عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ

عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ (انگریزی: History of the People's Republic of China) کا باب برعظیم چین میں 1 اکتوبر 1949ٗ سے شروع ہوتا ہے جب چینی خانہ جنگی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماوزے تنگ نے تائی نان میم سے چین کی جمہوریت کا اعلان کیا۔عوامی جمہوری چین کئی دہائیوں تک چین کا دوسرا نام رہا، اس سے قبل اس کا نام جمہوریہ چین (1929ء تا 1949ء) تھا اور اس سے بھی قبل چین میں چینی تاریخ کے شاہی خاندانوں کا ایک دراز سلسلہ ہے۔

1949ء تا 1976ء: ماؤ زے تنگ) کی زیر حکمرانی سماجی تبدیلی

ترمیم

چینی خانہ جنگی اور چین کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد ماؤ زے تنگ کی چینی کمیونسٹ پارٹی کی افواج نے چیانگ کائی شیک کی افواج کومنتانگ کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جنھوں نے تائیوان میں جا کر پناہ لی۔ 1 اکتوبر 1949ء کو ماؤ نے جمہوریہ چین کا اعلان کر دیا جس کے بعد انھوں نے چین کی مکمل زمین کو منظم کرنے کی فیصلہ کیا۔ قدیم زمینداری نظام کرو منسوخ کر کے غریب اور غیر زمیندار کسانوں کو زمین بانٹ دی گئی۔جس سے حیرت انگیز طور پر معاشی مساوات میں ترقی دیکھنے کو ملی۔ اس تحریک کے تحت ایک ملین سے زائد زمینداروں کو قتل کر دیا دیا۔[1] کئی زمیندار اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اب چین میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے پاس زمین کا کچھ حصہ نہ ہو نتیجہ یہ ہوا غیر زمین دار طبقہ مفقود ہو گیا اور اوسط درجہ کا خاندان (مڈل کلاس) کا آغاز ہوا۔ گاؤں کی 90 فیصد آبادی چین کی 90ء8 فیصد زمین کی مالک بنی۔[2] 1953ء میں سابق زمینداروں کے قتل کا حکم جاری ہوا۔ نشہ کا کاروبار اور غیر ملکی سرمایہ کاری بھی تقریباً ختم ہو گئی۔ ماؤ اشتراکیت میں یقین رکھتے تھے۔ان کا ماننا تھا اشتراکیت کو تمام دیگر نظریوں پر فوقیت حاصل ہے۔ شروع کے پانچ سال سوویت سے متاثر مبنی بر مرکز معاشی نظام رائج تھا۔1958ء میں ماؤ نے معاشی ترقی کے کئی فیصلے لیے جن میں دیہی علاقوں میں کھیتی باڑی کو فروغ دینا جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اسٹیل کی پیداوار کو بڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔ ایسا نہیں تھا ماؤ صرف مثبت کام کررہا تھا۔ اس کے فیصلوں نے تقریباً 70 ملین سے زیادہ جانیں لیں جس میں امن کے دوران میں ہوئی قحط سالی سے ہوئی اموات بھی شامل ہیں۔[3] لیکن اس کے باوجود وہ معاشی ترقی، ثقافتی انقلاب اور بایاں بازو مخالف تحریک (1957ء-1958ء) کا ذمہ دار بھی ہے۔[4] ماؤ کے اصلاحات ارضی کی وجہ سے لاکھوں لوگ زبردست مزدوری اور اور قتل کے سبب جاں بحق ہوئے۔اسی دوران میں زبردست قحط پرا جس میں 1958ء تا 1961ء کے دوران میں 30 ملین لوگوں کی جانیں گئیں۔ 1961ء کے اخیر میں غذا کی کمی کی وجہ سے شرح پیدائش تقریباً نصف ہو گئی۔[5] لیکن ماؤ کے نظریات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بخشا نہیں گیا۔[6] 1966ء میں ماؤ نے ثقافتی انقلاب کی ابتدا کی۔ اور یہ تحریک چین کے چپہ چپہ تک پہنچی۔1976ء میں ماؤ کی وفات تک یہ تحریک چلتی رہی۔ ماب نظریات کی تائید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صدی میں پہلی دفعہ چین میں اتحاد اور مستحکم حکومت دیکھنے کو ملی ہے۔اور ساتھ ہی بنیادی ڈھانچہ، صنعت، تعلیم اور صحت میں زبردست ترقی اور اصلاح دیکھنے کو ملی ہے۔ 1949ء میں محض 20 فیصد لوگ ہی خواندہ تھے جبکہ 30 سال بعد ہی 65ء5 فیصد لوگ خواندہ ہو گئے۔[7] جس سے معیار زندگی میں ترقی ہوئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Stephen Rosskamm Shalom. Deaths in China Due to Communism. Center for Asian Studies Arizona State University, 1984. آئی ایس بی این 0-939252-11-2 pg 24
  2. The Great Leveler: Violence and the History of Inequality from the Stone Age to the Twenty-First Century ، Walter Scheidel, 2017
  3. J Fenby (2008)۔ Modern China: The Fall and Rise of a Great Power, 1850 to the Present۔ Ecco Press۔ صفحہ: 351۔ ISBN 0-06-166116-3۔ Mao's responsibility for the extinction of anywhere from 40 to 70 million lives brands him as a mass killer greater than Hitler or Stalin, his indifference to the suffering and the loss of humans breathtaking 
  4. Teiwes, Frederick C.، and Warren Sun. 1999. China's road to disaster: Mao, central politicians, and provincial leaders in the unfolding of the great leap forward, 1955–1959۔ Contemporary China papers. Armonk, N.Y.: M.E. Sharpe. pp. 52–55.
  5. MacFarquhar, Roderick. 1974. The origins of the Cultural Revolution. London: Published for Royal Institute of International Affairs, East Asian Institute of Columbia University and Research Institute on Communist Affairs of Columbia by Oxford University Press. p 4.
  6. Perry Link (جولائی 18, 2007)۔ "Legacy Of a Maoist Injustice"۔ The Washington Post 
  7. Marte Kjær Galtung، Stig Stenslie (2014)۔ 49 Myths about China۔ Rowman & Littlefield۔ صفحہ: 189۔ ISBN 978-1-4422-3622-6