عہد شاہ جہاں میں مغلیہ طرز تعمیر

مغلیہ سلطنت کے پانچویں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہدِ حکومت کو مغل طرز تعمیر میں بلند پایہ مقام حاصل ہے۔ کیونکہ شاہ جہاں کوعمارات کی تعمیرات کے سلسلے میں انجنئیر شہنشاہ تسلیم کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں شاہ جہاں کو تعمیراتی کاموں میں حصہ لینے کی بناء پر امتیازی درجہ حاصل ہے۔ تقریباً تیس سال سے زائد کے عرصہ میں مغل ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں عمارات تعمیر کی گئیں جن میں مساجد، محلات، مقابر اور باغات شامل ہیں۔دہلی کا لال قلعہ (جسے قلعۂ معلّٰی بھی کہا جاتا تھا) ، دہلی کی جامع مسجد، آگرہ کا تاج محل، ٹھٹہ کی شاہ جہانی مسجد، لاہور کا شالامار باغ اور وزیر خان مسجد ، مقبرہ علی مردان خان،عہدِ شاہ جہانی میں تعمیر کی گئیں۔لاہور، اجمیر، دہلی سمیت بڑے شہروں میں مساجد بھی عہدِ شاہ جہانی کے طرزِ تعمیر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔

آگرہ کا تاج محل، جسے مغلیہ طرز تعمیر کا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔

شاہ جہانی تعمیرات کی نمایاں خصوصیات

ترمیم

شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں تعمیر ہونے والی عمارات (جو موجود ہ دَور میں ہنوز باقی ہیں) میں سنگِ مرمر کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ شاہ جہاں نے آگرہ اور لاہور کے قلعوں کے علاوہ اور بہت سے مقامات پر شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے ادوارِ حکومت میں تعمیر ہونے والی مٹی سے بنی ہوئی عمارات کو منہدم کروا دیا اور اُس کی بجائے سنگ مرمر سے نئی عمارات تعمیر کروائیں۔راجپوتانہ کے علاقہ مکرانہ میں اعلیٰ تعمیراتی فن دیکھنے میں نمایاں رہا۔شاہ جہاں کے تیس سالہ دورِ حکومت کو تعمیرات کے حوالے سے سنہری دور کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں نے اپنی تمام تر خواہشات کو عمارات کی شکل میں مختلف شاہکاروں کی صورت میں پورا کیا۔اُس نے کسی ایک عمارت کے پورے ہونے کا اِنتظار کیے بغیر ایک ہی وقت میں بے شمار عمارات تعمیر کروانا شروع کیں۔لیکن تہذیب و ثقافت کے دوسرے فنون مثلاً ادب اور مصوری جسے سابقہ مغل شہنشاہوں بابر، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر کے عہدہائے حکومت میں فروغ دیا گیا، یہ فنون شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں اُس کی سرپرستی سے محروم رہے کیونکہ اُس نے اپنی تمام تر توجہ عمارات پر ہی مرکوز رکھی۔ اُس کے پیشرو شہنشاہوں کی تعمیرات کو صرف ابتدائی درجہ حاصل رہا مگر شاہ جہاں کی تعمیر کردہ عمارات میں مغلیہ طرز تعمیر اپنے مکمل عروج اور اپنی تمام تر صلاحیتوں سے تکمیل کو پہنچتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔[1]

فنون لطیفہ کے ممتاز ماہر، مؤرخ اور نقاد پرسی براؤن (پیدائش: 1872–وفات: 1955ء) نے لکھا ہے کہ:

’’آگستس فخر کیا کرتا تھا کہ اُس نے جب روم کوحاصل کیا تو اُسے اینٹوں کا پایا، لیکن جب اُسے چھوڑا تو وہ سفید پتھر کا بنا ہوا تھا۔ یہی مثال شاہ جہاں پر صادِق آتی ہے ، جس نے مٹی اور گارے کے بنے ہوئے شہروں کو اپنی زندگی میں سفید پتھروں (یعنی سنگ مرمر) سے ملبوس کردیا۔‘‘

عہد شاہ جہانی میں تعمیر ہونے والی عمارات

ترمیم
 
دہلی کا لال قلعہ

1639ء میں شاہ جہاں نے آگرہ کے نشیب و فراز سطحی مقامات اور آبادی کی تنگی سمیت فوجی ضروریات کے تحت دہلی میں نئے قلعہ کی بنیاد کا حکم دیا۔12 مئی 1639ء کو لال قلعہ کی بنیاد رکھی گئی جبکہ 8 سال 10 مہینے اور 25 دن کی مدت کے بعد 6 اپریل 1648ء کو اِس کی تعمیر مکمل ہوئی۔376 سال کے بعد بھی یہ قلعہ مغلیہ طرز تعمیرکی نہج پر تعمیر ہونے والا سنگین مضبوط قلعہ ہے جو آج بھی اپنی مضبوط بنیادوں پر برقرار ہے، اِس لیے اِسے مغلیہ طرز تعمیر کی سنہری یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لال قلعہ تقریباً 210 سال تک مغل شہنشاہوں کی اقامت گاہ رہا اور یہیں سے شاہ جہاں سے لے کر آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر تک حکمرانی کرتے رہے۔لال قلعہ کو مشرق کے قلعوں میں سب سے زیادہ مضبوط اور شاندار قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔

آگرہ کے لال قلعہ میں تعمیرات

ترمیم

آگرہ اور لاہور کے قلعوں میں جو موجودہ عمارات دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ سب شاہ جہاں نے اَز سر نَو تعمیر کروائی تھیں۔ اُس نے ٓگرہ کے لال قلعہ میں نمایاں تبدیلیاں کیں اور جہانگیری محل کا پورا شمالی حصہ منہدم کروا دیا اور اُس کی جگہ سنگ مرمر سے دیوان عام، دیوانِ خاص، خاص محل، شیش محل اور مثمن برج، انگوری باغ، ماچھی بھون اور موتی مسجد تعمیر کروائی۔ اِن تبدیلیوں اور نام کے اِضافوں اور احوال اُس زمانے کی تمام تاریخی نگارشات میں موجود ہیں۔[2]

 
ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد

مزید دیکھیں

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عظیم مغلیہ عہد: صفحہ621۔
  2. عظیم مغلیہ عہد: صفحہ621۔