شیخ عبد الحکیم سیالکوٹی المعروف فاضل لاہوری ایک ممتاز اور نامور مسلم عالم دین تھے۔

عبد الحکیم سیالکوٹی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1561ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جنوری 1657ء (95–96 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت و جماعت
فقہی مسلک حنفی
عملی زندگی
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

عبد الحکیم سیالکوٹی 968ھ بمطابق 1561ء سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔[1]

حالات زندگی

ترمیم

شیخ عبد الحکیم سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شمس الدین جلال الدین اکبر کے دور میں سرکاری مدرسہ میں علم دین پڑھاتے رہے انھیں فاضل لاہوری کے لقب سے شہرت حاصل ہوئی جہانگیر کے شہزادوں کو تربیت دیتے رہے وہاں سے انھیں ملک العلماء کا خطاب ملا ۔

علمی مقام

ترمیم

شیخ کمال الدین کشمیری سے کسب علم کیا۔ مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی نئی راہوں کو بروئے کار لائے۔ شاہ جہاں ان کا بہت معترف تھا۔ دو بار ان کو چاندی سے تولا اور سب کی سب ان کو بخش دی۔ ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا تاکہ وہ بے نیاز ہو کر اپنی علمی و ادبی مصروفیات جاری رکھ سکیں۔ شاہ جہاں نے ان کو رئیس العلماء کا خطاب دے رکھا تھا اور وہ کوئی اہم کام بغیر ان کی مرضی کے نہیں کرتا تھا۔ ان کو جو شان و عظمت نصیب ہوئی اس دور میں کسی کو نہیں ملی۔ تمام قسم کے علم و فضل ان میں جمع تھے۔ اور وہ اپنے دور کے یکتا تھے۔ انھوں نے اپنی جوانی اور بڑھاپا اہم مسائل کے تفقہہ اور ان کے حل کرنے میں لگا دیا۔

سیرت و خصائص

ترمیم

علامہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی۔آپ اکابر علما اور اعاظم فضلائے زمانہ میں سے تھے۔ حدیث، فقہ اور علم تفسیر میں وحیدِ زمانہ تھے۔میر غلام علی آزاد بلگرامی فرماتے ہیں: آپ اپنے زمانے کے ایک عالم ِمتبحر اور اہل زمانہ کے لیے سرمایۂ نازش تھے۔آپ ایک درویش کامل بھی تھے۔اس میں شک نہیں کہ تمام درسی علوم میں آپ جیسا عالم و فاضل اور ماہر علوم و فنون ہندوستان کی سرزمین پر کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا۔جس نے اپنی غیر معمولی عقل و دانش اور فراست و حسنِ قبولیت کے باعث ایسے گہرے نقوش زمانہ کے دل و دماغ میں چھوڑے ہوں۔فراغت کے بعد درس وتدریس اپنے وطن سیالکوٹ میں شروع کی۔چند ہی دنوں میں علوم ظاہر و باطن میں ایسا کمال حاصل کیا گویا وہ ایک ماہِ کامل تھے۔جس کی نورانیت سے ایک جہاں منور ہو گیا،اور ایک ایسا سر چشمۂ فیض تھے جس کی برکات سے عرصہ تک خلق اللہ سیراب اور فیض یاب ہوتی رہی۔[2]

آپ نے شاہ بلاول قادری لاہوری کے ارشاد پرحضرت غوث الاعظم کی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ آپ کو مغل بادشاہ جہانگیر اور شاہ جہاں کے دربار میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ بادشاہ کے حکم پر لاہور میں درس قرآن دینا شروع کیااور علمی وعملی شہرت نے دربارِ مغلیہ میں پہنچا دیا دربار شاہی میں دوبارچاندی سے تلوایا گیا اور چاندی آپ کو بخش دی گئی وہ آپ نے اپنے شاگردوں میں تقسیم کردی۔ جاگیر عطا ہوئی تو طلبہ پر وقف کردی۔ سلطانِ وقت نے ایک لاکھ روپیہ ماہانہ مقرر کیاتوغرباء میں تقسیم کردیتے تھے۔

القابات

ترمیم

جامع العلوم العقلیہ والنقلیہ،بحر العلوم،حاویِ جمیع علوم و فنون،سید العلماء،زبدۃ الحکماء،عمدۃ الاتقیاء،آفتابِ پنجاب،ظاہری علوم میں فریدالدہر اور باطنی رموز میں وحید العصر تھے۔

تصانیف

ترمیم

ان کی تصانیف میں

  • حاشیہ بیضاوی،
  • حاشیہ مطول،
  • حاشیہ شرح المطالعہ،
  • حاشیہ للخیاتی،
  • حاشیہ شرح العقائد
  • رسائل کا مجموعہ وغیرہ ہیں۔
  • اس کے علاوہ اور بھی کچھ کتا بوں کی شرحیں لکھیں۔ ملا عبد الحکیم کا حاشیہ بہت اچھا اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے قلمی نسخے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور یہ کتاب شائع بھی ہو چکی ہے۔ یہ حاشیہ ان کی علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ مذہبی معلومات پر عبور اور فہم قرآنی کی دلیل ہے۔ اس حاشیے کی وجہ سے ان کی بڑی شہرت ہوئی۔ خلاصتہ الاثر میں لکھا ہے کہ علما ہند میں جو مرتبہ ان کا تھا وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔[3]

مجدد الف ثانی سے نسبت

ترمیم

آپ مجدد الف ثانی کے ہم سبق تھے اور مجدد الف ثانی ان کا احترام کرتے جس سے ظاہر ہوتا کہ عمر میں ان سے بڑے تھے روایت مشہور ہے کہ آپ نے سب سے پہلے شیخ احمد سرہندی کے لیے مجدد کا لقب استعمال کیا اس کے علاوہ 1023ھ 1614ء کو سیالکوٹ سے سرہند پہنچ کر بیعت کی اور ان کے مجدد الف ثانی کے دلیل میں ایک رسالہ دلائل التجدید لکھا شیخ احمد سرہندی نے انھیں آفتاب پنجاب کے لقب سے نوازا

وفات

ترمیم

ان کی وفات 18 ربیع الاول 1067ھ بمطابق 3 جنوری 1657ء میں ہوئی ان کا مزار شریف موجودہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہے۔[4][5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "ضیائے طیبہ"۔ 12 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2017 
  2. مآثر الکرام:284
  3. ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں مصنف محمد اسلم قدوائی مکتبہ جامع نئی دھلی
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 12 صفحہ 834 دانش گاہ پنجاب لاہور
  5. حدائق الحنفیہ: صفحہ 435 مولوی فقیر محمد جہلمی : مکتبہ حسن سہیل لاہور

بیرونی حوالہ جات

ترمیم

٭ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی۔ ایک تبصرہ[مردہ ربط]