لفظ عظیم تر اسرائیل یا سرزمین کامل اسرائیل، (عبرانی: ארץ ישראל השלמה[1][2]) ایک اظہار خواہش ہے، جس کے بے شمار مذہبی اور سیاسی پہلو ہیں۔ بعض اوقات یہ لفظ تورات میں مذکور سرزمین موعود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ وقت میں اس کی سادہ ترین سیاسی تشریح ملک اسرائیل اور سرزمین فلسطین کی تمام حدود ہیں۔

جبکہ مذہبی محاذ پراس موضوع کے مدعی ان آیات پیدایش 15: 18 تا 15 :21 کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں:

اِس وجہ سے اُس دِن خداوند نے ایک وعدہ کر کے اَبرام سے ایک معاہدہ کر لیا۔ اور خداوند نے اُس سے کہا کہ میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا۔ میں اُن کو دریائے مصر سے دریائے فرات تک کے علاقے کو دوں گا۔ یہ فینیوں کا، قینزیوں کا، قدمونیوں کا، اور حِیتیوں کا، فِریّزیوں کا، رفائیم کا، اموریوں کا، کنعانیوں کا، جِرجاسیوں کا، اور یبوسیوں کا ملک ہے۔

اور وہ ان آیات اور ان سے اخذ کردہ مفہوم سے معلوم شدہ حدود کو نیل سے فرات تک کے وعدے کا نام دیتے ہیں۔ جو ان (یہودیوں) سے کیا گیا۔ جب کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ یہ وعدہ صرف یہودی قوم سے نہیں کیا گیا تھا کیونکہ یہودی بنی اسرائیل کے بارہ میں سے ایک قبیلے سے ہیں اور بنی اسرائیل قوم اسحاق کے دو میں سے ایک قبیلے سے ہیں اور قوم اسحاق آل ابراہیم کے آٹھ قبیلوں میں سے ایک ہے۔ تو وہ وعدہ خدا نے نیل سے فرات تک کا آل ابراہیم سے کیا تھا نہ کہ صرف یہودی قوم سے۔

اور وہ جو تورات اور قرآن[3] میں قوم اسرائیل (صرف یہودیوں سے نہیں) سے وعدہ کیا گیا ہے سرزمین موعود کا وہ صرف زمین کا ایک مختصر ٹکڑا نیل سے فرات تک کا ہے۔

سرزمین موعود کی حدود کا کامل تعین گنتی 34 و حزقی ایل 47 ہو چکا ہے۔ جو نیل و فرات اور موجودہ اسرائیل کی نسبت کم تر ہیں۔[4]


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Jerusalem Dispatch: Stripped[مردہ ربط]، Yossi Klein Halevi, The New Republic, اگست 26 2005
  2. "Imperial Israel: The Nile-to-Euphrates Calumny"، by Daniel Pipes
  3. قرآن 5:21
  4. en:Image:Map Land of Israel.jpg