عدالت عظمیٰ پاکستان کے عدا لتی نظام کی سب سے بڑی عدا لت ہے۔ اس کی موجودہ تشکیل 1973  کے آئین کے حصہ 7 کے مطابق ہوئی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ پاکستان
Emblem of the Supreme Court of Pakistan
Flag of the Supreme Court of Pakistan
قیام14 اگست 1947؛ 76 سال قبل (1947-08-14)
مقامریڈ زون (اسلام آباد), اسلام آباد, پاکستان کا پرچم پاکستان
متناسقات33°43′41″N 73°05′55″E / 33.72806°N 73.09861°E / 33.72806; 73.09861متناسقات: 33°43′41″N 73°05′55″E / 33.72806°N 73.09861°E / 33.72806; 73.09861
نعرہفاحكم بين الناس بالحق
"So judge between the people in truth"
(قرآن 38:26)
طریق انتخابJudicial Commission of Pakistan
بہ اجازتآئین پاکستان
مدت قضاتCompulsory retirement at 65 years of عمررسیدگی
کل مناصب17 (15; present strength)
ویب سائٹwww.supremecourt.gov.pk
منصف اعظم پاکستان
موجودہقاضی فائز عیسی
از17 September 2023

عدالت عظمیٰ ایک چیف جسٹس، 17 ججز اور 2 ایڈ ہوک ججز  پر مشتمل ہے جس کی منظوری صدر پاکستان وزاعظم پاکستان کی طرف سے نامزد نمائندوں سے ہوتا ہے۔

تاریخی پس منظر ترمیم

1861 میں برطانوی راج نے ہائی کورٹ ایکٹ کے مطابق پورے ہندوستان سے عدالت عظمیٰ ختم کر کے تمام صوبوں میں ہائی کورٹس تشکیل کروائیں۔ یہ 1935 تک قائم رہیں اور 1935 ایکٹ کے بعد وفاقی عدالتیں قائم ہوئیں جن کے اختیارات ہائی کورٹس سے زیادہ تھے۔

آئینی تشکیل ترمیم

موجودہ عدا لت عظمٰی کی تشکیل 1973  کے حصہ7 کی شق 176 سے 191 سے ہوئی ہے۔ ان شقوں میں عدا لت عظمٰی کے اختیارات، نامزدگی، ذمہ داریاں اور اصول وضع کیے گئے ہیں۔

شق 176 عدالت عظمیٰ کی تشکیل

شق 177 عدالت عظمیٰ کے ججوں کا تقرر

شق 178 عہدے کا حلف

شق 179 فارغ الخدمت ہونے کی عمر

شق 180 قائم مقام چیف جسٹس

شق 181 قائم مقام جج

شق 182 ججوں کا وقتی طور پر بغرض خاص تقرر

شق 183 عدالت عظمیٰ کا صدر مقام

شق 184 عدالت عظمیٰ کا ابتدائی اختیارسماعت

شق 185 عدالت عظمیٰ کا ابتدائی اختیارسماعت مرافعہ

شق 186 مشاورتی اختیار سماعت

شق 186 (الف) عدالت عظمیٰ کا مقدمات منتقل کتنے کا اختیار

شق 187 عدالت عظمیٰ کے حکم ناموں کا اجرا اور تعمیل

شق 188 عدالت عظمیٰ کا فیصلوں یا احکام پر نظرثانی

شق 189 عدالت عظمیٰ کے فیصلے دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہیں

شق190 عدالت عظمیٰ کی معاونت میں عمل

شق191 قاعد طریق کار

عدالت عظمیٰ کے ججوں کا تقرر:

آئین واضح طور پر بیان کرتا ہے:

ججوں کے تقرر کے لیے ضروری ہے کہ وہ:

  • پاکستان کا شہری ہواور کم از کم پانچ سال یا مختلف اوقات میں اتنی مدت عدالت عالیہ کا جج رہا ہو۔
  • کم از کم پندرہ سال یا مختلف اوقات میں اتنی مدت عدالت عالیہ کا ایڈوکیٹ رہا ہو۔

اس کے علاوہ ایڈ ہاک ججوں کا تعین چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کرتا ہے۔ جس کی منظوری صدر پاکستان کرتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے ججوں کو آئین کی رو سے ہی برطرف  یا نکالا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی تشکیل:

1997میں پارلیمنٹ نے قانون بنایا جس کے مطابق عدالت عظمیٰ 1 چیف جسٹس، 17 عدالت عالیہ کے ججز اور 2ایڈہاک  ججز جو وفاقی شرعی عدالت سے ہوں پر مشتمل ہوگی۔

عدالت عظمیٰ کے ججز 65 سال کی عمر میں ملازمت سے فارغ ہو جائے گیں یا وقت سے پہلے بھی ملازمت سے فارغ ہو سکتے ہیں یا انھیں برخاست کیا جا سکتا ہے جس کا آئین میں طریقہ کار وضع ہے۔

ذیلی دفاتر ترمیم

عدالت عظمیٰ پاکستان کی مرکزی عمارت پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں ہے۔

مزید یہ کہ صوبائی دار الخلافہ میں بھی اس کی شاخیں کام کر رہی ہیں


·      لاہور (پنجاب)

·      کراچی (سندھ)

·      کوئٹہ (بلوچستان)

·      پشاور (خیبرپختونخوا)

عدالت عظمیٰ کے قانونی مشیر اور وکلا ترمیم

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے اپنے قانونی مشیر اور وکلا ہو تے ہیں جن کا کام  تحقیق کرنا اوردائردرخواستوں کی نظر ثانی کرنا ہوتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی عمارت ترمیم

جاپانی معمار: کینزو ٹینج Kenzo Tange

عدالت عظمیٰ کی عمارت شارع دستور پر واقع ہے۔ اس کی حفاظت اسلام آبادپولیس کے پاس ہے۔ اس کا کل رقبہ 338،861 مربع فٹ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے احاطہ میں مین بلاک، ججز چیمبر اور انتظامی بلاک موجود ہے جو چیف جسٹس کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ میں لائبریری، کیفیٹیریا، میٹنگ حال،کانفرنس روم،لیکچر اڈیٹوریم بھی موجود ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احاطہ میں ایک میوزیم بھی ہے جس میں آزادی سے پہلے اور بعد کی عدالتی یادگاریں موجود ہیں۔

عدالت عظمیٰ کا قانونی دائرہ کار ترمیم

عدالت عظمیٰ پاکستان کی سب سے بڑی اور آخری عدالت ہے۔ قانون نے عدالت عظمیٰ کو کسی بھی غبن میں سو موٹو نوٹس کا حق دیا ہے خوا وہ سرکاری ہو یا نجی یا کوئی بھی ہو،آئین کے منافی کام ہو عدالت عظمیٰ اس کا نوٹس لے سکتی ہے۔

قابل سماعت درخواستیں ججوں تک پہنچتی ہیں اور اگر ججز چاہیں تو کیس کی سماعت خود کرتے ہیں یا کسی بھی عدالت کو رجوع کر سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ فیصلے ان کی ویب سائٹ پر شائع ہوتے ہیں اور سالانہ ایک رپوٹ بھی چھپتی ہے جسے قانونی ماہرین اپنے حوالوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انجمن برائے عدالت عظمیٰ ترمیم

عدالت عظمیٰ کی اپنی انجمن ہے جس کے عہدداران پورے پاکستان سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس انجمن کا کام ملک میں قانون کی پاسداری، وکلاءوججز  کے لیے کام کرنا ہے۔ انجمن کی اپنی ایک کونسل ہوتی ہے جس کے بشمول صدر22 ارکان  ہوتے ہیں۔ انھیں عدالت عظمیٰ کی لائبریری تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

توہین عدالت ترمیم

آئین عدالت عظمیٰ کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا عہد دار کے خالف عدالتی حکم نہ ماننے یا دیری کرنے پر توہین عدالت کے ضمر میں سزا سنا سکتی ہے جیسے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے کیس میں ہوا تھا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم

متناسقات: 33°43′41″N 73°05′55″E / 33.72806°N 73.09861°E / 33.72806; 73.09861{{#coordinates:}}: cannot have more than one primary tag per page