علاء الدین خلجی کی فتح ملتان
نومبر سنہ 1296ء میں سلطنت دہلی کے فرماں روا علاء الدین خلجی نے ملتان فتح کرنے کے لیے اپنا لشکر روانہ کیا۔ اس لشکر کشی کا اصل مقصد پیشرو سلطان جلال الدین خلجی کے بقید حیات ارکان خاندان کو ختم کرنا تھا۔ علاء الدین خلجی جلال الدین کو قتل کروا کر تخت سلطنت پر متمکن ہوئے تھے اور اب چاہتے تھے کہ اس خاندان کا ایک بھی فرد اس قابل نہ رہے کہ وہ ان کے سامنے تخت کے حصول کے لیے کھڑا ہو سکے۔ ملتان کے حاکم جلال الدین خلجی کے بڑے فرزند ارکلی خان تھے۔ علاء الدین کے سالاروں الغ خان اور ظفر خان نے تقریباً دو ماہ شہر کا محاصرہ جاری رکھا۔ اس عرصے میں ارکلی خان کے افسران بھی علائی لشکر سے جا ملے۔ بالآخر جلال الدین خلجی کے خاندان کے باقی ماندہ افراد قید کر لیے گئے جن میں سے کچھ کی آنکھوں میں بعد میں سلائی پھیر دی گئی اور کچھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پس منظر
ترمیمعلاء الدین خلجی اپنے خسر جلال الدین خلجی کو قتل کرکے سلطنت دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے تھے۔ ملتان جو دلی کے شمال مغرب میں موجود خطہ پنجاب کا ایک شہر تھا، وہاں جلال الدین خلجی کے افراد خاندان قیام پزیر تھے بلکہ ملتان شہر خود ان کے بڑے فرزند ارکلی خان کے زیر نگین تھا۔[1] جلال الدین کی بیوہ (سابقہ ملکہ جہاں) اور چھوٹے صاحبزادے رکن الدین ابراہیم بھی دہلی سے بھاگ کر یہیں پناہ لیے ہوئے تھے۔ چنانچہ دلی پر قبضہ مکمل ہونے کے بعد سلطان علاء الدین خلجی نے فیصلہ کیا کہ ملتان فتح کرکے سابق سلطان کے افراد خاندان کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ تخت سلطنت کا کوئی مضبوط دعویدار باقی نہ رہے۔[2]
نتیجہ
ترمیمملتان پر قبضہ کر لینے کے بعد الغ خان اور ظفر خان قیدیوں کے ساتھ دلی روانہ ہوئے۔[3] ابھی یہ قافلہ راستے ہی میں تھا کہ سلطان علاء الدین نے دلی سے نصرت خان جلیسری کو یہ ہدایت دے کر بھیجا کہ قیدیوں کو سزا دے کر ہانسی میں قید کر دیا جائے۔ نصرت خان برق رفتاری سے روانہ ہوئے اور ابوہر کے مقام پر اس قافلے کو جاپکڑا۔ ہدایات سلطانی کے بموجب جلال الدین کے فرزندوں ارکلی خان اور رکن الدین ابراہیم کو اندھا کرکے انھیں ہانسی میں قید کر دیا گیا، نیز ان کے وفادار افسران الغو اور ملک احمد چپ کو بھی اندھا اور ارکلی خان کے بیٹوں کو مار دیا گیا۔ جبکہ جلال الدین کی بیوہ اور حرم کی دوسری خواتین کو احمد چپ کے ساتھ دلی لاکر انھیں نصرت خان کے گھر نظر بند کر دیا گیا۔[3] فتح ملتان کے بعد سلطان علاء الدین نے نصرت خان کو اپنا وزیر مقرر کر لیا تھا۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992, p. 331.
- ↑ Kishori Saran Lal 1950, p. 79.
- ^ ا ب پ Kishori Saran Lal 1950, p. 80.
کتابیات
ترمیم- Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180
- Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335