عطیہ ظفر سید
ڈاکٹر عطیہ ظفر پاکستان کی ان غیر معمولی خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے حقیقی معنوں میں اپنی زندگی سے اور اس معاشرے سے جہاد کیا اوراپنی محنت اور ذہانت سے اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا۔ ڈاکٹر عطیہ سید نہ صرف خود اعلیٰ طبی تعلیم پانے میں کامیاب ہوئیں بلکہ اپنے آٹھ بچوں کو بھی طب کی تعلیم دلوائی اور اسی روایت کو اگلی نسلوں میں منتقل کر کے اس خاندان کی بنیاد رکھی جو آج ڈاکٹروں کا خاندان کہلاتا ہے ۔
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | دیسنہ ، بہار، برطانوی ہندوستان |
وفات | 14 فروری 2014 کراچی، پاکستان |
شہریت | پاکستانی |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | کوہی گوٹھ ہسپتال |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمعطیہ خاتون المعروف ڈاکٹر عطیہ ظفر سید صوبہ بہار کے ایک دور افتادہ گاؤں دیسنہ میں پیدا ہوئیں۔ عطیہ خاتون ایک غیر معمولی خاتون تھیں، سات سال کی عمر میں یتیم ہو گئیں۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں لہذا ماں کی دل جوئی اور مددگاری میں وقت گزرنے لگا۔ گیارہ سال کی عمر میں گھر کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور تیرہ سال کی عمر میں سید ابو ظفر کا رشتہ آیا اور شادی ہو گئی، شادی کے بعد وہ پٹنہ آ گئیں۔ سسرال میں عطیہ خاتون کی سوتیلی ساس ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، انھوں نے عطیہ خاتون کے دل میں موجود پڑھنے لکھنے کی لگن کی حوصلہ افزائی کی۔ تقسیم ہند سے قبل ان کے شوہر ابو ظفر سید میونسپلٹی کے الیکشن میں ڈپٹی چئیرمین منتخب ہوئے وہ آل انڈیا کانگریس کے سرگرم رکن تھے۔ البتہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ انھوں نے اسی وقت ہندوستان اور سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا جب ان کے محترم استاد پروفیسر باری کو کانگرس حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا۔ لہذا ابو ظفر سید اپنی بیوی عطیہ ظفر اور دو بچوں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ عطیہ ظفر سید اپنے شوہر کے ساتھ لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں ہزاروں مہاجرین کی طرح جھگی ڈال کر رہنے لگیں۔ ان کے شوہر نے آتما رام پریتم داس روڈ پر غازی محمد بن قاسم اسکول کی داغ بیل ڈالی۔[1] ان کے شوہر ایف اے پاس تھے۔ لہذا اسکول کے ساتھ ساتھ شام کے وقت لوگوں کی درخواستیں اور خط ٹائپ کر کے معاشی گذر بسر کرنے لگے ۔
عطیہ ظفر اگرچہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کی بہت خواہاں تھیں لیکن شادی اور پھر بچوں کی پیدائش کے باعث یہ سلسلہ موقوف ہو چکا تھا۔ تاہم شیر شاہ اور چاند بی بی کی ولادت کے بعد انھیں اپنے شوہر سے اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ تعلیم مکمل کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے ادیب عالم /ادیب فاضل کے امتحانات کے ساتھ انگلش کا امتحان دے کر میٹرک کیا۔ ان کے شوہر نے ان کا رجحان دیکھا تو انھیں محض میٹرک کی بعد تدریس کرنے کی بجائے مزید تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کا مشورہ دیا۔ لہذا پورے ملک کے اسکولوں میں درخواستیں بھیجیں اور آخر کار مشرقی پاکستان میں سلہٹ کے میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا۔ ابوظفر سید انھیں تمام بچوں کے ساتھ سلہٹ میں ہی چھوڑ آئے اور خود کراچی میں اسکول کو سنبھالا۔ جبکہ عطیہ ظفر کی والدہ اور بہن نے ہندوستان سے آکر ان کے ساتھ وہاں قیام کیا تاکہ عطیہ ظفر اپنی تعلیم یکسوئی سے مکمل کر سکیں۔ عطیہ ظفر نے ساڑھے چار سال میں ایل ایس ایم ایف کا کورس مکمل کر لیا۔ اس کے بعد وہ کراچی آ گئیں ۔
اسی زمانے میں حکومت پاکستان نے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کے مطابق تمام ایل ایس ایم ایف ڈاکٹروں کو اس کا موقع دیا گیا کہ وہ میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں اور ایم بی بی ایس کے چوتھے پانچویں سال کا امتحان دے کرایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لیں۔ لہذا عطیہ ظفر سید کا ابتدائی طور پر داخلہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ہوا اور تین ماہ کے بعد ان کا ٹرانسفر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں کر دیا گیا۔ وہ جب چوتھے سال کا امتحان پاس کرکے پانچویں سال میں پہنچیں تو ان کے بڑے بیٹے ٹیپو سلطان کاداخلہ ڈاؤمیڈیکل کالج میں ہوا جہاں دونوں ماں بیٹا ایک سال تک ایک ہی کالج میں پڑھتے رہے۔ عطیہ ظفر سید نے ایم بی بی ایس کے بعد کراچی کے سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کیا اورلیاری میں ہی ایک کلینک کا آغاز کر دیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد عطیہ ظفر سید کوڈسٹرکٹ کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر نوکری مل گئی اور انھوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ملیر میں ہی ایک کلینک بھی شروع کردی۔ اس زمانے میں پورے ملیر اوراس کے نواح میں کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ جلد ہی وہ پورے علاقے میں مقبول ہوگئیں اورانہوں نے اپنے شفاخانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا میٹرنٹی ہوم کھول لیا جو آہستہ آہستہ بڑا ہوکر جنرل ہسپتال کی شکل اختیار کرگیا۔ آج وہ عطیہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عطیہ ہسپتال کو منظم کرنے لیے عطیہ ظفر سید نے جو ٹھوس عملی اقدامات کیے انہی کی بدولت آج عطیہ جنرل ہسپتال کی آمدنی کوہی گوٹھ ہسپتال کے مریضوں پر خرچ ہوتی ہے۔
سماجی خدمات
ترمیمڈاکٹر عطیہ ظفر سید نے ملیر، کراچی کے علاقے میں ایک چھوٹے سے کلینک کے آغاز کی صورت میں سماجی خدمت کا جو سلسلہ شروع کیا تھا۔ اب وہ ایک مستحکم ادارے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے تحت درج ذیل تربیتی ادارے کام کر رہے ہیں۔
عطیہ جنرل ہسپتال
ترمیماس ہسپتال کی بنیاد ڈاکٹر عطیہ ظفر سید نے ملیر، کراچی میں رکھی تھی۔ اور اسی کی توسیع میں کوہی گوٹھ پراجیکٹ اور کوہی گوٹھ ہسپتال قائم کیا گیا ہے۔
عطیہ اسکول آف پیرا میڈکس
ترمیمعطیہ اسکول آف پیرا میڈکس، کراچی میں مختلف النوع پیرامیڈکس سے متعلق تمام بنیادی ٹیکنیکی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں سے مستند ہیلتھ ورکر اور ٹیکنیشن تربیت پاتے ہیں۔ نصابِ تدریس انگلش اور اردو دونوں میں ہے۔ یہ اسکول عطیہ جنرل ہسپتال اور کوہی گوٹھ ہسپتال کی زیرِ نگرانی مصروفِ عمل ہے ۔
عطیہ اسکول آف مڈ وائفری
ترمیمعطیہ اسکول آف مڈ وائفری کو عطیہ جنرل ہسپتال اور جوہی گوٹھ ہسپتال کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اور یہاں مڈوائفری اسٹاف کی مستند تریننگ کی جاتی ہے۔
عطیہ اسکول آف نرسنگ
ترمیمنرسنگ کی مستند اور جدید تعلیم اور ٹریننگ کے لیے عطیہ اسکول آف نرسنگ قائم کیا گیا ہے۔ یہ اسکول عطیہ جنرل ہسپتال اور کوہی گوٹھ ہسپتال کے زیرِ انتظام مصروفِ عمل ہے ۔
یادش بخیر
ترمیمڈاکٹر شیر شاہ سید اپنی والدہ کی یاد میں لکھتے ہیں:
” | اماں ساری زندگی محنت کرتی رہیں، ان کے ابا کا خواب ان کا شوق بن گیا۔ وہ دسویں جماعت تک محدود نہیں رہیں جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے شوہربھی ان کی تعلیم چاہتے ہیں اور ہر قسم کی قربانی دینے کوتیار ہیں تو انھوں نے ان کے ہرکہے کواپنی زندگی کا جز بنالیا۔ آج یہ تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اماں کوپورا احساس تھا کہ تعلیم ہی عورت کا اصل زیو رہے۔ ساری زندگی میں نے انھیں کوئی زیورپہنا ہوا نہیں دیکھا۔ کبھی کبھار وہ عید کے موقع پر کانچ کی چوڑیاں پہن لیتی تھیں، ہاتھوں اورپیروں میں مہندی لگالیتی تھیں وہ صاف ستھرے سوتی گھر کے دھلے اورکلف لگے ہوئے ساری میں پُروقار لیڈی ڈاکٹر لگتی تھیں۔ انھیں میں نے کبھی کبھار مریضوں اور مریضوں کے شوہروں پرغصہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن زیادہ ترمریضوں سے ہمیشہ ہنس کرملتی تھیں۔ دور دراز کراچی کے دیہی علاقوں اورٹھٹہ میرپورساکرو سے آنے والے مریض ان کے لیے سبزیاں اورپھل لے کرآتے تھے، کراچی کے مچھلی فروشوں اورملاحوں کی بستی ریڑھی سے آنے والے مریض مچھلی اور جھینگے لے کرآتے، یہی ان کی فیس ہوتی تھی۔ ان کے مریض ان پر جان دیتے تھے، وہ کمیونٹی کی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ کمیونٹی ورکر تھیں۔
اماں کواندازہ ہو گیا تھا کہ تعلیم عورتوں کو خود مختار بنادیتی ہے وہ اورابا لڑکیوں کی تعلیم کے شدید حامی تھے، ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو ہر قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے، نوکری کرنی چاہئیے اورپیسے کمانے چاہئیں۔ پڑھی لکھی لڑکی نہ صرف یہ کہ اپنا خیال رکھتی ہے بلکہ اپنے پورے خاندان کو کھینچ کر اوپر لے آتی ہے۔ ابا اوراماں نے مل کرہم آٹھ بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنایا بلکہ خاندان کے کئی بچوں کو اس راہ پر لگایا اورخاص طور پر خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں کی لڑکیوں کو مواقع فراہم کیے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ گھر میں اورہسپتال میں کام کرنے والوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔ |
“ |
وہ مزید لکھتے ہیں
” | ہم سب بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنانے کے بعد اورہم سب کی شادیاں ڈاکٹروں سے کرانے کے بعد ابا اور اماں دونوں کی خواہش تھی کہ ہم لوگ ملیر کے علاقے میں ایک ایسا ہسپتال بنائیں جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوسکے۔ کرنا کچھ اس طرح سے ہوا کہ ملیر کے ایک گاؤں کو ہی گوٹھ میں ہم لوگوں نے زمین حاصل کرکے ایک عورتوں کا ہسپتال کھولا مگر اس ہسپتال کے کھلنے سے پہلے اور اس زمین کے حصول تک جب جب مسائل درپیش ہوئے میرے والد اوروالدہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ برے کام کرنے کو سب جمع ہوجاتے ہیں، اچھا کام کرنا مشکل ہے مگر آخر کار اچھائی کی ہی فتح ہوتی ہے، میں یہ بات کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں یہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا ہوں کہ سچائی اورایمانداری پر ان کا ایمان غیر متزلزل تھا وہ سچ کی طرح سادہ تھیں، ان کے مذہبی اعتقادات بھی سادہ تھے، وہ مالی طور پر مستحکم ہونے کے بعدبھی غریب تھیں مگر ان کادل بہت بڑا تھا جہاں سے وہ ساری زندگی پیار بانٹتی رہیں، ان کا دل کبھی بھی غریب نہیں ہوا۔ | “ |
وفات
ترمیم14 فروری 2014 کو ڈاکٹرعطیہ ظفر سید کا انتقال ہوا۔ ان کی آخری آرام گاہ کوہی گوٹھ ہسپتال میں ہے ۔[2][3]