ظفر نامہ (خط)
ظفر نامہ(خط):{{دیگر نام|انگریزی= [[:en:Zafarnama (letter}}|Zafarnama (letter)]])سکھ مت کے گرو گوبند سنگھ کا 24 اشعار پر مشتمل فارسی میں لکھا خط جو'فتح نامہ' اور 'نامہ گرو گوبند سنگھ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- مگر 'ظفرنامہ' کے نام سے زیادہ مشہور ہے-[1] گوبند سنگھ کے مطابق بادشاہ اورنگزیب کو بھیجا گیا تھا۔اظافے کیے پھر ان کی وفات کے بعد :دسم گرنتھ میں شامل کیا گیا اور کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔فرامین اورنگزیب يا اس دور کی تاریخی کتابوں میں تذکرہ نہ ہونے سے مشتبہ قرار دییے جانے، تعداد اشعاراور قرآن و مسلمان پر تنقید کے سبب بھی موضوع بحث رہا۔[2] [3]
از گرو گوبند سنگھ | |
اصل عنوان | Zafarnāmāh |
---|---|
شاعر | 1705 |
ملک | مغلیہ سلطنت (موجودہ دور میں بھارت) |
زبان | فارسی زبان |
موضوعات | جنگ، مذہب، اخلاقیات اور انصاف |
صنف | مذہب، خط |
Meter | Chantt |
اگلی | Hikayats |
ظفر نامہ
ترمیمظفر نامہ یعنی فتح کی کتاب۔ فارسی اور ترکی کے متعدد ادبی کاموں کا عنوان ہے- عالمی تاریخ میں متعدد ظفرناموں کا ذکر ملتا ہے:
ظفر نامہ کا اتہاس
ترمیمنانک چند ناز کے مطابق روایات کئی ہیں۔ایک سے ایک حیرت انگیز۔ ہر روایت اپنے ساتھ مختلف خیالات رکھتی ہے۔ چونکہ یہ روایات گوروگوبند سنگھ کے ”ظفرنامہ“ سے وابستہ ہیں۔ اس لیے ان کے معتقدوں کے قابلِ قبول ہوکر کئی غلط اشعارکی بھی حامل ہوگئیں۔ کئی لوگوں نے اصل اشعار پراضافہ بھی کر دیا۔ اور اس طرح اس کی تاریخی حیثیت مسخ ہوکر رہ گئی۔ اور پھر اُس زمانہ میں جب گورو صاحب نے اسے لکھا۔ طباعت کا انتظام نہ ہونے پریہ اپنی اصل صورت میں محفوظ بھی نہ رہ سکا۔ نسلاً بعد نسلاً جس طرح لوگوں کو زبانی یاد رہا۔ دو سو سال کے لمبے عرصہ کا سفر کرتاہوا موجودہ صدی میں ہم تک پہنچا۔ اس کا سب سے پہلا سراغ اُس وقت ملا جب 1922کے ماہ جولائی و اگست میں بنارس کے اخبار ”ناگری پرچارنی پتریکا“ میں ایک ہندو سکالر بابو جگن ناتھ داس کاایک مضمون چھپا۔ جس میں انھوں نے انکشاف کیاکہ تیس بتیس سال پہلے انھوں نے پٹنہ کے شری ہرمندرکے پجاری یا مہنت باباسمیر سنگھ صاحب کے پاس فارسی زبان میں لکھے ہوئے دو خط دیکھے۔ ایک تھا مہاراشٹر کے شیواجی مرہٹہ کے ہاتھ کالکھا ہوا۔ جو اورنگ زیب کے ساتھی مرزا راجا جے سنگھ کے نام تھا۔ اور دوسرا خالصہ پنتھ کے جنم داتا گوروگوبند سنگھ کے ہاتھ کا لکھاہوا خود اورنگ زیب کے نام۔ ان دونوں خطوط میں اورنگ زیب کو لعن طعن کی گئی تھی۔ کہ اس نے ہندووں پر اتنا ظلم کیوں روا رکھاہواہے۔ بابو جگن ناتھ نے ان دونوں خطوط کی نقلیں اتاری تھیں۔ یہ غالباً 1890کی بات ہے۔ گورو مہاراج کا خط فارسی نظم میں تھا۔
شری شیواجی مرہٹہ بھی فارسی زبان کے ماہر تھے۔ ان کے خط کی نقل تو ”ناگری پرچارنی پتریکا“ میں شائع کردی گئی۔ اور اس طرح وہ محفوظ ہو گیا۔ لیکن گوروگوبند سنگھ صاحب کے خط کی نقل بابو جگن ناتھ سے بھی اِدھر اُدھر ہو گئی۔ بابوجی فارسی کے شاعر بھی تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی یادداشت سے کام لے کر گورو مہاراج کے خط کے اشعار قلمبند کرلئے۔اور ”پتریکا“ میں چھاپ بھی دیے۔ اُس زمانہ میں پٹنہ کے کلکٹرایک ادب نواز پنڈت راج بلبھ مشرا تھے۔ انھوں نے اس نسخہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے چھپوالیا۔کچھ عرصہ بعد بابو جگن ناتھ نے ایک قلمی نسخہ پنجاب میں سردار امراؤ سنگھ شیر گل مجیٹھ امرت سر کو ارسال کیا۔ جنھوں نے اسے خالصہ کالج امرتسرکی لائبریری کے حوالے کر دیا۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ گورو مہاراج کایہ خط پٹنہ کے ہرمندر صاحب کے مہنت صاحب کے پاس کیسے پہنچ گیاتھا۔ گورو تیغ بہادر پریوارکافی عرصہ پٹنہ میں رہا تھا۔ گوروگوبند سنگھ صاحب کا جنم بھی اسی شہرمیں ہواتھا۔ ممکن ہے کہ جب انھوں نے یہ خط لکھاہو۔اِس کی نقل اپنے کسی مِترکوبھی بھیج دی ہو۔ اور وہ ہرمندر صاحب میں محفوظ کرلی گئی ہو۔
ایک روایت یہ ہے کہ گورومہاراج کے اس خط کی کئی دستی نقلیں ہو گئی تھیں۔ جنہیں ملک کے مختلف حصوں میں پہنچا دیاگیاتھا۔ تاکہ لوگ انھیں پڑھیں اور مسلم حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایک نقل ضلع راولپنڈی کے مقام گولڑا میں۔ ایک سیّد مسلم خاندان کے ہاں بھی محفوظ تھی۔ اس کا پتہ راولپنڈی کے ایک سِکھ ڈاکٹر نے لگایا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس خاندان کی ایک بوڑھی عورت کا علاج کرنے گیا۔ تو اُسے بتایا گیاکہ یہ عورت ہر ہفتے پرانے صندوق میں سے ایک کاغذ نکالتی ہے۔ اُسے پڑھتی ہے اور پھر بے ہوش ہوجاتی ہے۔ یہ کاغذ جب ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو معلوم ہواکہ یہ گورو گوبند سنگھ کے فارسی میں لکھے ہوئے اُس منظوم خط کی نقل ہے۔ جوانہوں نے اورنگ زیب کو بھیجا تھا۔گولڑاکے اس سیّد خاندان کے کوئی دو آدمی گوروگوبند سنگھ کی فوج میں بھرتی تھے۔ نسلاً بعد نسلاً یہ خط اس خاندان کے پاس چلا آتاتھا۔ کہتے ہیں کہ یہ دونوں سیّد گوروصاحب کے ساتھ حیدرآباد دکن بھی گئے تھے۔ عورت نے اس خط کو بطور تبرک رکھاہوا تھا۔وہ اسے پڑھ کر جلال میں آجایا کرتی تھی۔ سِکھ ڈاکٹر نے اس واقعہ کاذکر کئی دوستوں اور رشتہ داروں سے کیا تھا۔یہ1917-1918 کی بات ہے۔ تھوڑے دن ہوئے۔ لدھیانہ کے ایک سکھ دوست مجھے جالندھر میں ملے۔ انھوں نے بھی اس واقعہ کا ذکرکیاتھا۔ ”ظفر نامہ“کاایک حصہ ایک قلمی دسم گرنتھ میں بھی موجود ہے۔ جوفارسی حروف میں لکھا ہواہے۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں اوریہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ 1702سے لے کر 1704 تک کے عرصہ میں گورو گوبند سنگھ صاحب نے اورنگ زیب کے خلاف جو لڑائیاں لڑیں۔ انھوں نے اس ”ظفرنامہ“ کو ترتیب دینے میں بڑا کام کیا۔ اس کی ابتدا 1702ءمیں ہی ہو چکی تھی۔ اپنے پتاگوروتیغ بہادر کی شہادت کے بعد جب گورو صاحب نے اورنگ زیب سے بدلہ لینے اور شمالی ہندوستان میں ایک بہادر فوج تیار کرکے اس کی سلطنت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو پہلا قدم انھوں نے یہ اٹھایاکہ اپنی طاقتوں کو جمع کرنے کے لیے انندپور ضلع ہوشیارپورمیں ہیڈکوارٹربنایا۔دوسری سرگرمیوں کے پہلو بہ پہلو انھوں نے پنجابی، ہندی، سنسکرت اور فارسی کے 52سکالر اپنے ہاں بلا لیے۔ ان میں کئی شاعر بھی تھے۔ یہ سب جنگی لٹریچر مرتب کرنے پر لگ گئے۔ گورو مہاراج خود بھی بلندپایہ شاعر تھے۔ کئی زبانوں میں انھوں نے نظم و نثرکی کتابیں لکھیں۔ فارسی کلام بھی اسی زمانہ میں لکھنا شروع کردیاتھا۔ان 52ادیبوں میں فارسی کے شعرابھی تھے۔ بھائی نندلال کو اُن میں ممتازدرجہ حاصل تھا۔اور وہ گورو مہاراج کے بہت قریب تھے۔ ایک تاریخی کتاب میں لکھا ہے بھائی نندلال کے بغیر گورو مہاراج کھانا بھی نہ کھاتے تھے۔ اُن سے بہت پریم کرتے تھے۔ اور ان کی عزت بھی- جب بھائی جی دربار میں آتے تو گورو مہاراج ان کے سواگت کے لیے کھڑے ہوجاتے۔
یہ مجلسِ شعرا ”ظفرنامہ“ کی ابتداکاباعث بنی۔ بہت سے اشعار اسی زمانہ میں لکھے گئے تھے۔ لیکن وہ سرسہ ندی میں ضائع ہو گئے۔ یہ حادثہ جولائی 1703اور جنوری1704 کے درمیانی وقفہ میں ہوا۔ جب گورو مہاراج کی فوج انندپورمیں محصور ہو گئی تھی۔ لیکن اورنگ زیب کے فوجی سرداروں اور پہاڑی راجاؤں کے حملوں کے باوجود شہرکا محاصہ نہیں ٹوٹا تھا۔ شاہی فوجوں کوجب کامیابی نہ ہوئی تو اورنگ زیب نے ایک پیغام صلع بھیجا۔جو قرآن کی قسموں سے پُر تھا۔اُس کے ایلچیوں نے بھی کئی قسمیں کھائیں۔ اور تحریرلکھ کر گورو مہاراج کو دی کہ مزید حملہ نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ اس اقرارنامہ کے مطابق آپ انندپور سے نکلے۔ مگر دشمن نے وعدہ شکنی کی۔اوران پرحملہ کر دیا۔اس موقع پر گورو مہاراج کا بہت ساسامان لُٹ گیا۔ بیش بہاعلمی خزانہ اور بے شمار قلمی مسودے اور نسخے سرسہ ندی کو پار کرتے وقت دریامیں بہہ گئے۔ تمام خاندان بکھر گیا۔ تمام سِکھ بکھرگئے۔ بزرگ ماتا گوجری اور دو چھوٹے صاحبزادے گنگونامی برہمن ملازم کی غداری کی وجہ سے فتح گڑھ صاحب میں مسلم حکمرانوں نے گرفتار کر لیے۔کچھ عرصہ خود گورو مہاراج کوبھی چمکورکی ایک حویلی میں محصور رہناپڑا۔اورپھر محصور کرنے والوں کامردانہ وار مقابلہ کرکے آپ یہاں سے بھی صحیح سلامت نکل گئے۔
جو قلمی مسودے سرسہ ندی کی نذر ہو گئے۔اُن میں ”ظفرنامہ“ بھی تھا۔ کئی محققین کواس سے اختلاف ہے۔ لیکن ان کے پہلے تیرہ اشعار سے معلوم ہوتاہے کہ یہ انندپورمیں ہی لکھے گئے تھے۔ ان میں گورومہاراج نے اورنگ زیب کومخاطب کرکے اس کی پدرآزاری اور برادرکشی کاذکرکیاہے۔ مہاراشٹر اور راجپوتانہ میں اس کی شکستوں کی طرف اشارہ کیاہے اور پھر دعویٰ کیاہے کہ میں نے آبِ آہن (لوہے کے پانی) سے پنجاب لوگوں کو خالصہ بنایا ہے۔ یعنی انھیں امرت چھکاکر بہادر بنادیاہے۔ اب تمھاری شکست قریب ہے۔ چودھویں شعر میں اپنے دونوں چھوٹے صاحبزادوںک ی شہادت کاذکرکیاہے۔ معلوم ہوتاہے کہ یہ شعر چمکور صاحب کے محاصرہ کے بعد لکھاگیاتھا۔ لیکن ”ظفرنامہ“ کے پہلے حصہ کی تکمیل ماچھی واڑہ میں ہوئی۔اور دوسرے حصہ کی تکمیل روپڑ کے علاقہ میں واقع ایک مقام قصبہ کانگڑ میں ہوئی۔ ”ظفر نامہ“کے کل 135
اشعار ہیں۔ انھیں قلمی شکل میں مرتب کرکے گورومہاراج نے ایک سِکھ بھائی دَیاسنگھ کے حوالے کیا۔جس نے حیدرآباد دکن میں جاکر اورنگ زیب تک پہنچایا۔ ان دنوں اورنگ زیب دہلی گیاہواتھا۔اس کی زندگی ویسے بھی ختم ہورہی تھی۔ گورو مہاراج کے اس مراسلہ کے مطالعہ سے وہ بہت نادم ہوا۔ کیونکہ پنجاب میں اس کی فوج کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ اوراس کی سلطنت کی بنیادیں گر رہی تھیں۔ بندابہادر نے اپنے فوجی کارناموں اور انجام کاراپنی قربانی سے اورنگ زیبی ظلم و ستم کابھی خاتمہ کردیاتھا۔
گوروگوبند سنگھ کافارسی کا کلام پختہ کاری کا نادرنمونہ ہے۔ عروض کی غلطی ان میں نہیں ہو سکتی لیکن طبع شدہ کئی نسخوں میں حیرت انگیز غلطیاں ہیں۔ مثلاً قسم کے 'س' کو ساکن لکھا گیاہے۔ حالانکہ یہ بلفتح ہے۔ یعنی اس پر زبر ہے۔ دیوار کی 'و'حذف کردی گئی ہے۔ آزار کو ازار باندھا گیاہے۔ قرآن کی 'ر" متشدّد ہے۔ مگر اسے اس شکل میں نہیں باندھا گیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتاہے کہ جن احباب نے اپنی یادداشت سے کام لے کر شروع شروع میں ان اشعار کو کاغذ پر لکھا۔وہ علمِ عروض سے واقف نہ تھے۔ اس لیے غلطی کر گئے۔اگر وہ الفاظ کو ذرا آگے پیچھے کردیتے۔ تویہ سُقم نکل جاتا۔ گورو مہاراج نے توسارے کے سارے اشعار تقطیع و اوزان کے مطابق صحیح لکھے تھے۔مگر زمانہ کے ناموافق حالات نے انھیں غلط شکلیں دے دیں۔ اپنی دانست کے مطابق میں نے الفاظ کو آگے پیچھے کرکے یہ سُقم دور کر دیے ہیں میرا دعویٰ ہے کہ اس کتاب میں ”ظفرنامہ“ کے اشعار کی شکل و صورت وہی ہے۔جس میں گورو گوبند سنگھ کی زبان سے نکلے تھے۔
محققین نے ”ظفرنامہ“ کے 21ویں شعرکا صرف ایک مصرع بتایاہے اور لکھاہے کہ دوسرا مصرع نہیں ملتا۔ لیکن یہ توہونہیں سکتاکہ گورو مہاراج نے اسے ادھورا چھوڑدیاہو۔ میں نے ایک قلمی مسودہ میں اس شعرکے دونوں مصرعے دیکھے ہیں۔ اس لیے اس کتاب میں آپ 21ویں شعرکو مکمل پڑھیں گے۔
فارسی ہمارے ملک کی زبان نہیں نئے آئین کی رُو سے شاید ہم اسے محفوظ نہ رہ سکیں۔لیکن چونکہ گورو گوبند سنگھ صاحب کا اصل ”ظفرنامہ“ فارسی میں ہے۔ اس کے مسلسل مطالعہ سے ہم جوش زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں فارسی زبان سے کٹ جانا کبھی گوارا نہیں کرنا چاہیے۔ گورو صاحب کی زبانِ مبارک سے نکلاہوایہ کلام ایک طرح کا آبِ حیات ہے۔[4]
تحقیق
ترمیمThe Sikh Zafar-Namah of Guru Gobind Singh: A Discursive Blade in the Heart of the Mughal Empire
ظفر نامہ یا 'فتح کا خط۔' ایک مثنوی کے طور پر لکھا گیا، ایک فارسی نظم، یہ خط اصل میں مغل شہنشاہ اورنگزیب (متوفی 1707) کو بھیجا گیا تھا جس میں اس کے انتہائی غیر مہذب طرز عمل کی سرزنش کی گئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر، گرو گوبند سنگھ کا خط آج سکھ کینن میں شامل ہے، فارسی زبان کے چند مٹھی بھر متن میں سے ایک جسے سکھ صحیفے کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس طرح، اس کے مندرجات کو سکھوں کے خصوصی مواقع پر گایا جاتا ہے۔ شاید اتنا ہی حیران کن حقیقت یہ ہے کہ یہ خط دسویں گرو کی کتاب یا دسم گرنتھ میں معیاری گورمکھی رسم الخط میں ظاہر ہوتا ہے (جس میں پنجابی لکھی جاتی ہے) لیکن اپنی اصل فارسی زبان کو برقرار رکھتی ہے، جسے مقامی زبان بہت کم سکھ جانتے ہیں۔ خط کے براہ راست اور لطیف حوالہ جات کو ایرانی قومی مہاکوی شاہ نامہ اور شیخ سعدی کے تیرھویں صدی کے بوستان کے حوالے کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ خط کس طرح ایک شکل کے طور پر کام کرتا تھا۔ ہند-اسلامی زبانی جنگ، دسویں گرو کی افسانوی اور طاقتور مغل سلطنت پر اخلاقی اور علامتی فتح کو یقینی بنانا۔ ظفر نامہ کے تجزیے کے ذریعے، فینچ سکھ روایت کے ایک ضروری اور دلچسپ جز کو زندہ کرتا ہے۔[5]
بیرونی روابط
ترمیم- حضرت اورنگزیب اورگرو گووند سنگھ صاحب، --گیانی واحد حسین، سکھ عہدِ اسلامی میں، ص 137
حوالہ جات
ترمیم- ↑ The Encyclopedia Of Sikhism – Volume II E-L HARBANS SINGH۔ FATEHNAMAH, or Namah-i-Guru Gobind Singh, a letter (namah in Persian) (بزبان انگریزی)۔ صفحہ: 20
- ↑ Sardar Guru DayaL Singh (1966)۔ "ظفر نامہ گورو گوبند سنگھ جی مہاراج پر مزید روشنی معہ تنقیدی تبصرہ"۔ Zafarnamah Guru Govind Singh Maharaj Ji Par Majeed Roshni Urdu
- ↑ Nanak Chand Naz۔ "Zafarnama Ka Itihas [ Urdu Hindi] ज़फ़र नामा का इतिहास ظفر نامہ کا اتہاس"
- ↑ ظفر نامہ کا اتہاس https://archive.org/details/zafarnama-ka-itihas-urdu-hindi
- ↑ Louis E. Fenech (2013-01-31)۔ The Sikh Zafar-namah of Guru Gobind Singh: A Discursive Blade in the Heart of the Mughal Empire (بزبان انگریزی)۔ OUP USA۔ ISBN 978-0-19-993145-3