عیسیٰ بن ابان
امام عیسیٰ بن ابان فقہائے احناف میں سے ہیں اصحاب حدیث تھے لیکن فقہ غالب آگئی۔عراق کے فقیہ ہیں۔محمد بن الحسن کے شاگرد ہیں اور بصرہ کے قاضی تھے۔
عیسیٰ بن ابان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 8ویں صدی |
تاریخ وفات | سنہ 835ء (84–85 سال) |
شہریت | دولت عباسیہ |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام عیسیٰ والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے،پورانسب نامہ یہ ہے۔عیسیٰ بن ابان بن صدقة بن عدی بن مرادن شاہ۔کنیت ابوموسی ہے۔ [1]
کنیت
ترمیماکثر ترجمہ نگاروں نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابو محمد ذکر کی ہے [2]
تحصیل فقہ
ترمیمحافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیاتھا۔ چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء جلد10،صفحہ 440میں لکھتے ہیں۔فقیہ العراق، تلمیذ محمد بن الحسن:( وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے)۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں وتفقہ علیہ یعنی عیسیٰ بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاد محمد بن الحسن ہیں۔ عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینے براہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گئے تو عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے خط کتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔عیسیٰ بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہے اور عیسیٰ بن ابان کاانتقال 220ہجری میں ہوا۔
تلامذہ
ترمیممختلف ذمہ داریوں بالخصوص کارقضاکے نازک فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ عیسیٰ بن ابان نے درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا، عیسیٰ بن ابان کی بہتر تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھاکہ آپ کے شاگرد آگے چل کر آسمان علم و فضل کے آفتاب وماہتاب ہوئے، عیسیٰ بن ابان کے چند ممتاز شاگردوں کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔
ہلال بن یحییٰ الرائے (000-245ھ = 000-859م)
ابوخازم(000-292ھ=000-905م)آپ کا نام عبد الحمید اوروالد کانام عبد العزیز ہے، ابوخازم کنیت ہے، بکاربن قتیبہ (182-270ھ=798-884م) [3]
حسن بن سلام السواق: [4]
عہدہ قضاء
ترمیمقضاء کی ذمہ داری بہت بھاری اورگرانقدر ذمہ داری ہے، اس میں مسائل واحکام کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مردم شناسی اورلوگوں کے مزاج سے واقفیت،بیداری مغزی اورکسی کی ظاہری صورت سے متاثرنہ ہونے کی شرطیں شامل ہیں۔عیسیٰ بن ابان ان اوصاف سے متصف تھے لہٰذاان کی انھیں خوبیوں کودیکھتے ہوئے عباسی خلافت میں مامون الرشید کے دور میں قاضی القضاة یحییٰ بن اکثم نے ان کواپنانائب بنایا اور پھر واپسی پران کو مستقل طور پر بصرہ کاقاضی بنادیا۔ خطیب بغدادی نے بیان کیاہے کہ ان کو211ہجری میں اسماعیل بن حماد کی معزولی کے بعد بصرہ کاقاضی بنایاگیاتھااورانتقال تک وہ بصرہ کے قاضی رہے۔اس زمانہ میں بصرہ علمی لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے شہروں میں شمار ہوتاتھا،ایسے میں ان کوبصرہ کاقاضی بنانایہ بتاتاہے کہ قاضی یحییٰ بن اکثم ان کے علم و فضل سے کتنے متاثر تھے۔
قضاکے باب میں ان کی خاص صفت یہ تھی کہ وہ اپنے حکموں کا اجرا اورفیصلوں کانفاذ بہت جلد کرایاکرتے تھے؛چنانچہ ابن ندیم ان کی اس خصوصیت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔"کان فقیہا سریع الانفاذ للحکم"وہ فقیہ تھے اورحکم کو جلد نافذ کرتے تھے۔(الفہرست لابن الندیم)
تصنیفات وتالیفات
ترمیمانھوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربہ طورخاص اصولِ فقہ میں گراں قدر اضافہ کیاہے،ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام کے ساتھ ”صاحب التصانیف“ کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف وتالیف میں بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی، اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انھوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،
1- کتاب الحجة
2- کتاب خبر الواحد
3- کتاب الجامع
4- کتاب اثبات القیاس
5- کتاب اجتہاد الرائے [5]
امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:
6- الحجج الصغیر (الفصول فی الاصول)
صاحب ہدیة العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔
7-الحجة الصغیرة فی الحدیث.(اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ سے کوئی اورکتاب ہے)
8- کتاب الجامع فی الفقہ.
9- کتاب الحج.
10-کتاب الشھادات.
11-کتاب العلل.
12-فی الفقہ.[6]
انتقال
ترمیمامام عیسیٰ بن ابان کاانتقال کب ہوا، اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں،بعض نے 220ہجری قراردیاہے؛جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے؛لیکن 221کاقول زیادہ معتب رہے؛ کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسیٰ بن ابان کے محض19-20سال بعد ہوا ہے،انھوں نے عیسیٰ بن ابان کی تاریخ وفات221 ہجری ہی بتائی ہے،علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتدا 221ہجری میں ان کاانتقال ہو گیا۔اسی طرح حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام اورسیر اعلام النبلاء میں بھی تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکرکیاہے