محمد بن یعقوب کلینی

شیعوں کے سب سے بڑے فقیہ اور راویِ حدیث

ابوجعفر محمد ولد يعقوب کلینی (864ء -941ء)، عباسی بادشاہ المقتدر باللہ کے زمانے کے بزرگ اخباری شيعہ فقيہ و محدث و عالمِ دين تھے. چونکہ وہ بغداد کے "درب السلسلہ" ميں آبسے تھے اسی وجہ سے انہيں "سلسلی" کا لقب ملا ہے. اور وہ سنہ 327ھ ميں درب السلسلہ ميں اور "صور" ميں نقل حديث کيا کرتے تھے.

شیخ   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
محمد بن یعقوب کلینی
(عربی میں: مُحمَّد بن يعقوب الكُليني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 864ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قم   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 941ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہ ،  عالم ،  الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلام [2]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں کتاب الکافی   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد ولد یعقوب کلینی (متوفی 329ھ)، ثقۃ الاسلام کلینی کے نام سے مشہور اکابرینِ فقہ و حدیث میں سے ہیں. وہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد دنیا میں آئے اور امام مہدی علیہ السلام کے ایامِ ظہور میں موجود تھے. ان بزرگ محدثین اور اصحاب سے ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جنھوں نے براہ راست امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام سے حدیثیں سنی تھیں. انھوں نے محمد بن یحیی اشعری، عبد اللہ بن جعفر حمیری، علی بن حسین بن بابویہ قمی، محمد بن یحیی عطار سمیت متعدد بزرگ اساتذہ سے فیض حاصل کیا ہے جبکہ ابن قولویہ، محمد بن علی ماجیلویہ قمی اور احمد بن محمد زراری ان کے شاگردوں میں شامل ہیں.

ثقۃ الإسلام، شيخ المشائخ، محمد ولد يعقوب ولد اسحق كُلينى رازى، (متوفی 328ھ یا 329ھ) غیبت صغری کے زمانے میں شیعہ اکابرین میں شمار ہوتے تھے اور تیسری صدی ہجری کے نصف سوم اور چوتھی صدی ہجری کے نصف اول کے عظیم ترین شیعہ محدثین کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں. وہ شیعوں کی بنیادی کتاب حدیث کتاب الکافی کے مصنف ہیں.

پیدائش کب اور کہاں

ترمیم

اس سوال کا صحیح و دقیق جواب میسر نہیں ہے تاہم سوانح نگاروں نے مسلم جانا ہے کہ ان کی ولادت شہر رے کے نواحی گاؤں کُلَین میں ہوئی ہے. ان کی وقتِ پیدائش کے بارے میں موجودہ قرائن اور علائم سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے یا بعد ـ یعنی سنہ ٢۵۵ ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہیں اور غیبت صغری کے زمانے میں رہے ہیں. بحر العلوم نے احتمال دیا ہے کہ ثقۃ الاسلام کُلینی نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کا حصہ پالیا ہے.[3]

اسماء و القاب

ترمیم

رجال کی کتب اور سوانح نگاروں نے، کلینی کے حالات زندگی لکھتے ہوئے انھیں جن عناوین اور القاب و کنیات سے یاد کیا ہے، ان میں ابوجعفر، محمد بن یعقوب، ابن اسحٰق، ثقۃ الاسلام، رازی، سِلسِلی اور بغدادی۔[4] وہ پہلے اسلامی عالم دین ہیں جنہیں "ثقۃ الاسلام" کے لقب سے نوازا گیا ہے؛ جس کی وجہ یہ ہے کہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے، علم و فضیلت کے لحاظ سے اعلی شان و منزلت کے مالک تھے، لوگوں کے دینی مسائل حل کرتے تھے اور عوام اپنے مسائل اور فتاویٰ کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔[5] انھیں سلسلی اس وجہ سے کہا گیا کہ بغداد جاکر وہ باب کوفہ میں واقع درب السلسلہ میں سکونت پزیر ہوئے تھے۔[6]

کلینی کا خاندان

ترمیم

کلینی کا خاندان علم و فضیلت کا خاندان ہے۔ ان کے والد یعقوب بن اسحق اپنے زمانے کے علما میں شمار ہوتے تھے اور ان کا دور غیبت صغری کا دور ہے۔[7] ابوالحسن علی بن محمد المعروف بہ علان رازی کلینی کے ماموں ہیں۔ محمد بن عقیل کلینی، احمد بن محمد، محمد بن احمد سب کلینی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعہ اکابرین اور علما اور بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔[8]

حدیث آموزی اور ہجرت بسوئے قم

ترمیم

رے، کلینی کے زمانے میں اسماعیلی، حنفی، شافعی اور شیعہ کے درمیان آراء و افکار کے معرکے کا مرکز سمجھا جاتا تھا چنانچہ انھوں نے حصول علم اور مختلف مذاہب کی آراء و افکار سے واقفیت کے ساتھ ساتھ حدیث نگاری کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے رے میں بزرگ عالم دین ابوالحسن محمد بن اسدی کوفی سے علم حدیث سیکھا[9] اور علم حدیث کی تکمیل کے لیے شہر قم مشرف ہوئے اور اس شہر میں ایسے ملاقات کے ساتھ ملاقاتیں کیں جنھوں نے براہ راست امام علی نقی علیہ السلام اور امام عسکری (ع) سے حدیثیں سنی تھیں اور بزرگ اساتذہ سے حصول فیض کیا۔

ذاتی اور علمی شخصیت

ترمیم
فائل:تمبر یادبود کلینی.jpg
یادگار ڈاک ٹکٹ

تراجم اور سوانح و تاریخ کی کتب میں ان کے تعارف اور حالات زندگی کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے حامی اور مخالفین نے کلینی کے علم و فضل اور عظمت و منزلت کی تصدیق کی ہے۔[10]

شیعہ اکابرین کی نظر میں

ترمیم

شیخ طوسی اپنی کتاب رجال میں میں لکھتے ہیں: محمد بن یعقوب کلینی المُکَنّٰی ابو جعفر اعور جلیل القدر عالم دین تھے اور روایت اور حدیث پر عبور رکھتے تھے، ان کی بعض تصانیف ہیں جن کا ذکر الکافی میں آیا ہے۔[11] انھوں نے اپنی ایک کتاب میں کلینی کو ثقہ اور اخبار و روایات کے عالم کے طور پر یاد کیا ہے۔[12]

شیعہ عالم رجال نجاشی کہتے ہیں: وہ کلینی اپنے زمانے میں شیعیانِ رے کے شیخ اور پیشوا اور اور علما کے درمیان علم حدیث اور ضبط و کتابت حدیث کے حوالے سے موثق ترین تھے۔ انھوں نے اپنی عظیم کتاب الکافی کو 20 سال کے عرصے میں تصنیف کیا ہے۔[13]

ابن شہرآشوب،[14] علامہ حلی،[15] ابن داود حلی، [16] تفرشی، [17] اردبیلی، [18] اور سید ابوالقاسم خوئی[19] سمیت دیگر تمام شیعہ علما نے کلینی کے سلسلے میں شیخ طوسی اور نجاشی کی عبارتوں کی تائید و تصدیق کی ہے۔ سید بن طاووس کا کہنا ہے کہ کلینی کی وثاقت اور امانت پر سب کا اتفاق ہے۔[20]

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں

ترمیم

مشہور سنی مؤرخ ابن اثیر: کلینی علمائے امامیہ کے علما اور اکابرین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔[21]
ذہبی: کلینی شیخِ شیعہ، عالمِ امامیہ اور صاحب تالیفات ہیں۔[22]
ابن حجر عسقلانی اور ابن ماکولا: وہ مذہب شیعہ کے فقہا اور مصنفین و مؤلفین میں سے ہیں۔[23]۔[24]
ابن عساکر نے بھی اپنی کتاب میں ان کو تعظیم و تکریم کے ساتھ یاد کیا ہے۔[25]

تصنیفات و تالیفات

ترمیم

محمد بن یعقوب کلینی الکافی کے علاوہ دوسری کتابیں بھی لکھیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی علمی مقام و منزلت کے حامل تھے۔ ان کی بعض تالیفات درج ذیل ہیں:

  • الرد علی القرامطہ: یہ کتاب قرمطیوں کے خلاف اور ان کے ناقابل قبول و گمراہ کن عقائد کی تردید کی غرض سے تالیف ہوئی ہے۔
  • رسائل الائمہ(ع)
  • تعبیر الرؤیا
  • کتاب الرجال
  • ما قیل فی الائمہ (علیہم السلام) من الشعر، جو کچھ ائمہ علیہم السلام کے بارے میں، شاعری کے حوالے سے کہا گیا ہے۔
  • الزی و التجمل
  • الدواجن و الرواجن
  • الوسائل
  • فضل القرآن۔[26]۔[27]۔[28]

اساتذہ

ترمیم

کہا جاتا ہے کہ کلینی نے 50 اساتذہ سے حصول فیض کیا ہے جنھوں نے حدیث املا کرنے (یا تحدیث) کے ساتھ ساتھ ان کے استاد کے عنوان سے بھی کردار ادا کیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ صاحب تفسیر قمی جناب علی بن ابراہیم قمی سے متاثر تھے جن کا نام انھوں نے الکافی کی 7068 اسناد حدیث میں نقل کیا ہے۔[29] ان کے دوسرے اہم اساتذہ میں کے نام درج ذیل ہے:

شاگرد اور راوی

ترمیم

ان کے شاگردوں اور ان سے نقل حدیث کرنے والوں میں بھی بعض اکابرین شیعہ شامل ہیں:

بغداد کی طرف عزیمت

ترمیم

تاریخی شواہد کے مطابق الکافی کی تالیف کے اختتام اور تاریخ وفات سے دو سال قبل سنہ 327 ہجری میں انھوں نے بغداد کا سفر اختیار کیا ہے؛ یوں وہ اپنی عمر کے آخری دو سال بغداد میں بسر کرچکے ہیں؛ بغداد ان ایام میں بڑا علمی مرکز تھا۔ سفر بغداد سے قبل الکافی کی تالیف کے اختتام کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ چاروں نائبین خاص (نواب اربعہ) کے معاصر تھے مگر انھوں نے ان سے کوئی بھی حدیث بلاواسطہ نقل نہیں کی ہے۔ چونکہ کلینی شیعہ اور سنی حلقوں میں یکسان طور پر مشہور و معروف تھے چنانچہ شیعہ اور سنی عوام نے فتوی کے لیے ان کی طرف رجوع کیا اور انھیں "ثقۃ الاسلام" کا لقب دیا۔[32]

وفات اور مدفن

ترمیم

کلینی شعبان المعظم سنہ 328 ہجری (سال تَناثُر نجوم کو (غیبت صغری کے خاتمے سے ایک سال قبل اور) غیبت کبری کے آغاز کے موقع پر (یا اس سے ایک سال قبل، 70 سال کی عمر میں شہر بغداد میں دار الفناء سے کوچ کرکے دارالبقاء کی طرف رحلت کرگئے۔[33] نجاشی اور شیخ طوسی نے روایت کی ہے کہ این گونہ محمد بن جعفر حسنی المعروف بہ ابو قیراط نے کلینی کی میت پر نماز ادا کی۔ ان کی تدفین باب کوفہ کے مقام پر ہوئی۔ بایں ہمہ ابن عبدون نامی شخص کا کہنا ہے کہ اس نے کلینی کے مقبرے کو شارع طائی پر دیکھا ہے جس کے اوپر ایک کتبہ نصب تھا جس پر کلینی اور ان کے والد کے نام درج تھے۔[34]۔[35]

محمد باقر خوانساری لکھتے ہیں: جو کچھ کلینی کے مرقد کے بارے میں مشہور ہے وہ یہ ہے کہ وہ بغداد اور دجلہ کی مشرقی جانب تکیہ مولویہ میں واقع ہے اور عامہ اور خاصہ ان کی زیارت کو آتے ہیں۔[36]

مزید دیکھیے

ترمیم

مآخذ

ترمیم
  • بحرالعلوم، سید محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تحقیق محمد صادق بحرالعلوم، تہران، مکتبہ الصادق، 1363ہجری شمسی۔
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی جا، بی نا، 1413ہجری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، بی جا، نشر الفقاہہ، 1417ہجری۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1416ہجری۔
  • غفار، عبد اللہ الرسول، الکلینی و الکافی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1416ہجری۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، 1413ہجری۔
  • زبیدی، محب الدین، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، 1414ہجری۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1415ہجری۔
  • ابن شہر آشوب، محمد علی، معالم العلماء، قم، بی نا، بی تا.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق جواد قیومی، بی جا، نشر الفقاہہ، 1417ہجری۔
  • ابن داود حلی، حسن بن علی، رجال ابن داود، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1392ہجری۔
  • تفرشی، محمد بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، 1418ہجری۔
  • اردبیلی، محمد علی، جامع الرواہ، بی جا، مکتبہ المحمدی، بی تا.
  • سید بن طاوس، علی بن موسی، کشف المحجہ لثمرہ المہجہ، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1370ہجری۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1386ہجری۔
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1390ہجری۔
  • ابن ماکولا، اکمال الکمال، بی جا، دار احیاء التراث العربی، بی تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، 1415ہجری۔
  • مدرس، محمد علی، ریحانہ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، خیام، 1369ہجری شمسی۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، بی تا.
  • قمی، شیخ عباس، سفینہ البحار، قم، اسوہ، بی تا.

حوالہ جات

ترمیم
  1. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015874193 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015874193 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  3. معجم رجال الحدیث، ج ١٩، ص ۵٨.
  4. الکلینی و الکافی، ص 124 و 125۔
  5. ریحانة الادب، ج 5، ص 79۔
  6. تاج العروس، ج 18، ص 482۔
  7. سفینة البحار، ج 2، ص 495۔
  8. روضات الجنات، ج 6، ص 108۔
  9. الکلینی و الکافی، ص 179۔
  10. الفوائد الرجالیہ، ج 3، ص 325۔
  11. رجال طوسی، ص 429۔
  12. الفہرست، ص 210۔
  13. رجال نجاشی، ص 377۔
  14. معالم العلماء، ص 134۔
  15. خلاصہ الاقوال، ص 245۔
  16. رجال ابن داوود، ص 187۔
  17. نقد الرجال، ج 4، ص 352۔
  18. جامع الرواہ، ج 2، ص 218۔
  19. معجم الرجال الحدیث، ج 19، ص 54۔
  20. کشف المحجة، ص 159۔
  21. الکامل فی التاریخ، ج 8، ص 364۔
  22. سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 280۔
  23. لسان المیزان،ج 5، ص 433۔
  24. اکمال الکمال، ج 7، ص 186۔
  25. تاریخ مدینہ دمشق، ج 56، ص 297۔
  26. رجال نجاشی، ص 377۔
  27. رجال طوسی، ص 429۔
  28. معالم العلماء، ص 134۔
  29. معجم رجال الحدیث، ج 19، ص 59۔
  30. الکلینی و الکافی، ص 166 اور بعض کے صفحات۔
  31. الکلینی و الکافی، ص 182 اور بعد کے صفحات۔
  32. الکلینی و الکافی، ص 264 - 267۔
  33. ریحانة الادب، ج 8، ص 80۔
  34. رجال نجاشی، ص 378۔۔
  35. الفہرست، ص 210 و 211۔
  36. روضات الجنات، ج6، ص 108۔