غلام محی الدین چشتی مکھڈ شریف کی درسگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ انھیں خرقہ خلافت خواجہ اللہ بخش تونسوی نے عطا کیا تھا۔

غلام محی الدین چشتی
ذاتی
پیدائش(1275ھ بمطابق 1858ء)
وفاتً (ماہ ذو الحجہ 1338ھ بمطابق 1920ء) (62 سال)
مذہباسلام
والدین
  • میاں محمد مکھڈوی (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممکھڈ شریف
دورانیسویں ، بیسویں صدی
پیشروخواجہ زین الدین ، خواجہ اللہ بخش تونسوی
جانشینغلام زین الدین چشتی

پیدائش

ترمیم

ولی کامل ، شیخ طریقت ، امیر شریعت ، حضرت خواجہ غلام محی الدین چشتی نظامی 1275ھ بمطابق 1858ء کو مکھڈ شریف تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک میں جناب میاں محمد بن حافظ حسن کے گھر میں پیدا ہوئے۔

آبا ؤ اجداد کا وطن

ترمیم

آپ کے آبا و اجداد موضع تھوہامحرم خان تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے ہجرت مکانی کر کے مکھڈ شریف میں آباد ہوئے تھے۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

غلام محی الدین چشتی بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ دادا جناب حافظ محمد محسن نے تربیت و تعلیم پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا جناب حافظ محمد حسن سے حاصل کی۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے مولوی محمد قاسم ساکن بٹھو ، نزد فتح جنگ ضلع اٹک اور مولوی خورشید لنگڑیال ، حافظ عبد القدوس چھابھی اورمولانا خان محمد مرجانی سے علوم درسیہ کی تحصیل حاصل کی۔

بیعت و خلافت

ترمیم

1295ھ میں جب غلام محی الدین چشتی کے نانا حضرت خواجہ زین الدین کا وصال با کمال ہوا تو خواجہ اللہ بخش تونسوی نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور اجازت بیعت و ارشاد عطا فرمائی گی۔

سعادت حج بیت اللہ شریف

ترمیم

1295ھ میں غلام محی الدین چشتی کو حج بیت الله شریف کی سعادت نصیب ہوئی اور زیارت روضہ رسول کریم سے بھی مشرف ہوئے۔ [1]

زین الدین کی پیدائش

ترمیم

غلام محی الدین چشی کے ہاں حضرت خواجہ غلام زین الدین چشتی شعبان المعظم 1332ھ بمطابق 1912ء کو مکھڈ شریف ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ خواجہ زین الدین چشتی اپنے والدین کے سب سے چھوٹے صاحبزادہ تھے اس لیے والد ماجد آپ سے نہایت پیار و محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ غلام محی الدین چشتی نے اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے غلام زین الدین کے متعلق پیشن گوئی فرمائی تھی کہ میرا یہ بیٹا بڑا ہو کر اپنے وقت کا کامل ولی بنے گا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ایک گوہر نایاب بن کر ابھرے گا۔ اندھیروں اور گمراہی و جہالت میں ڈوبے ہوئے ایک خطے کو آباد کرے گا اور وہاں رشد و ہدایت کے سدا بہار اور لازوال دیے جلائے گا۔ حضرت خواجہ غلام زین الدین نظامی نے قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے پائی۔ [2]

مدرسہ محمد علی

ترمیم

اس دور میں مدرسہ مولوی محمد علی صاحب کی رونق میں اضافہ ہوتا گیا تشنگان علوم دینیہ دور دور سے آ کر پیاس بجھاتے تھے۔ غلام محی الدین چشتی خود ہی مدرسہ کے مہتہم اور مدرس تھے۔ کتابوں کے ذخیره میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ مدرسہ سے الگ عمارت تعمیر کرائی اور کتابوں کو ترتیب سے الماریوں میں رکھوایا۔ ایک بہترین منتظم کی حیثیت سے مدرسے اور خانقاہ کا نظام چلاتے رہے۔

وصال با کمال

ترمیم

غلام محی الدین چشتی کا وصال با کمال ماہ ذو الحجہ میں 1338ھ بمطابق 1920 میں ہوا۔ مزار پر انوار مکھڈ شریف تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک میں مرجع خاص و عام ہے۔

اولاد

ترمیم

غلام محی الدین چشتی کے پسماندگان میں تین صاحبزادے ہیں۔

  1. احمد الدين
  2. محمد الدين
  3. غلام زین الدین چشتی

سیرت و کردار

ترمیم

غلام محی الدین چشتی نے اپنی تمام زندگی اپنے اسلاف کے اصولوں کے مطابق گزاری۔ شریعت و طریقت کی پابندی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ ہر وقت ذکر خدا میں مصروف رہتے آنکھوں میں حسن رسول کا جلوہ سمایا رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سنتے تو تڑپ جاتے آنکھوں سے آنسوؤں لڑیاں بہہ جاتی۔ تقوی پرہیز گاری کا پیکر تھے۔ اخلاق اس قدر اعلی درجہ کا تھا کہ آنے والا انداز گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ [3]


حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 485
  2. حیات مرشد مولف حاجی محمد قاسم شاہ قریشی صفحہ 6
  3. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 486