صادق محمد (کرکٹ کھلاڑی)

صادق محمدانگریزی:Sadiq Mohammad (پیدائش: 3 مئی 1945ء جوناگڑھ، گجرات، بھارت) پاکستانی کے کرکٹ کھلاڑی ہیں اور مشتاق محمد اور حنیف محمد کے چھوٹے بھائی ہیں[1]انھوں نے 41 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 19 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیل چکے ہیں۔ پانچ محمد بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور نرم بولنے والا صادق محمد ہی تمام بھائیوں میں بائیں ہاتھ سے کھیلنے والا تھا، جس کے لیے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی تھی کیونکہ باقی چاروں دائیں ہاتھ والے تھے۔ اس کے قدرتی دائیں ہاتھ کا مطلب تھا کہ وہ ایک مضبوط کلائی والا آف سائیڈ کھلاڑی تھا، لیکن وہ ایک مضبوط کھینچنے والا بھی تھا کیونکہ اسے تیز رفتار مردوں سے مقابلہ کرنا پسند تھا۔ اپنے زیادہ مشہور بھائیوں حنیف محمد اور مشتاق محمد کی طرح صادق محمد بھی متاثر کن کھیل پیش کرنے والے تھے اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ صادق محمد کی ٹیم میں جگہ ان کے خاندانی روابط کی وجہ سے بنتی رہی، لیکن مشکل وقت میں اوپنر کے طور پر اس کا ریکارڈ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ انہی صلاحیتوں کا مالک تھا جس سے اس کے دوسرے بھائی مزین تھے۔

صادق محمد ٹیسٹ کیپ نمبر61
فائل:Sadiq Muhammad.jpeg
ذاتی معلومات
پیدائش (1945-05-03) مئی 3, 1945 (عمر 79 برس)
جوناگڑھ، ریاست جونا گڑھ، برطانوی ہندوستان
بلے بازیبائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیلیگ بریک، گوگلی گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 61)24 اکتوبر 1969  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ٹیسٹ30 دسمبر 1980  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
پہلا ایک روزہ (کیپ 7)11 فروری 1973  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ایک روزہ5 دسمبر 1980  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 41 19
رنز بنائے 2579 383
بیٹنگ اوسط 35.81 21.27
100s/50s 5/10 0/2
ٹاپ اسکور 166 74
گیندیں کرائیں 33.2 6.2
وکٹ 0 2
بولنگ اوسط n/a 13.00
اننگز میں 5 وکٹ 0 0
میچ میں 10 وکٹ 0 n/a
بہترین بولنگ n/a 2/20
کیچ/سٹمپ 28/0 5/0
ماخذ: [1]، 4 جنوری 1981

کھیلوں سے محبت ورثے میں ملی

ترمیم

صادق محمد کو کھیلوں سے محبت ورثے میں ملی ان کی والدہ امیر بی سابقہ ہندوستان میں بیڈ منٹن چیمپئین تھیں جبکہ ان کے والد کھیلوں سے بھرپور شغف رکھتے تھے صادق محمد نے 50ء کی دہائی میں جب وہ ابھی بچپن کی حدود کراس کر رہے تھے تو انھوں نے پہلا کرکٹنگ آٹوگراف مشہور برطانوی کھلاڑی ڈینس کامپٹن کا لیا تھا جب وہ کراچی میں تھے کیونکہ ان کے طیارے کو کسی خرابی کی وجہ سے ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔اسی طرح صادق محمد نے بتایا تھا کہ انھوں نے پہلی بار کرکٹ میدان میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 1976-77ء کی سیریز کے چوتھے ٹیسٹ میں گیند بلے باز کے بلے کو لگ کر دوسری سلپ کے آس پاس ہمارے وکٹ کیپر وسیم باری کے ہاتھوں کیچ ہو گئی۔ اینڈی رابرٹس بلے باز تھے انھوں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور امپائر نے بھی انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ میں نے رابرٹس سے چند الفاظ کہے۔ میں نے اس سے کہا، "یہ صریح دھوکا ہے" صادق محمد کی کرکٹ میں اپنے پسندیدہ کھلاڑی نیل ہاروے سے 1972-73ء میں پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کے دوران ملاقات کی جس پر ان کو ہمیشہ فخر رہا۔

ٹیسٹ ڈیبیو سے ایک رات قبل

ترمیم

ان کا ٹیسٹ ڈیبیو 1969ء میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ تھا، جو اس لحاظ سے ایک اہم واقعہ بھی تھا کہ اس نے اپنے بھائی حنیف محمد کے ساتھ اننگ کا آغاز کرنا تھا کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں صادق محمد نے بتایا تھا کہ اپنے پہلے ٹیسٹ میچ سے ایک رات پہلے۔ میں نے سوچا کہ بھائی حنیف محمد کے ساتھ بلے بازی کرنا بہت مشکل ہو گا اور میں نے سوچا کہ اگر میں اچھا نہیں کروں گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔ کرکٹ کا پہلا مشورہ مجھے میرے بھائی مشتاق محمد کی طرف سے تھا۔ انھوں نے کہا: وکٹ پر رہنے کی کوشش کریں رنز آئیں گے۔ صرف اس مخصوص گیند کو زندہ رہنے کے لیے توجہ کے قابل سمجھیں جو آپ کو پیویلین بجھوا سکتی ہے انھوں نے اپنا آخری ٹیسٹ 1981ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف چوتھے ٹیسٹ میں کھیلا۔ انھوں نے گلوسٹر شائر کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کھیلی[2]

ٹیسٹ کیرئیر

ترمیم

صادق محمد نے 1969ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ نیوزی لینڈی کی ٹیم پاکستان کے دورہ پر تھی۔ صادق محمد اپنے ہوم گرائونڈ کراچی میں میدان میں اترے۔ پہلی اننگ میں 69 اور دوسری اننگ میں 37 رنز کی باریاں دیکھنے کو حیران کرگئیں۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 16 اور 17 اور ڈھاکہ کے تیسرے ٹیسٹ میں 21 اور 3 کے ساتھ انھوں نے سیریز کا اچھا اختتام کیا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں جب وہ اوپننگ کے لیے اپنے بھائی حنیف محمد کے ساتھ میدان میں اترے تو ان کا شمار ان چند کھلاڑیوں میں ہونے لگا جب دو بھائیوں نے کسی ایک اننگ میں کھیل کا آغاز کیا ہو۔ انھوں نے پہلی وکٹ پر 55 رنز اور دوسری وکٹ پر یونس احمد کے ساتھ 56 رنز کی شراکت قائم کی۔ انھوں نے دوسری اننگ میں ایک بار پھر حنیف محمد کے ساتھ 75 رنز کی شراکت مہیا کی۔ یہ ٹیسٹ ڈرا ہو گیا تھا۔ اس سیزن کے بعد 2 سال کے انتظار کے بعد انھیں انگلستان کے دورے پر 1971ء میں جانے والی قومی ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ لارڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے دوسری اننگز میں 91 رنز سکور کیے۔ اگرچہ انگلستان یہ ٹیسٹ میچ 25 رنز سے جیت گیا تاہم نوجوان صادق محمد نے دوسری اننگ میں 220 بالوں پر 241 منٹ میں 91 رنز بنائے۔ ظہیر عباس 0' مشتاق محمد 5' سعید احمد 5۔ اگر وکٹ پر قیام کرتے تو پاکستان اس ٹیسٹ میں یقینی شکست سے بچ جاتا۔ اگلے ہی سیزن میں جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی تو صادق محمد کے لیے یہ ایک اچھا دورہ ثابت ہوا۔ ایڈیلیڈ کے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 81 رنز بنا کر انھوں نے اپنے فارم میں آنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ اسی لیے میلبورن کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری 137 بنا ڈالی۔ انھوں نے سعید احمد کے ساتھ پہلی وکٹ پر 128 رنز کی سنچری شراکت میں بھی شرکت کی اور پاکستان کا سکور 8 وکٹ پر 574 رنز رہا۔ ماجد خان نے 158 رنز سکور کیے۔ صادق محمد دوسری اننگز میں صرف 5 رنز بنا سکے جبکہ سڈنی کے ٹیسٹ میں بھی وہ 30 اور 6 تک محدود رہے۔ اس دورے کے بعد پاکستان کی اگلی منزل نیوزی لینڈ تھی جہاں ولنگٹن کا تیسرا ٹیسٹ ہی ان کے کیریئر کا نکتہ عروج ثابت ہوا۔ صادق محمد نے 362 منٹ میں 166 رنز کی بے مثال اننگ کھیلی۔ ماجد 79 اور آصف اقبال 39 کی مدد سے پاکستان نے 357 کا بڑا ہدف بنا لیا۔ دوسری اننگ میں صادق محمد ایک بار پھر کریز پر طویل قیام کا ارادہ رکھتے انھوں نے 161 منٹ میں 7 چوکوں کی مدد سے 68 رنز کی اننگ کھیلی۔ ڈونیڈن کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے واحد اننگ میں 61 رنز بنائے جبکہ آکلینڈ کے آخری ٹیسٹ میں 33 اور 38 کی باریاں کھیل ڈالیں۔ 1973ء میں ہی انگلستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور کے پہلے ٹیسٹ میں صادق محمد نے ایک بار پھر تیسرے ہندسے تک رسائی حاصل کی۔ 370 منٹ میں 14 چوکوں کی مدد سے 119 رنز بنائے۔ دوسری طرف آصف اقبال نے بھی 102 رنز بنا کر پاکستان کے سکور کو 422 تک لے جانے میں مدد کی تاہم دوسری اننگ میں وہ صرف 9 رنز کی بنا سکے۔ حیدرآباد سندھ کے ٹیسٹ میں 30 رنز پر ہی پویلین لوٹ گئے تاہم کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 248 منٹ میں 9 چوکوں کی مدد سے 89 سکور کیے تھے۔ ماجد خان 99 اور مشتاق محمد 99 کے ساتھ تینوں اس لحاظ سے بدقسمت رہے کہ وہ سنچریاں نہ کرسکے۔ 1974ء میں پاکستان ایک بار پھر انگلستان کے دورے پر تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے گیا جس میں صادق محمد کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ 28,12' 40,43' 21,4 ہی ان کے بلے سے نمودار ہونے والے رنز تھے۔ 1975ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی ویسٹ انڈیز کے خلاف انھیں کراچی کے ٹیسٹ میں ایک بار پھر اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے پہلی اننگ میں 27 لیکن دوسری باری میں آئوٹ ہوئے بغیر 98 رنز بنا کر ایک بار پھر سنچری سے دوری اختیار کی۔ 1976ء میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو انھوں نے حیدرآباد سندھ کے ٹیسٹ میں 103 ناقابل شکست رنز بنا کر اپنی صلاحیتوں کا خوبصورت اظہار کیا۔ اسی طرح 1977ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تو صادق محمد نے میلبورن کے پہلے کرکٹ ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے خلاف 105 رنز کی خوبصورت اننگ کھیلی۔ اس طرح ویسٹ انڈیز کے خلاف پورٹ آف سپین میں 81 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا۔ مجموعی طور پر ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ اسی سیزن میں انگلستان کے خلاف ہوم سیریز میں وہ کوئی خاص بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم 1978ء میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو انھوں نے برمنگھم میں 79 اور لیڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں 97 رنز پر آئوٹ ہوکر ایک بار پھر سنچری سکور کرنے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ 1978ء میں فیصل آباد کے ٹیسٹ میں بھارت کے خلاف 41 اور 16 اگرچہ اتنی اچھی پرفارمنس نہ تھی مگر انھیں پھر بھی سال کے آخر میں بھارت کا دورہ کرنے والی قومی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ کانپور کے پہلے ٹیسٹ میں 47 اور چنائی کے دوسرے ٹیسٹ میں 46 رنز بنانے کے باوجود کولکتہ کے تیسرے ٹیسٹ میں بھی ٹیم میں شامل رکھا گیا تاہم وہ کوئی قابل ذکر اننگ ترتیب نہ دے سکے[3]

1980ء ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری سیریز

ترمیم

1980ء میں جب ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم نے کلائیو لائیڈ کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا تو صادق محمد آخری بار ہمیں پاکستان کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ لاہور میں پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے جاوید میانداد کی قیادت میں 369 رنز سکور کیے۔ صادق محمد صرف 19 رنز تک محدود رہے تاہم عمران خان 123' وسیم راجا 76 اور سرفراز نواز 55 کی مدد سے یہ ہدف مقرر ہوا۔ صادق محمد نے لاہور ٹیسٹ میں 19 اور 28 تک ہی پہنچ پائے جبکہ کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میں دوسری اننگ میں 36 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے جبکہ ملتان کے تیسرے ٹیسٹ میں جو ان کے ٹیسٹ کیریئر کا آخری ٹیسٹ تھا انھیں ویسٹ انڈین بولر نے صرف 3 رنز ہی بنانے دیے۔ اس طرح کرکٹ کے میدانوں پر جابجا رنزوں کی بہاریں سجانے والے صادق محمد اپنے ٹیسٹ کیریئر کی آخری سیریز میں صرف 86 رنز بنا سکے۔

اعدادوشمار

ترمیم

صادق محمد نے 41 ٹیسٹ میچ کھیلے جن کی 74 اننگز میں 2 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 2579 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا۔ 35.81 کی اوسط سے بننے والے اس رنز میں 166 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 5 سنچریاں اور 10 نصف سنچریاں ان کے بلے سے سکور ہوئی تھیں جبکہ 28 کیچز بھی ان کے ریکارڈ کا حصہ تھے۔ صادق محمد نے 19 ایک روزہ میچز کی 19 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 383 رنز سکور کیے جس میں 74 ان کا زیادہ سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔ 21.27 کی اوسط سے بنائے جانے والے اس مجموعہ میں 2 نصف سنچریاں اور 5 کیچ بھی شامل تھے جبکہ 387 فرسٹ کلاس میچوں کی 684 اننگز میں 40 مرتبہ بغیر آئوٹ ہوئے صادق محمد نے 24160 رنز 37.51 کی اوسط سے بنائے۔ 203 ان کا کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 50 سنچریاں اور 121 نصف سنچریاں اور 326 کیچز بھی اس طرز کرکٹ میں اس کے ریکارڈ میں شامل ہیں[4]

کوچنگ کا کیرئیر

ترمیم

صادق محمد نے 2010ء کے ایشین گیمز میں کانسی کا تمغا جیتنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بھی کی۔

ایمپائرنگ کیرئیر

ترمیم

انھوں نے 2000ء میں ایک ون ڈے میچ میں امپائرنگ کی۔

صحت کے مسائل

ترمیم

صادق محمد کا این آئی سی وی ڈی میں ہارٹ پروسیجر کامیاب ہو گیا، دوران علاج سابق کرکٹ کھلاڑی کے دل کے وال بند ہونے کی تشخیص ہوئی تھی۔صادق محمد کا سینہ چاک کیے بغیر جدید طریقہ کار سے دل کا پروسیجر کیا گیا، ڈاکٹرز نے صادق محمد کو بغیر سینہ چاک کیے پروسیجر کا مشورہ دیا تھا۔پروفیسر ڈاکٹر طاہر صغیر اور ٹیم نے صادق محمد کا پروسیجر کامیابی سے سر انجام دیا، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ صادق محمد ہارٹ پروسیجر کے بعد تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی کو ضروری ٹیسٹ کرانے کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا اس موقع پر صادق محمد کا کہنا تھا کہ بہترین اور مفت علاج کرنے پر حکومتِ سندھ اور این آئی سی وی ڈی کا شکر گزار ہوں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم