علی بن ابراہیم قمی
سانچہ:خانہ معلومات راوی علی بن ابراہیم قمی، شیعہ امامیہ مذہب کے فقیہ اور مفسر ہیں جو امام ہادی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ انھوں نے بہت سے اپنے آثار چھوڑے ہیں۔ تفسیر قمی کے نام سے ان کی روائی تفسیر اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔
زندگی نامہ
ترمیمعلی بن ابراہیم قمی کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے تیسری صدی کے اواخر اور چوتھی صدی کے اوائل میں زندگی گزاری ہے۔[1] بعض نے ان کی وفات کا سن 285 ھ ذکر کیا ہے۔[2] لیکن اس کا درست ہونا مشکل ہے کیونکہ آقا بزرگ تہرانی نے حمزہ بن محمد بن احمد کے خط کی تاریخ کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ 308 ھ میں زندہ تھے۔[3] جبکہ شاہرودی نمازی نے اوائل کافی کے حوالے سے ان کا سنہ وفات 307 ھ ذکر کیا ہے۔[4]اس وقت قم میں مدرسۂ گلپایگانی کے سامنے غدیر مارکیٹ میں ان سے منسوب مزار موجود ہے۔ ان کی کنیت ابو الحسن ذکر ہوئی ہے۔[5]ابن حجر نے انھیں محمدی کے لقب سے یاد کیا ہے۔[6]
ان کے والد ابراہیم بن ہاشم شیعہ محدثین میں سے تھے۔
ابراہیم بن ہاشم نے کوفہ سے قم ہجرت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے قم میں احادیث اہل بیت (ع) کی نشر و اشاعت کی اور انھیں امام رضا (ع) سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہے۔[7]علی بن ابراہیم کے بیٹے یعنی احمد، ابراہیم و محمد اور ان کے بھائی اسحاق بن ابراہیم یہ سب بھی اپنے زمانے کے عالم دین تھے۔[8]
شیعہ ائمہ کا دیدار
ترمیمشیعہ روائی اور رجالی منابع میں علی بن ابراہیم کا نام اصحاب حضرت امام ہادی(ع) میں مذکور ہوا ہے۔[9] علی بن ابراہیم نے امام علی نقی (ع) کے علاوہ امام حسن عسکری (ع) اور غیبت صغری میں زندگی گزاری ہے۔ نیز امام علی رضا (ع) سے ان کی ملاقات بھی منقول ہے۔ علی بن ابراہیم قمی کے ائمہ کے صحابی ہونے کے باوجود شیعہ معتبر منابع میں ان سے منقول کوئی بھی روایت امام ہادی اور دیگر ائمہ معصوم (ع) سے مستقیم نقل ہونے کی بجائے ہمیشہ واسطے کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ آیت اللہ خوئی معتقد ہیں کہ ائمہ سے مستقیم روایت نقل نہ ہونا ان کے صحابی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے۔
علمی مقام
ترمیمعلی بن ابراہیم کی زیادہ شہرت حدیثی آثار میں روایات نقل کرنے میں ہے۔ ان کے اکثر آثار حدیثی ہیں۔ ان کی ائمہ سے منقول روایات تفسیر، فقہ اور دیگر مقامات میں ذکر ہوئی ہیں۔ علم رجال کے ماہرین انھیں ثقہ (روایت نقل کرنے میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے) قرار دیتے ہیں۔[10] ان کا نام بہت سی شیعہ اسناد میں آیا ہے۔[11] اور بہت سے معتبر راویوں نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[12] کلینی نے اپنے معتبر ترین منبع میں سات ہزار (7000) سے زیادہ روایتیں ان سے نقل کی ہیں۔[13] علی بن ابراہیم نے بہت سے اساتید سے روایات سنیں اور بہت سے شاگردوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان کے اساتید میں سے ان کے والد ابراہیم بن ہاشم قمی بھی تھے کہ جو شیعہ محدثین کے نزدیک نہایت عظمت کے مالک ہیں۔[14] بعض منابع نے علی بن ابراہیم کے 48 استاد اور 23 شاگرد ذکر کیے ہیں۔ محمد بن یعقوب کلینی اور علی بن بابویہ قمی (شیخ صدوق کے والد) ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔[15]
اساتید
ترمیمعلی بن ابراہیم کے چند اساتید کے اسمائے گرامی:
- والد: ابراہیم بن ہاشم
- بھائی: اسحاق بن ابراہیم بن ہاشم
- محمد بن عیسی
- احمد بن محمد بن خالد برقی
- ایوب بن نوح
- احمد بن اسحاق بن سعد
- احمد بن محمد
- اسماعیل بن محمد ملکی
- حسن بن محمد
- حسن بن موسی الخشاب
شاگرد
ترمیم- محمد بن یعقوب کلینی
- قاسم بن محمد
- احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی
- حسن بن حمزه علوی
- محمد بن موسی بن متوکل
اقوال علما
ترمیم- نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علی بن ابراہیم روایات نقل کرنے میں قابل اطمینان اور ثابت الایمان شخص ہیں کہ جن کا عقیدہ اور مذہب درست ہے۔ انھوں نے شیعہ مشائخ سے کثرت سے روایات سنی اور نقل کی ہیں۔
- طبرسی لکھتے ہیں: علی بن ابراہیم بزرگ ترین شیعہ راوی ہیں جنھوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں زندگی بسر کی ہے۔ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب کافی میں ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
- ابن حجر: علی بن ابراہیم ابو الحسن محمدی رافضی تھا۔ ابو جعفر طوسی نے اس کی تصنیفات ذکر کی ہیں۔ نیز محمد بن اسحاق ندیم نے فہرست میں تفسیر، ناسخ و منسوخ، مغازی اور شرائع نام کی کتابیں ذکر کی ہیں۔[17]
آثار
ترمیمعلی بن ابراہیم نے بہت سی تصنیفات چھوڑی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے:
التفسیر، علی بن ابراہیم کی مشہور ترین کتاب ہے کہ جو تفسیر قمی کے نام سے معروف ہے۔ یہ تفسیر روائی کے اسلوب میں اس طرح لکھی ہے کہ اہل بیت سے منقول روایات میں کسی قسم کا اپنا اجتہاد کیے بغیر ذکر کی ہیں۔ اس کتاب کی اکثر روایات اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے نقل کی ہیں۔ گذشتہ زمانے سے لے کر آج تک یہ تفسیر قدیمی ترین اور اہم ترین شیعہ تفسیر میں سے جانی جاتی ہے۔ یہ تفسیر دو جلدوں میں چاپ ہوئی ہے۔
دیگر آثار
ترمیم- کتاب الناسخ والمنسوخ
- کتاب قرب الاسناد
- کتاب الشرائع
- کتاب الحیض
- کتاب التوحید والشرک
- کتاب فضائل امیر المومنین علیہ السلام
- کتاب المغازی
- کتاب الانبیاء
- کتاب المشذر
- کتاب المناقب
- کتاب اختیار القرآن.[19]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص1776.
- ↑ اسماعيل باشا البغدادی، ہديۃ العارفين،1/678،ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 5/210/981،ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان
- ↑ شیخ علی نمازی، مستدرک علم رجال الحدیث،5/278/9560، چاپخانہ: حيدري - طہران
- ↑ علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال187/45۔
- ↑ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
- ↑ طوسی، الفہرست، ص36.
- ↑ فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص1776.
- ↑ طوسی، الابواب، ص390.
- ↑ علامہ حلی، خلاصۃ الأقوال، ص 187؛ طوسی، الفہرست، ص 152 و 153؛ نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، ص 260
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج12، ص213.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ج12، ص214.
- ↑ سبحانی، تذکرة الاعیان، ص283.
- ↑ نک: سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ص310.
- ↑ فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص1776.
- ↑ فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص1776.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
- ↑ اسماعیل باشا بغدادی، ہدیۃ العارفین،1/678۔
- ↑ طوسی، الفہرست، ص152؛ قمی، تفسیر القمی، مقدمہ المصحح، ص8.
مآخذ
ترمیم- آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان
- ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
- اسماعيل باشا البغدادی، ہديۃ العارفين، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان
- خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بیجا، 1413ق.
- سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، موسسہ نشر اسلامی، قم، 1414ق.
- سبحانی، جعفر، تذکرة الاعیان، موسسہ امام صادق (ع)، قم، 1419ق.
- طوسی، الابواب (رجال الطوسی)، موسسہ نشر اسلامی، قم، 1415ق.
- شیخ علی نمازی، مستدرک علم رجال الحدیث، چاپخانہ : حيدري - طہران
- طوسی، الفہرست، موسسہ نشر اسلامی، قم، 1417ق.
- نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ (رجال النجاشی)، موسسہ نشر اسلامی، قم، 1416ق.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح و تعلیق و تقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، قم: مؤسسہ دار الکتاب للطباعہ والنشر، 1404ق.
- فعال عراقی، حسین، «قمی، علی بن ابراہیم»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہاء الدین خرمشاہی، ج2، تہران: دوستان-ناہید، 1377ش.