عدالت عالیہ اسلام آباد یا اسلام آباد ہائی کورٹ اسلام آباد میں واقع ملک کی ایک اعلٰی عدالت ہے۔ یہ عدالت 14 دسمبر 2007ء کو ایک صدارتی فرمان کے تحت قائم کی گئی تھی۔ گو صدارتی فرمان جاری ہونے کے بعد اس پر عمل ہونے میں تاخیر واقعی ہوئی، کیونکہ لاہور کی عدالت عالیہ نے اس صدارتی فرمان پر روک لگا دی تھی، لیکن بعد میں پاکستان کی عدالت عظمٰی نے عدالت عالیہ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اس عدالت عالیہ کو قائم کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت عظمٰی کا فیصلہ آنے کے بعد اس عدالت نے باقاعدہ طور پر فروری 2008ء میں کام شروع کیا۔[1] اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے 7 فروری 2008ء کو اس عدالت عالیہ کے پہلے منصف اعظم سردار محمد اسلم سے حلف لیا۔[2]
31 جولائی 2009ء کو ایک آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان کی عدالت عظمٰی نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ کو کام کرنے سے روک دیا اور پاکستان کا عدالتی نظام 2 نومبر 2007ء کی سطح پر بحال کر دیا۔ وہ تمام منصفین جو 2 نومبر کو جس عدالت میں، جس عہدے پر کام کر رہے تھے واپس بھیج دیا گیا اور تمام منصفین جو 2 نومبر 2007ء کے بعد مقرر کیے گئے تھے کو معطل کر دیا گیا۔ منصفین کے علاوہ بھی تمام انتظامی و آئینی ملازمین کو بھی سابقہ عہدوں پر واپس مقرر کر دیا گیا۔[3]

منصفین

ترمیم

اسلام آباد کی عدالت عالیہ کا سربراہ منصف اعظم ہوتا تھا۔ منصف اعظم کے علاوہ جسٹس اور اضافی منصفین اس عدالت کا حصہ تھے۔ منصف اعظم سمیت تمام منصفین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال مقرر کی گئی تھی۔ اضافی منصفین ایک سال کی مدت کے لیے مقرر کیے جاتے تھے۔ ایک سال کی مدت پوری ہونے پر یا تو توسیع دی جاتی تھی یا پھر ریٹائر کر دیے جاتے تھے۔

منصفین کی تفصیل

ترمیم



30 جولائی 2009ء کو عدلیہ بارے فیصلہ آنے تک اس عدالت کی ساخت کچھ اس طرح سے تھی۔

نام دفتر تعیناتی ریٹائرمنٹ تعینات کنندہ مقام تعیناتی تبصرہ
محمد بلال خان منصف اعظم 8 مارچ 2009ء 31 جولائی 2009ء آصف علی زرداری جسٹس عدالت عالیہ لاہور 2007ء میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور لاہور کی عدالت عالیہ میں مقرر ہوئے۔ عدالت عالیہ کی معطلی کے بعد والپس لاہور کی عدالت عالیہ میں بطور منصف بھیج دیے گئے[3]
محمد منیر پراچہ جسٹس 15 فروری 2008ء8 31 جولائی 2009ء پرویز مشرف بار کونسل سے تعینات کیے گئے تعیناتی کے بعد 2011ء میں ریٹائر ہونے تھے لیکن عدالت کی معطلی کے بعد عہدے سے فارغ کر دیے گئے[3]
سید قلب الحسن جسٹس 15 فروری 2008ء 31 جولائی 2009ء پرویز مشرف بار کونسل سے تعینات کیے گئے تعیناتی کے بعد 2011ء میں ریٹائر ہونے تھے لیکن عدالت کی معطلی کے بعد عہدے سے فارغ کر دیے گئے[3]
راجا سید اکرم خان جسٹس 15 فروری 2008ء 31 جولائی 2009ء پرویز مشرف اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے عہدے سے ترقی دی گئی 2024ء میں ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر عدالت کے خاتمے کے بعد بطور جج معطل کر دیا گیا اور سابقہ عہدے پر بحال ہوئے[3]
محمد ارشد تبریز اضافی منصف 13 مارچ 2009ء 31 جولائی 2009ء آصف علی زرداری ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے ترقی دی گئی مارچ 2010ء میں ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر عدالت کے خاتمے کے بعد بطور جج معطل کر دیے گئے[3]
محمد امجد اقبال قریشی اضافی منصف 13 مارچ 2009ء 31 جولائی 2009ء آصف علی زرداری ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے ترقی ہوئی 2010ء میں ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر عدالت کے خاتمے کے بعد بطور منصف معطل کر دیے گئے[3]
محمد رمضان چوہدری اضافی منصف 13 مارچ 2009ء 31 جولائی 2009ء آصف علی زرداری بار کونسل سے تعینات کیے گئے . 2010ء میں ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر عدالت کے خاتمے کے بعد فارغ کر دیے گئے[3]
سید انتخاب حسین شاہ اضافی منصف 13 مارچ 2009ء 31 جولائی 2009ء آصف علی زرداری ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے ترقی دی گئی 2010ء میں ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر عدالت کے خاتمے کے بعد معطل کر دیے گئے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://www.thepost.com.pk/MainNews.aspx?bdtl_id=9187&fb_id=2&catid=14 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ thepost.com.pk (Error: unknown archive URL) وفاقی عدالت عالیہ جلد کام شروع کرے گی۔
  2. Encouraging, facilitating investors government's foremost priority: PM - Associated Press Of Pakistan[مردہ ربط]
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح "عدالت عظمٰی کا آئینی درخواست 8 اور 9، [[2009ء]] کا فیصلہ" (PDF)۔ 17 مئی 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 دسمبر 2009 

بیرونی روابط

ترمیم

عدالت عالیہ اسلام آباد کا موقع جال