ٹیپو سلطان

سلطنت خداداد میسور کے عظیم ترین سلطان جنھوں نے 1782ء سے 1799ء تک حکومت کی۔

ٹیپو سلطان (پیدائش: سلطان فتح علی صاحب ٹیپو: 20 نومبر، 1750ء - وفات:4 مئی، 1799ء) شیرِ میسور [7]سلطان حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند، جنہیں میسور کا شیر بھی کہا جاتا ہے [8] ,[9][10] [11] ریاست میسور کے حکمران تھے۔ ہندوستان کے اصلاح و حریت پسندحکمران، بین المذاہب ہم آہنگی کی زندۂ جاوید مثال، طغرق (فوجی راکٹ) کے موجد تھے۔ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دوران متعدد انتظامی اختراعات متعارف کروائیں، جن میں ایک نیا سکوں کا نظام اور کیلنڈر اور ایک نیا زمینی محصول کا نظام شامل تھا، جس کی وجہ سے میسور کی ریشم کی صنعت نے ترقی کا آغاز کیا۔ انہوں نے میسوری راکٹ اور فوجی دستہ فتح المجاہدین کو قائم کیا ۔[12] انہوں نے اینگلو میسور جنگوں کے دوران برطانوی افواج اور ان کے اتحادیوں کی پیش قدمی کے خلاف راکٹوں کو استعمال کیا۔[13]

ٹیپو سلطان
TipuSultan1790.jpg
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 نومبر 1750[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوانہالی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 مئی 1799 (49 سال)[3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرنگاپٹنا[6]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سرنگاپٹنا  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کرناٹک  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Flag of Mysore.svg سلطنت خداداد میسور  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سلطان حیدر علی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت خداداد میسور   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
10 دسمبر 1782  – 4 مئی 1799 
Fleche-defaut-droite-gris-32.png سلطان حیدر علی 
کرشنا راج وڈیار سوم  Fleche-defaut-gauche-gris-32.png
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  مصنف،  حاکم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی،  عربی،  کنڑ زبان،  ملیالم،  تیلگو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں اینگلو میسور جنگیں  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برطانوی عجائب گھر (برٹش میوزیم لندن) میں رکھی ہوئی ٹیپو سلطان کی تلوار پر شیر کا عکس اور نیچے ان کی انگوٹھی
جنگ میسور

ٹیپو سلطان اور ان کے والد نے اپنی فوج جوکہ فرانسیسی تربیت یافتہ تھے کو انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں فرانسیسیوں کے ساتھ اتحاد میں استعمال کیا۔ 1782ء میں حیدر علی کی کینسر سے موت کے بعد ٹیپو سلطان نے میسور کے حکمران کے طور پر ان کی جگہ لی۔ انہوں نے دوسری اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کے خلاف اہم فتوحات حاصل کیں اور منگلور کے 1784ء کے معاہدے پر بات چیت کی جس کے ساتھ، دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ ہوا۔[14]

ٹیپو سلطان برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک ناقابل تسخیر دشمن رہے ، جس نے 1789ء میں برطانوی اتحادی ٹراوانکور پر اپنے حملے کے ساتھ تنازعات کو جنم دیا اور تیسری اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کو سرینگا پٹم کے معاہدے پر مجبور کیا جس سے انگریزوں کو پہلے فتح کیے گئے متعدد علاقوں کو کھونا پڑا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ ، افغانستان اور فرانس سمیت غیر ملکی ریاستوں میں سفیر بھیجے تاکہ برطانیہ کی مخالفت کو اکٹھا کیا جاسکے۔ [15]چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کی ایک مشترکہ قوت، جس کی حمایت مراٹھوں اور نظام حیدرآباد نے کی تھی جس میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی۔ اوروہ 4 مئی 1799ء کو اپنے سرنگا پٹم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔[16]

طفولیتترميم

ٹیپو سلطان 20 نومبر، 1750ء (بمطابق جمعہ 20 ذوالحجہ، 1163ھ ) کو دیوانہالی تغلق خاندان میں پیدا ہوئے۔[17]موجودہ دور میں یہ بنگلور دیہی ضلع کا مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر (21 میل) شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر ہے۔ اسے اپنے دادا فتح محمد نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سیاسی امور میں اسے نوعمری میں ہی شامل کیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا۔ اسے اپنے والد حیدر علی جو جنوبی ہند کے سب سے طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔[18][19][20]

ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔

ٹیپو سلطان کا قول تھا:[21]

شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔

 
ٹیپو سلطان کی انگوٹھی سے مشابہ

ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔[22]

انداز حکمرانیترميم

ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی۔ وہ مذہبی تعصب سے پاک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا۔ حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے تھے۔ با وضو رہنا اور تلاوتِ قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے تھے۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔[23]ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔[24]

علم دوست حکمرانترميم

ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔[25]

ٹیپو سلطان کے کارنامےترميم

ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔ پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ [26] اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتیٰ کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔ سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کو ۲۲ فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے ۱۷۹۶ء میں امراء البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت ۳۰؍امیر البحر تھے۔[27] بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہازسازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔[28]

عدل و انصاف کا معیارترميم

ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویداد پر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاؤں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کر رکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔[29]

اردو اخبار کا بانیترميم

ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔[30]

ٹیپو سلطان کی تجارتی پالیسیترميم

ٹیپو سلطان نے اپنے دور حکومت میں زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں اور کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔[31] زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کر دیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔[32] اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعد ٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔[33]

میسور میں خوشحالیترميم

ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریز جب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے:[34]

’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اور فوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘

عظیم سپہ سالارترميم

ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کی بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔[35]

اینگلو میسور جنگیںترميم

اینگلو میسور جنگیں ہندوستان میں اٹھارویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جنگوں کا ایک سلسلہ تھا۔ چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور ختم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔

پہلی اینگلو میسور جنگترميم

پہلی اینگلو میسور جنگ (First Anglo-Mysore War) (1767–1769) سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی پہلی جنگ تھی۔ یہ جنگ جزوی طور پر نظام حیدر آباد آصف جاہ ثانی کی کمپنی کی توجہ ریاست حیدرآباد کے شمالی علاقوں سے ہٹانے کی ایک سازش تھی۔

دوسری اینگلو میسور جنگترميم

دوسری اینگلو میسور جنگ (Second Anglo-Mysore War) امریکی انقلابی جنگ کے دوران سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی دوسری جنگ تھی۔ اس وقت مملکت فرانس میسور کی اہم اتحادی تھی۔[36][37]

تیسری اینگلو میسور جنگترميم

تیسری اینگلو میسور جنگ (Third Anglo-Mysore War) سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے اتحادیوں مراٹھا سلطنت[38] اور نظام حیدر آباد مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی تیسری جنگ تھی۔تیسری اینگلو میسور جنگ نے ٹیپو کو اپنا نصف علاقہ کھونے پر مجبور کردیا ۔ اس کے نتیجے میں ، اس کی آمدنی کم ہوگئی۔ [39]

 
تیسری اینگلو میسور جنگ کے بعد ٹیپو سلطان کے فرزندان کو بطورِ یرغمال کورنوالِس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

چوتھی اینگلو میسور جنگترميم

 
چوتھی اینگلو میسور جنگ اور ٹیپو سلطان کی شہادت

میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔[40]

ٹیپو سلطان کا خط نظام الملک کے نامترميم

میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔[41]

جناب عالی!

آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں، اور میری فوج اور علاقے کے ہر محبِ وطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔

اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔

اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان۔[42]

علامہ اقبال کی نظر میںترميم

شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی۔ 1929ء میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے فرمایا:[43]

ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کہ اس مقصد کی راہ میں شہید ہو گیا۔

علامہ اقبال کی ایک نظم ٹیپو سلطان کی تعریف میںترميم

علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں سلطان ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے۔[44]

تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

سیماب اکبرآبادی کی ایک نظم ٹیپو سلطان کی تعریف میںترميم

سیماب اکبرآبادی نے مندرجہ ذیل نظم کے ذریعے خراج عقیدت پیش کی ہے۔[45]

اے شہید مرد میدان وفا تجھ پر سلام
تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا
اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا
آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھو دیا
بت پرستوں پر کیا ثابت یہ تو نے جنگ میں
مسلم ہندی قیامت ہے حجازی رنگ میں
عین بیداری ہے یہ خواب گراں تیرے لیے
ہے شہادت اک حیات جاوداں تیرے لیے
تو بدستور اب بھی زندہ ہے حجاب کور میں
جذب ہو کر رہ گیا ہستی پر شور میں

انگریزوں کے ہاتھوں شہادتترميم

 
ٹیپو سلطان کا مقام شہادت

ٹیپو سلطان 4 مئی، 1799ء میں سرنگا پٹم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اور دوران قرآن كى آیت پڑھتے ہوئے، ان کی شہادت ہوئی۔[46][47][48] انہیں اگلی دوپہر گماز میں اپنے والد کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔ جب انگریزوں نے شہر کی دیواریں توڑ دیں تو فرانسیسی فوجی مشیروں نے ٹیپو سلطان کو خفیہ راستوں سے فرار ہونے اور باقی جنگیں دوسرے قلعوں سے لڑنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔[49]

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے 60,000 سے زیادہ سپاہی تھے، تقریباً 4000 یورپی اور باقی ہندوستانی؛ جبکہ ٹیپو سلطان کی افواج کی تعداد صرف 30,000 تھی۔ انگریزوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ٹیپو سلطان کے وزیروں کی طرف سے دھوکہ اور انگریزوں کے لیے آسان راستہ بنانے کے لیے دیواروں کو کمزور کرنا۔[50][51] ٹیپو سلطان کی موت نے برطانوی جنرل ہیرس کو "اب ہندوستان ہمارا ہے" کہنے پر مجبور کیا۔ [52]

ٹیپو سلطان کا مقبرہترميم

ٹیپو سلطان کا مقبرہ گنبد میں واقع ہے، جس میں ٹیپو سلطان، ان کے والد حیدر علی، اور ان کی والدہ فخر النساء کی قبریں موجود ہیں۔ اسے ٹیپو سلطان نے اپنے والدین کی قبروں کے لیے بنایا تھا۔ انگریزوں نے ٹیپو کو 1799ء میں سری رنگا پٹنہ کے محاصرے میں ان کی موت کے بعد یہاں دفن کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ [53] [54]

بحری قوتترميم

پورے ہندوستان میں سلطنت خدا داد کے حکمران حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہی کو اولیت حاصل رہی کی اس پورے ملک میں بحری طاقت کا استعمال اور اہمیت کو سمجھا،اس وجہ سے سلطان ٹیپو نے قدرتی بندرگاہوں میں نہ صرف توسیع کرائی بلکہ ساحلوں پر حفاظتی انتظامات کیے سلطان نے اپنی زندگی میں اور نگرانی میں بیس بڑے اور بتیس چھوٹے جہاز تیار کروائے، بڑے بڑے جہازوں پر 72 توپیں نصب کی جا سکتی تھی کے علاؤہ 66 جہاز اور تھے جو غیر مسلح جہاز تھے،اس کے علاؤہ تھے۔[55]

بحری قوت
جہاز لمبائی تعداد
پہلا جہاز 110 فٹ 3
دوسرا جہاز 104 فٹ 1
تیسرا جہاز 105 فٹ 2
  • 110 فٹ 3 جہاز
  • 104 فٹ 1 جہاز
  • 105 فٹ 2 جہاز
  • 95 اور 70 فٹ کے 3 جہاز
  • 60 ، 112 اور 65 فٹ کے 1 1 جہاز[56]

نگار خانہترميم

متفرقاتترميم

مذہبی عدم رواداری کا الزامترميم

2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت بر سر اقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد نواب حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کاالزام عائد کیا جانے لگا۔ نومبر، 2015ء میں کرناٹک کی بر سر اقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پُرتشدد چھڑپیں ہوئی۔ یہ دعوٰی کیا گیا کہ اس میں مقامی قائد ڈی ایس کُٹپا کی موت ہو گئی۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک بیس فٹ اونچی دیوار سے گرکر فوت ہو گئے۔ چھڑپوں میں ایک مسلم شخص ہلاک ہو گیا۔[57]

ٹیپو سلطان جینتیترميم

ٹیپو سلطان کے سیکولر کردار اور تحریک آزادی میں کردار کے اعتراف میں ہر سال نومبر میں کرناٹک میں وہاں کا محکمہ ثقافت ٹیپو سلطان جینتی مناتا تھا۔ تاہم 2019ء بی ایس یدی یورپا کی بی جے پی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان تقاریب کے بند کرنے کا اعلان اسی سال جولائی کے مہینے میں کر دیا گیا۔ باوجود اس کے عوامی سطح پر ہر سال 10 نومبر کو ٹیپو سلطان جینتی اور 4 مئی کو ٹیپو سلطان کا یوم شہادت بڑی عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ [58]

فورٹ ولیم کالج کا یوم تاسیسترميم

اردو کے ممتاز ادیب، صحافی اور دانش وَر سیّد سبطِ‌ حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی، گورنر جنرل (1798۔ 1805ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یومِ تاسیس 24 مئی (یا 4 مئی) 1800ء تصوّر کیا جائے۔ کیوں کہ وہ دن سلطان ٹیپو کے دارُالحکومت سرنگاپٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔[59]

مزید دیکھےترميم

بیرونی روابطترميم

حوالہ جاتترميم

  1. https://books.google.com.pk/books?hl=fr&id=hkbJ6xA1_jEC
  2. عنوان : History of Tipu sultan — صفحہ: 6 — ISBN 81-87879-57-2
  3. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Tippu-Sultan — بنام: Tippu Sultan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  4. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6qz2qk2 — بنام: Tipu Sultan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/tipu — بنام: Tipu — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. مختصر مصنف نام: Mohibbul Hasan — عنوان : History of Tipu SultanISBN 81-87879-57-2
  7. Hasan، Mohibbul (2005). History of Tipu Sultan (بزبان انگریزی). Aakar Books. ISBN 978-81-87879-57-2. 
  8. "Tipu Sultan's 216th death anniversary: 7 unknown facts you should know about the Tiger of Mysore : Listicles: Microfacts". Indiatoday.intoday.in. 4 May 2015. 16 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2015. 
  9. "Rewriting History: How I Discovered the True Birth Date of Tipu Sultan". News18 (بزبان انگریزی). 2021-07-19. اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2021. 
  10. Olikara، Nidhin G. (28 August 2021). "New light on Tipu Sultan". Frontline (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2021. 
  11. Cavendish، Richard (4 May 1999). "Tipu Sultan killed at Seringapatam". History Today. 49 (5). اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2013. 
  12. Narasimha، Roddam (27 July 2011). "Rockets in Mysore and Britain, 1750–1850 A.D." (PDF). National Aeronautical Laboratory and Indian Institute of Science. 27 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ. 
  13. Sen، Sailendra Nath (1995). Anglo-Maratha Relations, 1785-96 (بزبان انگریزی). Popular Prakashan. ISBN 9788171547890. 
  14. Beatson، Alexander (1800). "Appendix No. XXXIII". A View of the Origin and Conduct of the War with Tippoo Sultaun. London: G. & W. Nichol. صفحات ci–civ. 09 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ. 
  15. Ian Coller (2020). Muslims and Citizens:Islam, Politics, and the French Revolution. صفحہ 31. 
  16. Sanjay Subrahmanyam (2017). Europe's India: Words, People, Empires, 1500–1800. Harvard University Press. ISBN 9780674977556. 
  17. "Tareekh e Pakistan - Birth of Tipu Sultan (ٹیپو سلطان کی پیدائش) | Online History Of Pakistan". www.tareekhepakistan.com. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  18. Haroon, Anwar (June 2013). Kingdom of Hyder Ali and Tipu Sultan. صفحہ 95. ISBN 9781483615349. 
  19. Wenger، Estefania (March 2017). Tipu Sultan: A Biography. صفحہ 4. ISBN 9789386367440. 
  20. "The Sultan of Mysore – Tipu Sultan". Karnataka.com. اخذ شدہ بتاریخ 07 اگست 2019. 
  21. شاہنواز، شاہد (2020-05-04). "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ٹیپو سلطان". MM NEWS URDU (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  22. "The history of South India is relatively unknown: Rajmohan Gandhi". Business Standard India. 9 December 2018. 
  23. "شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کے کارنامے". darululoom-deoband.com. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  24. "اگر آپ نے یہ نہیں پڑھا تو آپ نہیں جانتے ٹیپو سلطان کیا تھے؟؟؟؟". Times of Taj (بزبان انگریزی). 2023-03-31. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  25. Idress، Doctor (2023-04-01). "اگر آپ نے یہ نہیں پڑھا تو آپ نہیں جانتے ٹیپو سلطان کیا تھے؟؟؟؟". Welcome To Dua Online News (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  26. "آں شہیدانِ محبت را امام". Hamariweb.com Articles (بزبان انگریزی). 2018-05-03. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  27. Udin، Ghias (2012-05-16). "ٹیپو سلطان شہید اور انتظامِ ریاست". IRAK (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  28. علیگ، شاہد صدیقی (2020-11-20). "ایک عظیم مجاہد: شیر میسور ٹیپو سلطان، یومِ ولادت کے موقع پر خصوصی پیش کش". Qaumi Awaz. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  29. "Account Suspended". ur.nayasavera.net. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  30. Mughal، Dr Shahid (2014-09-03). "ٹیپو سلطان". InfoMazza.com (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  31. جاوید، حافظ محمد اقبال (2018-05-04). "سلطان ٹیپو ایک غیرت مند شہید حکمران". dailypakistan.com.pk. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  32. "ٹیپو سلطان شہیدؒ". Nawaiwaqt. 2019-05-03. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  33. "شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے". جہازی میڈیا. 2020-05-09. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  34. جاوید، حافظ محمد اقبال (2018-05-04). "سلطان ٹیپو ایک غیرت مند شہید حکمران". dailypakistan.com.pk. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  35. "شیر میسور ٹیپو سلطان کی جنگی سپاہ". روزنامہ جرأت. 2017-05-03. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  36. Fortescue، John William (1902). A history of the British army, Volume 3. Macmillan. صفحات 431–432. 
  37. "The Tiger and The Thistle – Tipu Sultan and the Scots in India". nationalgalleries.org. 11 نومبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ. 
  38. Wenger، Estefania (1 March 2017). Tipu Sultan: A Biography (بزبان انگریزی). Vij Books India Pvt Ltd. ISBN 978-93-86367-44-0. 
  39. Sen، Sailendra Nath (1994). Anglo-Maratha Relations, 1785-96 (بزبان انگریزی). Popular Prakashan. ISBN 978-81-7154-789-0. 
  40. "شیر میسور ٹیپو سلطان". Nawaiwaqt. 2018-05-03. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  41. "ٹیپو (2) ،عظیم مسلم مجاہدین آزادی جنہیں بھلادیا گیا". اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  42. مردِ حریت سلطان ٹیپو، ڈاکٹر وائی، یس، خان ، بنگلور، صفحہ: 176 ناشر: کرناٹک اردو اکادمی بنگلور
  43. "ٹیپو سلطان اورعلامہ اقبال کا خراج تحسین Yes Urdu - Overseas Urdu News". Yes Urdu - Overseas Urdu News (بزبان انگریزی). 2018-05-04. اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2023. 
  44. کلیات اقبال، پرویز بک ڈپو، دہلی
  45. Tipu Sulatan (A Life History), Mohyammed Ilyas Nadvi Bhatkali, Institute of Objective Studies, New Delhi,2009,p.204
  46. Francis، P. Sempa. "Wellington in India: A Great Commander in Embryo". thediplomat.com. اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2020. 
  47. Sunderlal، Pandit (2018). How India Lost Her Freedom. SAGE Publications. صفحہ 364. ISBN 978-93-5280-642-3. اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2022. 
  48. "Tipu, the Citizen-Sultan and the Myth of a Jacobin Club in India". The Wire. 
  49. Zachariah، Mini Pant (7 November 2010). "Tipu's legend lives on". The Hindu. 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2013. 
  50. Sunderlal، Pandit (2018). How India Lost Her Freedom. SAGE Publications. صفحہ 364. ISBN 978-93-5280-642-3. اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2022. 
  51. Mohammad Moienuddin (2000). Sunset at Srirangapatam: After the Death of Tipu Sultan. Sangam Books. ISBN 978-0-86311-850-0. OCLC 48995204. 
  52. "Everything about Srirangapatna! Gumbaz". 2010. اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015. 
  53. Naryana، Hari (9 October 2010). "Srirangapatna – Gumbaz". India That Was ~ A Legacy Unfolded. اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015. 
  54. "juraat.com/04/05/2017/14157". 
  55. بہ حوالہ ٹیپو سلطان صفحہ 333
  56. "Tipu Sultan row: Madikeri tense as locals blame 'outsiders' for clash". The Indian Express (بزبان انگریزی). 2015-11-12. اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2023. 
  57. "Yediyurappa govt cancels Tipu Jayanti celebrations in Karnataka, cites protests to call off event". India Today (بزبان انگریزی). اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2023. 
  58. ڈیسک، ویب (2021-09-26). "فورٹ ولیم کالج کے یومِ تاسیس کا سلطان ٹیپو شہید سے کیا تعلق تھا؟ -". ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar. اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2023.