علی بن محمد سمری
علی بن محمد سَمُرِیّ (متوفی 329 ھ) غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ (عج) کے چوتھے اور آخری نائب خاص ہیں جو حسین بن روح نوبختی کے بعد تین سال کے لیے عہدہ نیابت پر فائز رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ ان کے مکاتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنجناب (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کی مدت نیابت باقی نائبین خاص کی نسبت مختصر رہی ہے لیکن تاریخی منابع میں اس کی کوئی خاص علت بھی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے شدید دباؤ اور اس دور کے سیاسی و سماجی حالات کی وجہ علی بن محمد سمری کی نیابت کے دوران ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی دوسروں کی نسبت واضح کمی آگئی تھی۔ امام زمانہ (ع) کی طرف سے آپ کے نام صادر ہونے والی توقیع جس میں امام (ع) نے آپ کی موت اور نیابت خاصہ کی مدت کے اختتام کی خبر دی تھی جو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں۔ ان کی وفات سے امام زمانہ (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہوا یوں غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔
علی بن محمد سمری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | 940ء کی دہائی |
شہریت | دولت عباسیہ |
لقب | سمری • صیمری |
عملی زندگی | |
پیشہ | سفارت کار |
درستی - ترمیم |
سوانح عمری
ترمیمعلی بن محمد سمری کی تاریخ ولادت کسی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ان کی کنیت ابو الحسن[1] اور ان کا لقب سَمَری، سَیمُری، سَیمَری و یا صیمَری بتا یا جاتا ہے لیکن وہ سَمَری کے نام سے مشہور تھے۔[2] سَمَّر یا سُمَّر[3] یا صیمر بصرہ کے کسی گاؤں کا نام ہے جہاں ان کے اقارب زندگی بسر کرتے تھے۔[4]
خاندان
ترمیمعلی بن محمد سمري ایک دیندار شیعہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا خاندان ائمہ معصومین کی خدمت گزاری کے حوالے سے مشہور تھے اور ان کی اسی خاندانی شرافت کی وجہ سے امام زمانہ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز ہونے میں انھیں زیادہ مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔[5]
یعقوبی کے مطابق ان کے خاندان کے بہت سارے اکابرین بصرہ میں وسیع املاک و جائداد کے مالک تھے جنھوں نے ان املاک کی نصف آمدنی گیارہویں امام(ع) کے لیے وقف کی تھی۔ امام(ع) ہر سال مذکورہ آمدنی وصول کرتے اور ان کے ساتھ خط کتابت کرتے تھے۔[6]
علی بن محمد سمری کے بعض دیگر اقارب میں سے علی بن محمد بن زیاد ہیں جو امام حسن عسکری(ع) کے وکلا میں سے تھے جنھوں نے امام زمانہ (عج) کی امامت کے اثبات کی غرض سے الاوصیاء کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔[7]
امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ قریبی تعلقات
ترمیمشیخ طوسی نے انھیں علی بن محمد صیمری کے عنوان سے امام حسن عسکری کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے۔[8] اور ان کے حضرت امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ مکاتبات بھی نقل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں: امام حسن عسکری (ع) نے مجھے لکھا کہ "تمھیں گمراہ کرنے والا ایک فتنہ پیش آنے والا ہے۔ پس اس سے ہوشیار رہو اور اس سے پرہیز کرو" اس کے تین دن بعد بنی ہاشم کے لیے ایک ناگوار حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے بنی ہاشم کے لیے بہت ساری دشواریاں پیش آئیں۔ اس وقت میں نے امام کو ایک خط لکھا اور سوال کیا کہ آیا وہ فتنہ جس کے بارے میں آپ نے پیشن گوئی کی تھی یہی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں وہ اس کے علاوہ ہے لہذا اپنی حفاظت کریں۔ اس کے کچھ دن بعد عباسی خلیفہ معتز بالله کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔[9]
وفات
ترمیمشیخ طوسی کی مطابق علی بن محمد سمری نے سنہ 329 ہجری میں وفات پائی اور ان کا جنازہ بغداد میں نہر ابو عتاب کے نزدیک خیابان خَلَنْجی میں دفن کیا گیا۔[10] ان کی قبر کلینی کے مقبرہ کے قریب واقع ہے۔[11] صاحب اعیان الشیعہ نے ان کی وفات کی تاریخ کو 15 شعبان قرار دیا ہے۔[12] جبکہ شیخ صدوق اور طبرسی نے سنہ 328 ھ ان کی تاریخ وفات قرار دی ہے۔[13] [14]
امام زمانہ (ع) کی نیابت
ترمیممنقولہ روایات کے مطابق حسین بن روح نوبختی نے ابو الحسن علی بن محمد سمری کو اپنے جانشین اور امام زمانہ کے چوتھے نائب کے طور پر مقرر کرنے کی وصیت کی جسے تمام شیعیان اہل بیت اور مکتب ولایت و امامت کے تمام پیروکاروں نے بغیر کسی اختلاف کے تسلیم کیں۔ حسین بن روح نے اس کام کو امام زمانہ (عج) کے صریح حکم کے مطابق انجام دیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی متعین حدیث نقل نہیں ہوئی جس میں امام زمانہ(عج) نے حسین بن روح نوبختی کو ایسا کوئی حکم دیا ہو۔ لیکن احادیث میں بطور عموم بیان ہوا ہے جس نائب کی وفات کا وقت آن پہنچے وہ امام(عج) کے حکم پر اپنا جانشین متعین کرتا ہے اور اس تعین و تقرر میں اس کی ذاتی رائے کا عمل دخل نہیں ہوتا۔
احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی اپنی کتاب الاحتجاج علی اہل اللجاج میں لکھتے ہیں: ان نُواب میں سے کوئی بھی اس اعلی منصب پر فائز نہیں ہوا مگر یہ کہ پہلے صاحب الامر کی طرف سے ان کی تقرری کا حکم جاری فرماتے تھے اور [آپ(عج) ہی کے حکم پر] سابقہ نائب اگلے نائب کی جانشینی کا اعلان کرتے تھے۔[15]
نیابت کا دور
ترمیمامام زمانہ کے پچھلے تین نائبوں کے ساتھ علی بن محمد سمری کا کیا تعاون رہا اس حوالے سے کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں حتی ان کی اپنی نیابت کے دوران بھی ان کی کسی خاص سرگرمیوں کے بارے میں کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔[16] لیکن کہا جاتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان کی عظمت و جلالت اور ان پر اتنا ہی بھروسا تھا جتنا ان سے پہلے والے نائبین پر تھا اور پہلے والے نائبین کی طرح تمام شیعوں ان کو بھی تسلیم کرتے تھے۔[17] شیخ صدوق کی روایت کے مطابق بغداد سمیت دوسرے بلاد اسلامی میں موجود تمام وکلا انھیں امام زمانہ کا نائب برحق سمجھتے تھے اور وجوہات شرعی ان کے حوالے کرتے تھے۔[18]
علی بن محمد سمری کی نیابت کا عرصہ ظلم و ستم اور خونریزی کا دور تھا اسی وجہ سے پہلے والے نائبین کی نسبت ان کی سرگرمیاں مخفی طور پر حکومت وقت کے کے کارندوں کے نظروں سے دور انجام پاتی تھی۔[19] بعض محققین کے مطابق علی بن محمد سمری کی نیابت کے عرصے کا مختصر ہونے اور غیبت صغری اور نیابت خاصہ کے دور کے ختم ہونے کی اصلی علت بھی عباسی خلفاء کی جانب سے حد سے زیادہ دباؤ اور سختی بتائی جاتی ہے۔[20][21]
سمری کے نام امام زمانہ کی توقیع
ترمیمعلی بن محمد سمری کی وفات سے چھ دن پہلے امام زمانہ (ع) کی طرف سے ان کے نام ایک توقیع صادر ہوئی۔ امام (ع) نے اس توقیع میں سمری کی وفات اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے ان کو اپنے کاموں کو سمیٹنے اور کسی اور کو اپنا جانشین مقرر نہ کرنے کا حکم دیا۔[22][23] مقررہ تاریخ کو علی بن محمد سمری کے وکلا ان کے پاس جمع ہو گئے او ان سے پوچھا کہ تمھارا جانشین کون ہوگا؟ سمری نے جواب دیا: "امر خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا خود اس کی حفاظت کرے گا"۔ یہ وہ آخری جملہ تھا جو سمری کی وفات سے پہلے ان کے منہ سے نکلا۔[24]سمری کی وفات کے بعد امام زمانہ (ع) کا ان کے نائبین خاص کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔[25]
کرامات
ترمیماحادیث کی کتابوں میں علی بن محمد سمری کے حوالے سے مختلف کرامات نقل ہوئی ہیں جو حقیقت میں شیعوں کی شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے تھیں۔ شہر مقدس قم سے آئے ہوئے وفد کو ابن بابویہ (شیخ صدوق کے والد محترم) کی وفات کی خبر دینا انہی کرامات میں سے ایک ہے۔[26] صالح بن شعیب طالقانی، احمد بن ابراہیم مخلد سے نقل کرتے ہیں کہ میں بغداد میں علما و مشایخ کے پاس پہنچا جہاں پر علی بن محمد سمری بھی حاضر تھے۔ انھوں نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: خدا علی بن بابویہ قمی (شیخ صدوق کے والد) پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ اس مجلس میں موجود مشایخ نے اس تاریخ کو نوٹ کیا بعد میں پتہ چلا کہ علی بن بابویہ اسی تاریخ کو وفات پا گئے تھے۔[27]
متعلقہ مآخذ
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، 1352ق، ج2، ص305.
- ↑ صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص413.
- ↑ نہاوندی، العبقری الحسان، 1386ش، ج5، ص116.
- ↑ جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص479.
- ↑ جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص210.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص583 بہ نقل از اثبات الوصیہ، 1426ق، ص255.
- ↑ جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص479.
- ↑ طوسی، رجال، ص389.
- ↑ صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص199.
- ↑ طوسی، الغیبۃ، 1411ق، ص396.
- ↑ رہ توشہ عتبات عالیات، ص394.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص48.
- ↑ صدوق، کمال الدین، 1359ش، ج2، ص503.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص260.
- ↑ طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ج2، ص478.
- ↑ جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص480.
- ↑ صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص413.
- ↑ صدوق، کمال الدین، 1359ش،ج2، ص517.
- ↑ غفارزادہ، زندگانی نواب خاص امام زمان، 1375ش، ص304.
- ↑ صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص414.
- ↑ جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص480.
- ↑ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص516.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1383ش، ج2، ص555-556.
- ↑ طوسی، الغیبۃ، 1411ق، ص395.
- ↑ صدر، تاریخ الغیبہ، 1412ق، ج1، ص414.
- ↑ طوسی، الغیبۃ، 1411ق، ص396.
- ↑ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص503.
مآخذ
ترمیم- امین عاملی، سید محسن، اعيان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، 1403ق.
- جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، ترجمہ محمد تقی آیت اللہی، امیرکبیر، تہران، 1385ش.
- جباری، محمدرضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی، 1382ش.
- جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، ١٣٨١ش.
- جمعی از نویسندگان، رہتوشہ عتبات عالیات، تہران، مشعر، 1388ش.
- صدر، سید محمد، تاریخ الغیبہ، بیروت، دارالتعارف، 1412ق.
- صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، 1395ق.
- صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، اسلامیہ، 1395ق.
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، اسوہ، 1383ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل البیت، 1417ق.
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، جامعہ مدرسین، 1373ش.
- طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1411ق.
- مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، المطبعۃ المرتضویۃ، 1352ق.
- نہاوندی، علیاکبر، العبقری الحسان فی احوال مولانا صاحب الزمان، قم، مسجد جمکران، 1386ش.