَں کا نشان بھی نہیں ملتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ لکولیش کا نام بھی نہیں جانتے ہیں۔

کارپاک اور کالا مکھ فرقے ترمیم

شیو کے دو دیگر فرقوں کے نام کاپالک اور کالا مکھہ ہیں۔ یہ شیو کے بھیرو اور وردر روپ کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے چھ نشانات تھے مالا، زیور، کنڈل، رتن، راکھ اور جنیو۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان سادھاؤں کے ذریعہ انسان موکش حاصل کرتا ہے۔ یہ لوگ انسان کی کھوپڑی میں کھاتے تھے۔ شمشان کی راکھ جسم پر ملتے ہیں اور اسے کھاتے بھی ہیں۔ ایک ڈنڈا اور ایک شراب پیالہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان باتوں کو یہ دنیا اور مکتی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ شنر دگ بجے میں مادھو نے ایک کاپالک سادھو سے ملنے کا ذکر کیا ہے۔ بان نے ہرش چرت میں بھی ایک خوفناک کاپالک سادھو کا حال لکھا ہے۔ بھوبھوتی نے اپنے ناٹک مالتی مادھو میں ایک کپال کنڈلا نام کی عورت کا ذکر کیا ہے جو کھوپڑیوں کی مالا پہنے ہوئے تھے۔ ان دونوں فرقوں کے سادھوں کی زندگی قابل نفرت اور خوفناک ہوتی تھی اور اس فرقہ میں صرف سادھو ہوتے تھے۔

جنوب ہند میں عروج ترمیم

تامل علاقے میں شیو فرقہ کو عروج حاصل ہوا۔ یہ لوگ جینیوں اور بدھوں کے سخت دشمن تھے۔ ان کی مذہبی تصانیف کے گیارہ مجموعہ ہیں، جو مختلف اوقات میں لکھی گئیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور مصنف تیرونان سمبندھ تھا جس کی مورتی کی تامل علاقہ میں شیو مندروں میں پوجا جاتا ہے۔ تامل شعر اور مصنفین اس کے نام سے اپنی تصانیف کا آغاز کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس بہت پہلے اس علاقہ میں شیو دھرم پھیل چکا تھا۔ کانجی پورہ کے مندر کا کتبہ چھٹی صدی عیسوی میں شو دھرم کے دکن میں راءج ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ پلو خاندان کے راجا راج سنگھ نے جو غالباً 550 عیسوی کے آس پاس ہوا ہے اس نے راج سنگھیشور کا مندر بنوایا تھا۔ اس نے اس کتبہ میں اپنے راج سنگھ کے شیو دھرم کے اصولوں میں ماہر ہونے دعویٰ کیا ہے۔ لیکن وہ اصول کیا تھے معلوم نہیں ہو سکا۔

کشمیر میں شیو فرقہ ترمیم

کشمیر میں بھی شیو دھرم کا بھی اثر ملتا ہے۔ وسو گپت نے ایک کتاب اسپند شاستر جس کی تفسیر جس کا نام اسپندر کارکا ہے اس کے ایک پیروکار کلٹ نے کی ہے جو اونتی ورما (458ء) کا معاصر تھا۔ اس میں ہے کہ پرماتما انسانی کرم کا محتاج نہیں ہے، بلکہ اپنی مرضی سے بغیر مادے سے دنیا پیدا کرتا ہے۔ کشمیر میں ہی سومانند نے دسویں صدی میں شیو فرقہ کا ایک اور فرقہ قائم کیا۔ اس نے ’شیو درشتی’ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ مگر اس میں اور شیو دھرم میں معمولی فرق تھا۔

لنگ پوجا ترمیم

وادی سندھ کی تہذیب میں لنگ کے آثار ضرور ملے ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ لنگ پوجا وادی سندھ میں کی جاتی تھی کہ نہیں۔ اس کے علاوہ لنگ پوجا میسور دکن کی ڈراویڈی قوموں میں بھی ملتی ہے مگر اس وقت یہاں شیو پوجا نہیں ہوتی تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت تک شیو کے لنگ کی پوجا نہیں ہوتی تھی اور اس دھرم میں لنگ پوجا کب شروع ہوئی۔ اس کے لیے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔

ستوپے ترمیم

مشرقی ہند میں قبریں گول ہوتی تھیں اور استوپ کہلاتی تھیں۔ گوتم بدھ سے پہلے ان قبروں کے نشان کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ استوپ کو گوتم کے مدفن کی علامت دی جائے اور گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے استوپ بنانے کا رواج پڑ گیا۔ استوپ نیم دائرے کی شکل کا ٹھوس گنبد نما ہوتا تھا اس کے بیچ وہ آثار رکھے جاتے تھے جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی۔ اشوک ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کرا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ چنانچہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیے گئے اور ان اسٹوپوں پر بدھ کی زندگی کے واقعات کندہ ہوتے تھے۔ چنانچہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے۔ ٹیکسلہ کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ مگر اس کے علاوہ چھوٹے اسٹوپ بھی بنائے جاتے تھے۔ ایسے بے شمار اسٹوپ برصغیر میں بنائے گئے اور چھوٹے اسٹوپ کا چینی سیاح ہیونگ سیانگ نے بھی ذکر کیا ہے۔ یہ چھوٹے اسٹوپ جنوبی ہند میں بدھ مندر کے ساتھ اکثر اور کثرت سے بنائے جاتے تھے۔ جب بدھ مت کا زوال اور شروع ہوا تو اور شیو کی پوجا شروع ہوئی تو ان بدھ مندوروں کو شیو مندر میں تبدیل کر دیا گیا اور ان اسٹوپوں پر جسے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ پہلے دوسرے دیوتاؤں کی مورتیاں بنائی گئیں اور رفتہ رفتہ یہ مورتیاں غائب ہوگئیں اور لنگایت فرقہ کے عروج کے ساتھ یہ اسٹوپ شیو لنگ کہلانے لگے۔

لنگویت ترمیم

جس زمانے میں ویشنو دھرم اہنسا کا پرچار کرتا ہوا نئی صورت میں اندھرا اور تامل میں شیو فرقہ کی مخالفت میں پھیل رہا تھا۔ اس زمانے میں ایک نئے شیو فرقہ کا ظہور ہوا۔ کناری بھاشا کے بسوپران سے پتہ چلتا ہے کہ کنچوری راجوڑی راجا بجل کے زمانے میں (بارھویں عیسویں ) بسو نام کے ایک برہمن نے جین دھرم کے مقابلے میں لنکایت مت کا پرچار کیا اور جنگموں (لنکایتوں کے دھرم اپدیشکوں ) پر کثیر رق میں خرچ کرنے لگا۔ اسے راجا بجل نے اپنا مشیر بنالیا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ شیو نے اپنی روح کو دو حصوں لنگ اور جسم میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس لیے یہ لنگ کو چاندنی کی ڈبیا میں بند کرکے اپنے گلے میں پہنتے تھے۔ یہ اہنسا (جیو یا جینے دو) کو اہمیت اور ہندو معاشرے کے خاص رکن برنوں (ذات پات) کی تفریق کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی تپ اور سنیاس کو اہمیت دیتے تھے۔ بسو کا کہنا تھا کہ ہر شخص چاہے وہ سادھو ہی ہو اسے محنت کرکے اپنا روزگار پیدا کرنا چاہیے اور بھیگ مانگنا اس نے معیوب قرار دیا۔ اس نے بدھوں اور جینیوں کی طرح اپنے پیروں کی اخلاقیات پر بھی توجہ دی بھگتی اس فرقہ کی نمایاں بات تھی اور اس نے لنگ کو اپنا نشان قرار دیا تھا۔ ان میں جینو سنسکار کی جگہ وہاں دیکشاسنسار ہوتا تھا۔ گایتری منتر کی جگہ یہ اوم نمتہ شیوایۃ کہتے اور جنیو کی جگہ گلے میں شیو لنگ لٹکاتے ہیں۔ ہنسا کے پرچار کے باوجود یہ لوگ جینوں کے دشمن تھے اور ان کی مورتیوں کو توڑوا کر پھیکوادیا کرتے تھے۔ اس فرقہ نے لنگم کی پوجا کرنا شروع کی اور یہ فرقہ لنگم یا لنگ کی نسبت سے لنگایت کہلاتا تھا۔ اس طرح لنگ پوجا کو مقبولیت حاصل ہوئی اور رفتہ رفتہ شیو کے مندروں میں شیو کی مورتی کی بجائے لنگم کی پوجانے لگی۔ جو اب تک جاری ہے

شیو کی پرستش دو طرح ہوتی ہے۔ ایک دکشنا کار اور دوسری باما کار۔ دکشنا کار والے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور کالی کو چنڈی مانتے ہیں اور باما کار مارگی کہلاتے ہیں۔ وہ پوشیدہ طور پر پوجا کرتے ہیں۔ وہ برہنہ عورت کی شرم گاہ کو پوجتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔ زناکاری کرتے ہیں۔ شیو کے اوپاسک اکثر لامذہب، وحشی، عیبی اور نشہ باز دیکھے گئے ہیں۔

شیو کی پرستش دو طرح ہوتی ہے۔ ایک دکشنا کار اور دوسری باما کار۔ دکشنا کار والے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور کالی کو چنڈی مانتے ہیں اور باما کار مارگی کہلاتے ہیں۔ وہ پوشیدہ طور پر پوجا کرتے ہیں۔ وہ برہنہ عورت کی شرم گاہ کو پوجتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔ زناکاری کرتے ہیں۔ شیو کے اوپاسک اکثر لامذہب، وحشی، عیبی اور نشہ باز دیکھے گئے ہیں۔

ماخذ ترمیم

قدیم مشرق۔ ڈاکٹر معین الدین

ہندو کلاسیکل ڈکشنری۔ سردار دیوی سہائے رائے

تواریخ ہند قدیم۔ منماتھ رائے

قرون وسطہ میں ہندوستانی تہذیب۔ رائے بہادر مہامہوپا دھیا گوری شنکر ہیرا چند اوچھا

تواریخ ہند قدیم۔ منماتھ رائے

تمذن ہند۔ لی بان گستاولی

شیو
 
دیوناگریशिव
تملசிவன்
منتراوم نماہا شیوایا
مہامرتیون جیا منتر
شیوا تانڈاؤ ستوترم
سوارینندی
تہوارمہا شواراتری
ذاتی معلومات

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Edward Balfour (1885)۔ The Cyclopædia of India and of Eastern and Southern Asia: Commercial, Industrial and Scientific, Products of the Mineral, Vegetable, and Animal Kingdoms, Useful Arts and Manufactures (بزبان انگریزی)۔ B. Quaritch 
  2. David Kinsley (1998)۔ Hindu Goddesses: Visions of the Divine Feminine in the Hindu Religious Tradition (بزبان انگریزی)۔ Motilal Banarsidass Publ.۔ ISBN 978-81-208-0394-7 
  3. Denise Cush، Catherine A. Robinson، Michael York (2008)۔ Encyclopedia of Hinduism۔ Routledge۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-0-7007-1267-0 
  4. Joanna Gottfried Williams (1981)۔ Kalādarśana: American Studies in the Art of India۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 62۔ ISBN 90-04-06498-2 
  5. Bibek Debroy, Dipavali Debroy (2002). The holy Puranas. p. 152. "Nakusha and Ashokasundari had a son named Yayati.”
  6. ^ ا ب