عصبون
(عصبونات سے رجوع مکرر)
بنیادی طور پر تو یوں کہ سکتے ہیں کے عصبی یا دماغی نظام کے خلیات کو عصبون کہا جاتا ہے مگر طبی لحاظ سے بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ دماغ میں صرف عصبون خلیات ہی نہیں پائے جاتے مزید اقسام کے خلیات بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے عصبون کی طبی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ؛ عصبون دراصل عصبی نظام میں پائے جانے والے ایسے خلیات کو کہا جاتا جو ھجان پیدا کرنے کے قابل یعنی excitable ہوتے ہیں۔ ان کو ان کو انگریزی میں neuron یا neurone بھی کہا جاتا ہے۔
- چند الفاظ
- واحد --- عصبون (neuron)
- جمع --- عصبونات (neurons)
- متبادلات
- عصبی خلیات (nerve cells)
- عصبی ریشے (nerve fibers)
آسان خلاصہ
ترمیم- آسان سے الفاظ میں تو یوں کہـ سکتے ہیں کہ عصبون یا دماغی خلیہ ایک ایسا خلیہ ہوتا ہے کہ جو دماغ میں پیدا ہونے والے احکامات کو جسم کے ان تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن سے کام لینا ہو۔ مثال کے طور پر اگر ایک ہاتھ کی کسی انگلی کو حرکت دیے کر قلم کو پکڑنا ہے تو دماغ سے اس کام کو انجام دینے کے لیے پیمامات عصبون کے لمبے تار نما خلیات سے ہوتے ہوئے انگلیوں کے عضلات (muscles) یا پٹھوں تک آتے ہیں اور ان دماغ کے ان احکامات کو پاکر انگلیاں مڑ کر قلم کو پکڑ لیتی ہیں۔ یہ پیغامات عام طور پر برقی شکل میں ہوتے ہیں۔
- اسی طرح عصبون ہی جسم کے تمام اعضاء سے اطلاعات لے کر دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر اگر ہمارا ہاتھ باورچی خانے میں چائے کی پیالی تیار کرتے ہوئے گرم گرم برتن سے چھو جائے تو ہم فورا ہاتھ کو جھٹک کر الگ کرلیتے ہیں۔ یہ بھی عصبون کا ہی کارنامہ ہے۔ عصبون یہ اطلاع کہ ہاتھ کسی بہت گرم چیز پر لگ گیا ہے، دماغ (یا مقامی عصبی مراکز) تک پہنچاتے ہیں اور ان کو پہچانتے ہوئے دماغ عصبون کے زریعئے ہاتھ کے پٹھوں کو حرکت کرکے گرم برتن سے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے۔
اقسام
ترمیمعصبون یا نیورون کے تین اقسام ہوتے ہیں، وہ تین اقسام درجہ ذیل ہیں:
- سنسری نیورون (sensory neurun ): یہ وہ نیورون ہوتے ہیں جو جسم کے مختلف حصوں سے پیغام لے کر مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور نخاعی طناب) تک پہنچاتے ہیں۔
- موٹر نیورون (motor neurun ): یہ وہ نیورون ہوتے ہیں جو مرکزی اعصابی نظام سے پیغام جسم کے مختلف حصوں تک پہنچاتے ہیں۔
- انٹرنیورون (Interneurun ): یہ وہ نیورون ہوتے ہیں جن سے مرکزی اعصابی نظام بنا ہوتا ہے، یہ پیغام وصول بھی کرتے ہیں اور پھر حالات کے مطابق موٹر نیورون کو حکم بھی دیتے ہیں۔